اداریہ

عقیدت،عدالت اور سیاست

انگریزی کہاوت ہے کہ "عقیدہ کی قوت سے پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں” لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کی عدالتیں ضرور آستھاکی بنیاد پر غیر معمولی فیصلے صادر کرنے لگتی ہیں جو کبھی مذہبی اور کبھی سیاسی بھی ہو سکتی ہے۔ اڑیسہ کی تاریخی جگناتھ رتھ یاترا کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے مشروط اجازت دیئے جانے پر تبصرے توقع کے مطابق تھے۔ جگناتھ مندر کمیٹی نے فطری طور پر عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا، کیوں کہ وہی رتھ نکالنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے عدالت سے رجوع ہوئی تھی۔ دوسری طرف کورونا کے پھیلاؤ پر فکر مند طبقہ کو تشویش تھی کہ مندرانتظامیہ کے "سیوایت” ایک تین منزلہ بھاری بھرکم رتھ اپنے طور پر کھینچ نہیں سکیں گے اور لامحالہ عقیدت مندوں کی بھیڑ اکٹھا ہوگی جس میں سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھنا عملاً مشکل ہوجائے گا اور ہوا بھی وہی۔ دوسری طرف بعض مسلم گروپوں کو محسوس ہوا کہ اگر پوری جگناتھ کے مندر کو مذہبی رسم ادائیگی کی اجازت مل سکتی ہے تو جمعہ کی نماز کے لیے بھی مساجد کو کھول دیا جانا چاہئے۔ اس طرح وہ بھی عدالت سے رجوع ہوئے۔ جمہوری نظام میں اس طرح کی توازن و تقابل پر مبنی مذہبیت کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہماری عبادات کا حق ہمیں مطلق اور دستوری ضمانتوں کی اساس پر ملا ہوا ہے وہ کسی دوسرے کی مذہبی آزادی سے ہرگز مربوط نہیں ہے۔ موازنہ کرنا یوں بھی ناقص معلوم ہوتا ہے کہ رتھ نکالنے کی رسم سالانہ ایک مرتبہ انجام دی جاتی ہے جب کہ نماز کی ادائیگی مسلمانوں کے لیے روزآنہ کا عمل ہے۔ دوم یہ کہ بھارت اور دنیا بھر کی مساجد میں جماعت کے ساتھ نمازوں کے اہتمام کی عدم اجازت کا فیصلہ کورونا وبا کو پھیلنے سے روکنے کے پیش نظر لیا گیا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے۔ اب جب کہ کور نا کا پھیلاؤ تیزی کے ساتھ ہوتاجارہاہے تو ہماری جانب سے مساجد میں جماعت کی ادائیگی کی اجازت طلب کرنا خود ہماری صحتوں کے ساتھ کھلواڑ کی مانند ہے۔
جمہوریت میں نظام عدلیہ کو مکمل غیر جانبدار اور بیرونی اثرات سے پاک رکھنا لازمی ہے۔ اسی لیے ایک عرصے تک جمہوری ستونوں میں مقننہ، انتظامیہ اور صحافت سے بھی زیادہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بنا رہا ہے۔ ان اداروں کی صحت ہی پرجمہوری نظام کی تندرستی کا انحصار ہوتا ہے۔ فی زمانہ سیاست کے گرتے معیار نے عوامی نمائندوں اور مقننہ کا وقار مجروح کردیا ہے۔ حکومت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہ ہونے کے سبب میڈیا بھی اب عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی انتظامیہ خود کوعوام کے سامنے جوابدہی سےبڑی حد تک آزاد سمجھنے لگی ہے، پولیس کا رویہ اس پر مستزاد ہے۔ اس طرح ہرایک ستون کی خود مختاری متاثر ہوگئی اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اقتداراوراختیارات کی مرکزیت نے دیگر تمام اداروں کی آزادی اوربالادستی بھی ختم کردی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے ملک کی اپوزیشن کی بات سننا ہی چھوڑدیا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک کے حکمراں اتنے طاقتور پہلی بار بنے ہوں۔ آج سے پینتالیس برس قبل 25 اور26 جون 1975 کی نصف شب کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے برہم ہوکر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ اس فیصلے میں اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینا تو دور اندرا گاندھی کے وزیرقانون ایچ آر گوکھلے تک کو اتنے بڑے فیصلے کی بھنک نہیں تھی۔ دفعتاً شہریوں کے تمام دستوری حقوق سلب کرلئے گئے۔ حکومت سے اختلاف کرنے والے تمام قائدین اور صحافیوں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ دراصل 21ماہ کی ایمرجنسی کے دوران جو جبر بھارت کے عوام و خواص پر روا رکھا گیا تھا اس کو آج بھی ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیاجاتاہے۔ منطقی طور پر 21 مارچ 1977 کو پرآشوب دور ختم ہونے کے بعد جب عام انتخابات منعقد ہوئے تو اندرا گاندھی کی شکست فاش ہوچکی تھی۔ دراصل ایمرجنسی کی علانیہ شکل گزشتہ نسلوں نے تو دیکھی اور اس دور کے احتجاجی آج کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں بھی موجود ہیں اس لیے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اس غلطی سے کچھ توسبق ضرور لیا ہوگا۔ ایمرجنسی میں خاص بات یہ رہی کہ عوام پر ہونے والے ظلم و جبر سے عدلیہ نے اپنی آنکھیں موندلیں، صحافت کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے کہا گیا تو وہ حکومت کے سامنے رینگنے لگے اور مزاحمت کار جیلوں میں ٹھوس دیے گئے۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے تو محض توازن اور سیکولرازم کے ڈھونگ کی لاج رکھنے کے لئے دیگر تنظیموں کے ساتھ ایک خالص سماجی و مذہبی و اصلاحی تنظیم جماعت اسلامی ہند پر بھی پابندی عائد کردی گئی ۔
آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک قبائلی دانشور اور سماجی کارکن ہنس راج مینا کے الفاظ میں ” میں نے ایمرجنسی تو نہیں دیکھی لیکن جو دیکھ پارہاہوں وہ کم نہیں ہے”۔ پانچ بار وزیر اعلی رہ چکے پرکاش سنگھ بادل کہتے ہیں، ’’ داخلی جمہوریت کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتناکہ سرحدوں کا دفاع ضروری ہے۔‘‘
کورونا کے خلاف جنگ کے نام پر معاشرہ کے محروم و کمزور طبقات کو مزید دبایا جارہاہے۔ سوئیڈن کے انسٹیٹیوٹ فار ڈیموکریسی کے مطابق دنیا بھر میں حکومتوں نے ایمرجنسی نما احکامات و قوانین نافذ کررکھے ہیں، جس سے آمریت مضبوط ہوکر حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لیے راستے ہموار کئے جاسکیں۔ ظاہر ہے اپنے ایجنڈےکو آگے بڑھانے کے لیے اس سے اچھا سازگار ماحول اور کیا مل سکتاہے؟ آستھا کی دہائی دیتے ہوئے ملک بھر میں جذباتی اور مذہبی ایشوز پر سوار ہوکر اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والی بی جے پی کے گزشتہ پارٹی صدر اور موجودہ وزیر داخلہ نے جگناتھ رتھ کی اجازت ملنے پر ٹویٹ کیا تھا۔’’معاملے کی سنگینی و اہمیت کے پیش نظر کیس کو سپریم کورٹ ویکیشن بنچ کے سامنے رکھاگیا اور یہ فرحت بخش فیصلہ سامنے آیا۔‘‘ اس سے قبل انھوں نے وزیراعظم اور سالیسیٹر جنرل سے بات کی تھی کیونکہ اس کی اجازت دینے سے عدالت نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیاتھا کہ ’’کورونا دورمیں ایسا کرنے پر ہمیں بھگوان بھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘
سپریم کورٹ کی اتنی سخت رائے آناً فاناً تبدیل ہوجاتی ہے اور حکومت کا نمائندہ برملا اس کے پیچھے کی کہانی بیان بھی کردیتاہے۔ اس سے قبل ایک نچلی عدالت نے جامعہ کی طالبہ صفورا زرگرکو ضمانت دے دی ۔ مرکزی حکومت کی ماتحتی والی پولیس نے UAPA قانون لگاکر اسکو جیل کے اندر ہی رکھنے کا سامان کرلیا۔ ہائی کورٹ میں دلی پولیس لگاتار صفورا کی ضمانت کی مخالفت کرتی رہی۔ ایک دن اچانک ان کے وکیل تشار مہتا عدالت سے کہتے ہیں کہ صفورا کو ضمانت دیے جانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ حالانکہ ٹھیک ایک دن قبل ان کی پولیس نے کہا تھا کہ ان کے پاس صفورا کے خلاف’’ٹھوس ثبوت‘‘ موجود ہیں۔ اسی اثناء معروف دانشور، سیاستداں، سی اے اے تحریک کے رہنما یوگیندریادو اور ہرش مندر جیسی نمایاں شخصیات کو بھی دلی فسادات کے مقدموں میں لپیٹاگیاتھا، جس پر بالخصوص سوشل میڈیا میں کافی غم و غصہ پایاجارہا تھا۔ تو کیا حکومت نے صفورا کو جیل سے باہر نکال کر کورونا، نیپال، چین اور ڈھیلی ڈھالی معیشت کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا مناسب سمجھا اور کیااوآئی سی کے ذریعے کشمیرپرآئے بیان سے عربوں سے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ حکومت کی جان کھائے جا رہاتھا؟
سالیسیٹر جنرل کی یقین دہانی کہ سڑکوں پر کوئی مزدور پیدل نہیں چل رہا ہے، سپریم کورٹ نے بلاچوں و چرا تسلیم کرلی تھی حالانکہ دنیا اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ کن ناگفتہ بہ حالات میں بے بس مزدور اپنے وطن کے لیے تپتی دھوپ میں ان دنوں بھی سڑکوں پر نکل پڑے تھے۔ تمل ناڈو کے ایک جج کا تبادلہ کرنے میں تاخیر کرکے عدالت کے Collegium کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی۔ اتراکھنڈ کے جج کا سپریم کورٹ میں پرموشن اتنی تاخیر کے ساتھ کیا گیا کہ ان کی سینیاریٹی ہی ختم ہوگئی۔ ملک کو یاد ہے کہ ایودھیا فیصلہ پر خوش ہوکر کیسے راجیہ سبھا سیٹ سےایک جسٹس کونوازاگیا ہے، حالانکہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا قائد کی حیثیت سے بیان دیاتھا کہ عدلیہ سے آنے والوں کو کم از کم تین سال تک سیاست میں داخلے پر پابندی لگنی چاہئے۔ اب گیند عوام کے پالے میں ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرے اور’ دیش ‘کی خاطر سیاسی و اخلاقی اور جمہوری اقدار کا پرچم سنبھالے اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اداروں کو تاراج کرنے سے پہلے ہوش کے ناخن لے۔