اداریہ

ایمرجنسی کی سالگرہ!

25؍ جون 2020کو ایمرجنسی کے 45 سال پورے ہوگئے ہیں ۔ ہر سال بی جے پی اور دیگر غیر کانگریسی پارٹیوں کے لیے یہ دن اندراگاندھی اور ان کی پارٹی کو نشان ملامت بنانے کا ایک سالانہ موقع ہوتا ہے۔
سال 1975 کے اسی دن اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا جب حکومت نے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کو معطل کرتے ہوئے اپنے ہی عوام کے خلاف عرصہ حیات تنگ کردیا تھا جس کے نتیجے میں ملک21 ماہ تک آمریت کا یرغمال بنا رہا۔ اس عرصے کے دوران مختلف اداروں کو کمزور کیا گیا، اپوزیشن اور مختلف جماعتوں کے قائدین و وابستگان نذرِ زنداں کر دیےگئے،بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور صحافت کی آزادی کو بری طرح کچلا گیا۔
25 جون 1975 کا دن صرف ایمرجنسی کی تلخیوں سے ہی عبارت نہیں ہے بلکہ یہ دن اس جدوجہد کی بھی یاد دلاتا ہے جب جئے پرکاش نارائن جیسے لیڈر کسی دباؤ میں آئے بغیر وزیر اعظم اندراگاندھی سے استعفیٰ دینے کے مطالبہ پر ڈٹ گئے تھے کیونکہ وہ صریح طور پر آئین و جمہوریت کی مجرم تھیں۔ اس وقت ملک کی عدالت عظمیٰ نے الہ آباد
ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر مکمل حکم التوا دینے سے انکار کیا تھا جس میں اندرا گاندھی کو انتخابی بدعنوانیوں کے لیے قصوروار قرار دیا گیا تھا۔
ایمرجنسی کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ اس وقت ہزارہا شہریوں نے اندرا گاندھی کے پولیس اسٹیٹ کو نامنظور کرتے ہوئے جمہوریت اور آئین و قانون کی بالا دستی کے تئیں اپنی زبردست ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تھا نیز، غیر قانونی گرفتاریوں ،قید وبند کی صعوبتوں اور استبداد و ہراسانیوں کو گوارا کیا تھا۔ ان سب واقعات کے حوالے سے بی جے پی ہر سال کانگریس کو مطعون کرتی ہے۔ چناں چہ اس مرتبہ بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر قائدین نے کانگریس کو نشانے پر لیا ہے۔ نائب صدر و صدر نشین راجیہ سبھا وینکیّا نائیڈو نے ایمرجنسی کے سخت حالات کو یاد کرتے ہوئے اسے دوسری جدوجہد آزادی سے تعبیر کیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ’’ 45 سال پہلے اسی دن ایک خاندان کے اقتدار کے لالچ نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ راتوں رات ملک کو جیل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ پریس، عدالتیں، آزادی تقریر … سب پر قدغن لگا دی گئی تھی اور غریب اور پسماندہ افراد پر مظالم ڈھائے گئے تھے‘‘۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ایمرجنسی کی تصاویر پر مشتمل ایک ویڈیو پیام کے ساتھ ٹویٹ کیا ’’ جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی تو اس کی مخالفت صرف سیاست یا سیاست دانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ عام لوگوں میں بھی زبردست برہمی تھی ۔۔۔اور یہ برہمی محض جمہوریت عطا کرنے والے دستور کے خاتمے ہی کی وجہ ہی سے نہیں تھی ۔۔۔ اس وجہ سے تھی کہ جمہوریت ہماری ثقافت اور میراث کا حصہ رہی ہے اور اس پر ہمیں فخر بھی ہے‘‘۔ گرچہ بی جے پی قائدین کے بیانات اور وزیراعظم کے اس تبصرہ میں کوئی بات بھی خلاف واقعہ نہیں ہے، لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ان کی زیر قیادت حکومت کے 6 برس جمہوریت کے مسلمہ معیارات ، جمہوری اصولوں و اقدار کے بالکل منافی رہے ہیں اور عوامی خط اعتماد کے ساتھ منتخب ’’جمہوری حکومت‘‘ بالعموم پارلیمانی جمہوری روایات سے گریزاں اور عملاً دو افراد کی آمریت کے زیر اثر رہی ہے۔
