’’سر پہ بٹھایا تھا مودی جی کو۔ سوچا تھا کہ دیش کو اب کوئی ملا ہے جو صاف گو ہے اور ایماندار بھی۔ لیکن آپ تو بڑ بولے، ضدی، جابر اور ایسے خود سر انانیت پسند نکلے جو چلتے پہیوں کو توڑ دیتا ہے۔ تعمیرکی امید تھی، آپ نے تخریب کو اپنا ہتھیار بنایا۔ آپ سے نہیں ہوگا اس لیے StepDownModi#‘‘
ایک طرف ’’گدّی چھوڑو، مودی‘‘ جیسے ہیش ٹیگ کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر یہ مہم چل رہی تھی تو دوسری طرف وزیر اعظم مودی کی قیادت والی این ڈی اے نے اپنی حکومت کی پہلی سالگرہ منائی۔ ملک کے سب سے بڑے نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ کے تیور اتنےنرم تھے کہ ایڈیٹر اِن چیف کو سوال کرنا پڑا کہ وزیر موصوف اس بار ویسے ’ایگریسیو‘ کیوں نہیں لگتے؟ تو وزیر نے جواب دیا کہ کورونا وائرس سے متاثرین سے ہمدردی کے سبب! ان کی بات مان بھی لیں تو ٹڈی دل، کورونا وائرس، سائکلون، نیپال، چین اور پاکستان کی کارستانیوں، اقتصادی بدحالی کی مار اور جگہ جگہ عدالتوں کی پھٹکار نے تو حکومت کے اعتماد کو کمزور کر ہی دیا ہے۔ اس سے قبل ایک اور نامور خاتون اینکر کے انٹرویو میں امیت شاہ نے جو سرکاری امداد اور اسکیموں کے اعداد وشمار پیش کیے تھے انہیں تو بس ہوش رُبا ہی کہا جا سکتا ہے۔ متبادل سماجی میڈیا جس پُر اثر طریقے سے حکومت کے جھوٹ کی پول کھول رہا ہے اس سے حکومت کی ہزیمت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
مایوس کیڈر: ریٹائرڈ وِنگ کمانڈر اَنوما آچاریہ کا درج بالا ٹویٹ اب نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ اَنوما آچاریہ کو مودی کے مرکزی دفتر سے گجرات انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں کام کرنے کے لیے خاص طور پر بھیجا گیا تھا۔ جوں جوں ان کے سامنے پارٹی اور وزیر اعظم مودی کی اصلیت آشکار ہوتی گئی وہ ان کے قول وعمل کے تضاد اور دکھاوے سے متنفر ہونے لگیں۔ مایوس سماجی کارکن نے وزیر اعظم کو ’نمائشی اور اَنا پرست‘ سیاست داں تک کہہ دیا۔ بعدہُ مدھیہ پردیش میں عآپ کے ٹکٹ پر ناکام انتخاب لڑا اور اب مودی حکومت سے استعفی مانگنے کی مہم میں لگ گئیں۔
حکم رانی و پولیس : دلی کے لیفٹننٹ گورنر نے ایک سزا یافتہ رسوخ دار مَنو شرما کو چپ چاپ جیل سے باہر نکالنے کا بڑا کام کیا ہے۔ متنازعہ سی اے اے مخالف احتجاج کی جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی صفورہ زرگر کو ایک جان لیوا وبا کے دوران حمل کی حالت میں جیل میں بند کرنے پر کبھی حکم راں پارٹی نے لب کشائی نہیں کی یہاں تک کہ ملک بھر کی سڑکوں پر حاملہ خواتین بے سہارا اور مجبور پیدل بھی چل رہی تھیں تب منیکا گاندھی کو ترس نہیں آیا، وزیر پرکاش جاوڈیکر کو بھی رحم نہیں آیا لیکن کیرالا کے پَلَکّڈ میں ایک حاملہ ہتھنی کے مارے جانے پر اسے وہاں کے مسلم اکثریتی ضلع ملپّورم کے نام سے جوڑ کر بے جا نفرت انگیز بیانات روا رکھے گئے۔ ان گرفتاریوں کے خلاف تین جون کو لندن، امریکہ، یونان اور کینڈا کے علاوہ ملک بھر کے یونیورسٹی طلبا وطالبات اور ان کی انجمنوں نے وَرچوئل پروٹیسٹ منظم کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی سختی اور ملک بندی کے حالات نے بھی ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ پست نہیں کیا ہے۔ کیا حکومت تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرنے میں نا کام ثابت ہو رہی ہے؟
