ہمسایہ ملک کی جارحیت اور سرحدوں پر منڈلا رہے خطرے کے درمیان ہم اپنے ملک کی خود مختاری اور سالمیت کی برقراری اور تلملائے ہوئے ڈریگن سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ملک کی افواج اور حسب ضرورت و موقع اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک کی جانب سے اس تیقن کے حصول کے بعد حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ چینی در اندازی اور لداخ و اروناچل پردیش کے علاقوں پر اس کے غیر قانونی قبضوں کو خالی کرانے کے لیے مؤثر اور پختہ اقدامات کرے گی۔ گرچہ ہماری حکومت نےاپوزیشن کو اعتماد میں لینے میں بڑی تاخیر کر دی تاہم ابھی بھی اس معاملے میں حزب اختلاف، دفاعی امور کے ماہرین اور افواج سب کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے چین کے سامنے ایک پختہ موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔ 19 جون والی کل جماعتی میٹنگ بھی بہت پہلے بلانے کی ضرورت تھی۔ اجلاس سے قبل کچھ لیڈروں نے ان کو نظر انداز کرنے پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس عمل سے حکومت کے رویے (نیتی اور نِیتی) پر شک کرنے کا جواز اس نے خود فراہم کیا ہے۔ جب ملک کو بیرونی خطرہ درپیش ہو تو اندرون ملک اختلافات کو بالائے طاق رکھنے اور اتفاق و اعتماد کی فضا ہموار کرنے کی ذمہ داری سے حکومت کیسے بری الذمہ ہو سکتی ہے؟ حزب اختلاف نے موقع بہ موقع جو سوالات اٹھائے ہیں ان پر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بیان دے کر اچھا کام کیا ہے۔ وزیر اعظم نے دیر سے ہی سہی اپنا بیان دیا ہے جسے دیر آید درست آید ہی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے ملک کے وقار اور اس کی سالمیت کے تحفظ کے بارے میں باشندگان ملک کو بھروسہ دلانا کسی بھی قائد کے لیے لازمی ہے۔ لیکن بی جے پی کے بڑبولے ترجمان ہر سوال کرنے والے کو ملک دشمن اور وزیر اعظم کی بعض باتوں کی مخالفت کو ملک کی مخالفت کے مساوی قرار دینے سے تھکتے نہیں ہیں۔ روزآنہ چینلوں پر کچھ لوگ جس طرح سے جنگی جنون پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اس سے تو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ حکومت نے اب تک بھی در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا کوئی ذہن بنایا ہو؟ کیا ہماری حکومت نے چین سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں؟ کیا چین کو’’دشمن ملک‘‘ قرار دیا گیا ہے؟ کیا دونوں کے’’حالت جنگ‘‘ میں ہونے کا کوئی اعلان حکم رانوں نے کر رکھا ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتیں تو سرمایہ کاری کرواتی رہیں، وہ چین کی کمپنیوں کو ٹھیکے پر ٹھیکے دیتی چلی جائیں، درآمد اور برآمد ہر دو صورتوں میں اپنے خزانے کو بھرنے میں لگی رہیں اور پہلے ہی سے وبا کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور غربت کی مار جھیلنے والی عوام کے کندھوں پر ملک کو ’’آتم نربھر‘‘ بنانے کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے۔ شنگھائی ٹنیل انجنئیرنگ کمپنی کو دلی۔ میرٹھ سڑک کی تعمیر کے لیے 11سو26کروڑ روپیوں کا کام دیناہو یا پونےکے قریب تَلیگاؤں میں 7ہزار 600 کروڑ روپیوں کے پروجیکٹ کے لیے قراردادِ مفاہمت کی منظوری ہو یا پھر مودی حکومت کے ڈریم پروجیکٹ ’اسٹارٹ اَپ انڈیا‘ میں اربوں و کھربوں روپیوں کی چینی سرمایہ کاری ہو، ہر جگہ ہماری معیشت اور بازار پر چین کا دبدبہ قائم ہونے کی راہیں گزشتہ برسوں میں ہم نے خود ہموار کی ہیں۔ پہلے سے ہماری اشیائے صرف پر چین کا جو غلبہ ہے اب تک تو اس کو ہم نے چھوا تک نہیں لیکن چینی مال کی سر عام توڑ پھوڑ کرنے کا نیا کام دیش کی جنتا کو دے دیا گیا!