دوسری طرف آئینی اداروں کا کمزور کیا جانا ، انصاف رسانی میں عدل کے تقاضوں کا عدم لحاظ ، جمہوریت کے تحفظ اور شہریت کے مساوی حقوق کی حمایت اور غیر آئینی قوانین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا،حکومت کے مخالفین پر مقدمات ، ہجومی تشدد کے سلسلہ وار واقعات اور اہم معاملات میں آمرانہ فیصلے ایمر جنسی کی ہی یاد دلاتے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کی ایمرجنسی باقاعدہ اعلان کے ساتھ نافذ کی گئی تھی جب کہ موجودہ حکومت کو اس طرح کے اعلان کی ابھی ضرورت پیش نہیں آئی ہے اور وہ بغیر اعلان کے ہی اپنے مقاصد اور فسطائیت کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ وزیر داخلہ نے بالکل درست کہا کہ "اقتدار پر برقرار رہنے کے لالچ ہی نے اندرا گاندھی کو ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور کیا اور اگر اس وقت الہ آباد ہائی کورٹ نے انصاف کی لاج نہ رکھی ہوتی تو ایمر جنسی جیسے سخت فیصلے کے نفاذ اور ہمیشہ کے لیے بدنامی کا داغ ڈھونے کی اندرا گاندھی کو چنداں ضرورت نہ تھی جو آج تک کانگریس پارٹی کے لیے رسوائی کا باعث بنا ہوا ہے۔ لیکن مختلف ریاستی حکومتوں میں حکومت سازی کے دوران بی جے پی نے اسی اقتدار کے لالچ میں تمام جمہوری روایات کو پامال کیا ہے۔
ایمرجنسی کی تاریخ کا جب بھی ذکر ہوگا ، الہ آباد ہائی کورٹ کے معز ز جج جسٹس سنہا کو ضرور یاد کیا جائے گا جنہوں نے کمرہ عدالت میں اندرا گاندھی کی موجودگی میں انہیں انتخابی بد عنوانیوں کا خاطی ٹہرایا اور 6 سال تک کسی منتخبہ عہدہ پر فائز رہنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس دور کی عدلیہ کے اس کردار میں آج کی عدلیہ کے لیے بہت بڑا سبق پنہاں ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جاتا تو شاید بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ وہ نہیں ہوتا جو سامنے آیا اور شہریت ترمیمی قانون اور اس کے مخالف جہد کاروں کے معاملے میں عدالت کا رویہ وہ نہ ہوتا جو اب ہےنیز موجودہ ’’ریسارٹ سیاست‘‘ کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی۔
وزیرا عظم کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس وقت ایمرجنسی کی مخالفت صرف سیاست یا سیاست دانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ عام لوگوں کے درمیان زبردست برہمی تھی۔ موجودہ غیر معلنہ ایمرجنسی کے خلاف بھی عوام میں زبردست برہمی پائی جاتی ہے۔ اگر چہ اس کا مکمل اظہار ابھی اپنے نقطہ عروج پر نہیں پہونچ سکاہے جس کی ایک وجہ حکومت کا جبرو استبداد اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کا حکومت کا ہم نوا بن جانا ہے۔ عوام کے لیے یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ 1975 کی ایمرجنسی میں تو صحافت کی آزادی پر سنسر کی نکیل کس دی گئی تھی لیکن آج کی صحافت کسی نہ کسی درجے میں آزاد ہوکر بھی بذریعہ خوف یا بذریعہ لالچ غلام بنی رہنے پر راضی ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اصل دھارے کی با اثر صحافت کا قابل لحاظ حصہ اب عوام کی آواز بننے سے گریزاں اور حکومت کے موقف کو منوانے کے لیے کوشاں ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کی یہ روش آمرانہ رویوں کو مسلسل تقویت پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔
وزیر اعظم کے بیان میں ملک کے عوام کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت ہماری ثقافت اور میراث کا حصہ ہے ۔لہذا کانگریس ہو یا بی جے پی اس پر شب خون مارنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم کی اس بات کو تسلیم کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ اب ملک میں جمہوریت کو محض لفظاً نہیں بلکہ معناً نافذ ہونا چاہیے اور اس ملک کو ایمر جنسی جیسی صورتحال سے لازماً ابھرنے کی ضرورت ہے۔
ایمرجنسی کے وقت جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے وہ مسلمان اور دلت تھے ۔آج بھی ان دونوں طبقات کے لیے حالات ویسے ہی ہیں اس لیے ان دونوں طبقات کو جاگنا ہوگا۔ خاص طور پر مسلم امّت اپنے پاس موجود نظام عدل وقسط کی داعی بن کر ملک و ابنائے ملک کی خیرخواہی و رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔


وزیر اعظم کے بیان میں ملک کے عوام کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت ہماری ثقافت اور میراث کا حصہ ہے ۔لہذا کانگریس ہو یا بی جے پی اس پر شب خون مارنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم کی اس بات کو تسلیم کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ اب ملک میں جمہوریت کو محض لفظاً نہیں بلکہ معناً نافذ ہونا چاہیے اور اس ملک کو ایمر جنسی جیسی صورتحال سے لازماً ابھرنے کی ضرورت ہے۔