کھوکھلا معاشرہ : ان حالات میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کے بجائے سماج میں پنپ رہی تَوہّم پرستی کو روکنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ راماین اور مہا بھارت کی دیو مالائی کہانیوں کو سیریل میں دکھا کر عوام کو مشغول رکھنے والی حکومت سے اس کی توقع کیا کی جائے؟ دلی سے قریب گُڑگاؤں میں ایک سادھو نے کورونا کے نام پر اپنی دھرم سادھنا شروع کر دی ہے۔ بہار میں گوپال گنج اورسیوان کے تین گاؤں میں اور جھارکھنڈ کے کئی ضلعوں میں ’کورونا مائی‘ کو ’روپ ماتا دیوی‘ کا ہی ایک روپ مان کر اس کی پوجا اَرچنا کی باضابطہ تقاریب بڑے اہتمام سے منعقد ہو رہی ہیں۔ ایک اور مقام پر مندر کے پجاری نے باضابطہ ایک شخص کو ذبح کر کے ’’نَربَلی‘‘ دینے کا خود اعتراف کیا ہے۔ اس برہمن نے دعویٰ کیا کہ اس کو خواب میں دیوی نے کہا تھا کہ کورونا کو ختم کرنے کے لیے ایک انسان کی بلی چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد دنیا ہمیں کیسے ’وِشو گرو‘ کا درجہ دے سکتی ہے؟
کرپشن کرونا: ممبئی کے ایک سماجی کارکن انیل گَلگَلی نے آرٹی آئی کے تحت پوچھا تھا کہ کیا پی ایم کیئر فنڈ میں سیاسی جماعتوں نے بھی چندہ دیا ہے؟ کتنے چیک باؤنس ہوئے؟ کورونا کی مد میں ریاستوں کو کتنا پیسہ دیا گیا؟ کورونا کے لیے کیا کچھ خرچ ہوا؟ ان کا مطالبہ ہے کہ ویب سائٹ پر اس امدادی فنڈ کی مکمل معلومات دستیاب ہونا چاہیے۔ لیکن پی ایم آفس نے حسب سابق ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ ہماچل پردیش میں 20 مئی کو کورونا کی روک تھام کے نام پر طبی آلات کی خریداری میں مبینہ بد عنوانی کے معاملے میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد بی جے پی کے صوبائی صدر راجیو بندیل استعفی دینے کو مجبور ہوئے ہیں۔ آئی سی ایم آر کے درآمد کردہ چینی ٹیسٹ کِٹ جعلی نتیجے دینے لگے تھے اور پھر مرکز نے یہ کہہ کر معاملے کو رفع دفع کر ڈالا کہ وہ آلات استعمال نہیں کیے جائیں گے اور ان کو چینی کمپنی کو واپس لوٹا دیا جائے گا۔ ادھر گجرات کے وزیر اعلیٰ کے دوست کی کمپنی سے ناقص ہی نہیں بلکہ جعلی وینٹیلیٹرز حکومتوں سے خریدوائے گئے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ اسی سبب احمدآباد کے سرکاری اسپتال میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ جب سخت سرزنش کرتا ہے تو اگلی سماعت کرنے والی بینچ سے اس جج کے نام کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
کھوکھلا معاشرہ : ملک کو عالمی قیادت کے مقام تک لے جانے کا خواب دیکھنے والے کیا آج بھی دقیانوسی سوچ کے ساتھ اپنی آبادیوں کو اندھی عقیدت میں بد مست رکھیں گے؟ طرح طرح کے ڈر، افواہیں، توہم پرستی، سماجی ومعاشی اور فکری پس ماندگی نیز نفرت انگیزی کو روکنے کے لیے ایماندارانہ اقدامات کی ضرورت ہے جو کہ ایک دستوری فریضہ بھی ہے لیکن ہم سب اس میں بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