پہلے اپنے شہریوں کے لیے سستے اور معیاری مال کا متبادل بازار ہمیں پیدا کرنا ہوگا، ملکی کمپنیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے، مقامی روزگار پیدا کرنے اور کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلِٹی کے تحت اپنے باشندگان کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے فرض کی ادائیگی پر کارپوریٹ کمپنیوں کو متوجہ ہونا ہوگا، تبھی عوام سے ملک کے لیے قربانیوں کا مطالبہ کرنا جائز ہوگا۔ کیوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک کی 155 کمپنیوں نے خود اپنے ملک کو نظر انداز کرکے امریکہ میں ایک لاکھ 67 ہزار کروڑ روپیوں کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جس وقت عوام کی روزی روٹی چھین لی گئی تھی اس وقت ملک کے کارپوریٹس عالمی منڈیوں سے بلا روک ٹوک اپنی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔ تو پھر کس منھ سے سرمایہ کاروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملک کے عوام کو قوم پرستی کا خوراک پلایا جا رہا ہے؟
اس کے باوجود ملک کے تمام ہی رہنماؤں نے چین کے خلاف ہر قسم کی کارروائی میں حکومت ہند کے ساتھ کھڑے ہونے کا تیقن دے کر ایک قومی شعور و سیاسی بالغ نظری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ لیکن اظہارِ یک جہتی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فوج اور حکومت سے سوال کرنے کا حق ان سے چھین لیا جائے۔ ہم ایک انتخابی جمہوریت ہیں ہمارا موازنہ چین یا کسی دوسری بادشاہت و آمریت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جہاں شہریوں کے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ بیرونی خطروں سے مقابلے کے لیے حکومت چاہتی ہے کہ عوام اس کے پیچھے کھڑے ہوں لیکن خود اپنے شہریوں کو کسی معمولی نظریاتی اختلاف کی بناء پر وہ ملک دشمن اور غدار وطن قرار دینے سے گریز نہ کرے تو کیا یہ دوہرا معیار اور منافقت نہیں ہے؟
ماہرین امور خارجہ کا بالعموم خیال یہ ہے کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔ کیا خطے میں دو نیوکلیائی قوّتوں کے آمنے سامنے آجانے سے جس طرح کی ہلچل دکھائی دینی چاہیے تھی ویسی نظر آرہی ہے؟ جب جانیں گئیں تب امریکہ، برطانیہ، جرمنی، روس اور اقوام متحدہ نے بڑی حد تک رسمی نوعیت کے بیانات دے کر خاموشی اختیار کر لی۔ حیرت کی بات ہے کہ 15 جون کی پوری رات خوں ریزی کا سلسلہ چلتا رہا اور اگلے دن صبح ساڑھے 7 بجے دست و گریباں ہوئے فریقین کے آرمی جنرل گفتگو کرنے بیٹھ گئے تھے۔ کیا اس کے بعد ہماری افواج یا سیاسی قیادت کو اس بربریت پر جوابی کارروائی کا خیال آیا؟ اب جب کہ سنگینی میں اضافہ ہوگیا تب کہیں وزراء خارجہ کی سطح پر ٹیلی فونی بات چیت تک معاملے کو لے جایا جا سکا ہے۔ اس سے آگے ’دیش کے جوانوں کی شہادت‘ کے معاملے کو سربراہانِ مملکت کی سطح پر لے جانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کیا اس کا مطلب دونوں حکومتوں کے نزدیک اس طرح ڈیڑھ ماہ تک فوجیوں کا مڈ بھیڑ کے لیے آمنے سامنے آ کھڑا ہونا، سرحد پر مستقل کشیدگی اور انسانی جانوں کا اتلاف اتنی بھی اہمیت نہیں رکھتا کہ ہمارے حکم راں اس کو دوسری کسی مصروفیت پر اولیت دیں؟ حالاں کہ وزیر اعظم مودی کو کوئلے کی کانوں کو فروخت کرنے اور کورونا وائرس کے سلسلے میں دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہوں سے براہ راست بات کرنے کی فرصت ہے لیکن جس ملک کے انہوں نے 9 دورے کیے ہوں اور 18 بار اپنے چینی دوست سے ملاقاتیں کر چکے ہوں ان سے ایک بار بھی سرحد پر کشیدگی کے معاملے پر کوئی تبادلہ خیال کرنے کی توفیق نہ ہوئی ہوگی؟ طرفہ تماشا یہ کہ ان کی پارٹی انتخابی ریلیوں میں یوں مصروف ہے جیسے کہیں کچھ ہوا ہی نہیں؟