سیاسی زوال: بی جے پی۔جے ڈی یو نے بہار کے مزدوروں کی راحت کے لیے کوئی قدم تو نہیں اٹھائے لیکن بہار میں منعقد شدنی اسمبلی انتخابات کو بُھنانے کے لیے ڈجیٹل ریلیوں کا شیڈول ابھی سےجاری کر دیا ہے۔ جب اپوزیشن کہتا ہے کہ ملک کو اور بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو سیدھا ان کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت پر وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنےکا الزام پہلے ہی لگ چکا ہے۔ سنگھی ٹولے سے وابستہ سودیشی جاگرن منچ اقتصادی اور لیبر پالیسی پر بہت کھل کر مخالفت کرتے ہوئے مودی کو آنکھ دکھا چکا ہے اور آر ایس ایس کے بعض ذمہ داران موقع بہ موقع مودی کی شخصیت اور حکم رانی کے طریق سے برأت کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ابھی ابھی ان کے اہم عہدیدار بھیاجی جوشی نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ شیواجی مہاراج کے نزدیک فرد کی نہیں بلکہ نصب العین کی اہمیت تھی اور سوراج قائم کرنے کے لیے کسی ایک فرد پر انحصار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آخر سنگھ ایسی بات کہہ کر کس کو اور کیا اشارہ دینا چاہتا ہے؟
آتم نربھر کون بن رہا ہے؟ پچھلے 6 ہفتوں کے دوران یعنی عین کورونا کی آفت اور لاک ڈاؤن کے درمیان ریلائنس جیو نے 7 عالمی سرمایہ کاروں سے 92 ہزار 202 کروڑ سے زاید روپیے حاصل کیے ہیں۔ اس کے باوجود ملک کے سب سے بڑے گروپ ریلائنس نے اپنے اسٹاف کی تنحواہیں کاٹنے کا عمل سب سے پہلے شروع کر دیا تھا۔ لاک ڈاؤن کے 70 دنوں تک ریاستی حکومتیں اپنے حق کا مطالبہ کرتی رہیں مرکزی حکومت نے اب جا کر جی ایس ٹی کا واجب الادا حصہ ان کو ادا کیا ہے۔ لہذا، موجودہ حکومت نہ اپنا چال، چَرِتر اور چہرہ بچا پائی ہے اور نہ سب کا ساتھ، وکاس اور وشواس جیسے نعروں کو حقیقت میں بدل پائی ہے۔ بلکہ ویسا کچھ کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتی ہے۔ الٹا مذہبی منافرت، طبقاتی کشمکش، سرمایہ داروں اور بنیا طبقے کے لیے کام کرنے کی پالیسی اور صرف ہندتووا وادی ایجنڈے کو آگے بڑھا کر برہمنی نظام کے استحکام کے لیے کام کرنے والی یہ حکومت ملک کے جمہور کا اعتماد پوری طرح کھو چکی ہے، اس کے سامنے بلا شرکتِ غیرے اقتدار پر قابض رہنے کا ہدف ہے اور وہ ملک میں کسی اور کی رائے کا کوئی احترام نہیں کر رہی ہے۔ اسی لیے اب ورچوئل مہم ’’مودی جی دیش پر احسان کیجئے، اپنا استعفیٰ دیجیے‘‘ کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے ایک طرف سیاسی تو دوسری طرف سماجی دباؤ بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی میں ملک کا بھلا ہے اور حب الوطنی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ امریکہ میں جاری احتجاج میں سفید فاموں کی اکثریت نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اپنے اپنے ملکوں میں اقتدار کے نشے میں چُور حکم رانوں کا گریباں پکڑنے کی اصل ذمہ داری وہاں کی اکثریت کی ہے۔ اگر انصاف نہیں تو امن نہیں!
ملک کو عالمی قیادت کے مقام تک لے جانے کا خواب دیکھنے والے کیا آج بھی دقیانوسی سوچ کے ساتھ اپنی آبادیوں کو اندھی عقیدت میں بد مست رکھیں گے؟ طرح طرح کے ڈر، افواہیں، توہم پرستی، سماجی ومعاشی اور فکری پس ماندگی نیز نفرت انگیزی کو روکنے کے لیے ایماندارانہ اقدامات کی ضرورت ہے جو کہ ایک دستوری فریضہ بھی ہے لیکن ہم سب اس میں بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