حکومت کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بالخصوص چین اور اپنے دیگر ہم سایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کس پالیسی پرعمل پیرا ہے، بلکہ کیا اس کی کوئی واضح خارجہ پالیسی ہے بھی یا نہیں؟ نیپال کے نئے نقشے کی منظوری، چینی ڈریگن کا خونخوار بن کر کھڑا ہونا اور پاکستان کی کشمیر سے لگی سرحد پر آئے دن انکاؤنٹروں کا لامتناہی سلسلہ آخر کس پالیسی کا نتیجہ کہا جائے گا؟
بھارت کے لیے سرحدوں پر جھڑپیں یا پڑوسیوں کے ساتھ بارڈر لائن کے تنازعے نئے نہیں ہیں۔ پاکستان (3,323 کیلومیٹر) ، بنگلہ دیش (4,096.7 کیلومیٹر) ، میانمار (1,643 کیلومیٹر) ، نیپال (1,751 کیلومیٹر) اور چین کے ساتھ (3,488 کیلومیٹر) طویل مشترکہ سرحدوں کے سبب تنازعوں کا پایا جانا ایک حقیقت ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ ’’انسان اپنا گھر بدل سکتا ہے لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ‘‘ شمال مغرب اور مشرق میں بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی کی نوعیت اور شدت جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ ہمالیائی پڑوسی نیپال کی جانب سے نئے نقشے کو منظوری دینے پر ہمارے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بیان دیا کہ نیپال ہمارا چھوٹا بھائی ہے اور ہمارے ان سے روٹی بیٹی کے رشتے ہیں۔ چین کا معاملہ سب سے الگ ہے۔ وہ گلی کا دادا بننا چاہتا ہے اور اپنے خطے میں بھارت کو اپنے لیے چیلنج بننے نہیں دینا چاہتا۔ ادھر بھارت نے بھی اپنے نئے عزائم کی جانب پیش رفت جاری رکھی ہے۔
ہم ابھی مشرقی لداخ میں الجھے ہوئے ہیں جب کہ اطلاعات کے مطابق چین نے اروناچل پردیش کے اندر گھس کر سڑک، پل اور ہیلی پیڈ تک بنا ڈالے ہیں۔ چین کی جانب سے حقیقی خَطِ قبضہ (ایل اے سی) پر جو مورچہ بندی ہوتی رہی اگر انٹلی جنس نے اس سے آگاہ کر دیا تھا تو اس پر کارروائی کرنا حکومت کا کام تھا۔ کورونا وائرس پر وزیر داخلہ کا اعتراف کہ "ہم سے بھول چوک ہو سکتی ہے لیکن ہماری نیت صاف ہے، اس پر شک نہ کریں”، کل اگر حکومت اسی نوعیت کی صفائی عالمی امور پر دینے لگے تو کیا اس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ مان لیا جائے کہ سیاست دانوں کا رویہ ان کی فطرت کے مطابق ہی ہوا کرتا ہے لیکن کیا افواج کے لیے اس طرح کی لغزشوں کو روا رکھا جا سکتا ہے درآں حالیکہ ان کا فرضِ اولین ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ آج گلوان کو اسی بات کا گِلہ ہے کہ کہیں وہ بھی ایک سیاسی کھلونا نہ بن جائے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم امن و انصاف اور انسانی بھائی چارے کے ابدی اصولوں پر مبنی ایک خدا پرست اور عوام دوست عالمی نظام کی طرف دنیا پلٹ آئیں۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے‘‘ کیوں کہ ابھی ہمیں کورونا وائرس اور معیشت کے ساتھ ساتھ خانگی امن و یک جہتی کے کئی محاذوں پر جنگ جیتنی باقی ہے۔