اداریہ: سیاسی فراست کی ضرورت

 

بہار میں ٤٣ نشستیں حاصل کرنے والی جے ڈی یو کا سربراہ وزیر اعلیٰ بن جاتا ہے اور دوسری بڑی پارٹی بی جے پی ٧٤ نشستیں پانے کے باوجود اپنا دعویٰ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے پیش نہیں کرتی۔ مزے کی بات یہ کہ ۷۵ سیٹیں جیت کر سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرنے والی آر جے ڈی کے لیے اقتدار ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری سیاست کے افق پر یہ منظر اس سے قبل بھی دیکھا گیا ہے۔ لیکن نتائج پر کر جو تجسس اور اشکال اس بار دیکھا گیا اس نے کئی سوال کھڑے کیے ہیں۔ اسی طرح مسلم قیادت والی سیاسی جماعتیں بھارت کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے علاوہ متعدد مسلم پارٹیاں اس الیکشن میں میدانِ میں تھیں۔ جن میں خاص طور پر راشٹریہ علما کونسل، پیس پارٹی، آل انڈیا مائنارٹیز فرنٹ، بھارتیہ مومن فرنٹ، جنتا دل راشٹروادی، جن سنگھرش دل، انڈین نیشنل لیگ، راشٹریہ سیکولر مجلس پارٹی اور راشٹروادی مائنارٹی پارٹی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ، مسلم مجلس، اتحادِ ملت کاؤنسل، پیس پارٹی، پرچم پارٹی، ویلفیئر پارٹی، یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ جیسی پارٹیاں ملک کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً کام کرتی رہی ہیں۔ مسلم سیاست، مسلم ووٹوں کی سیاست ہی نہ ہو بلکہ ہم مسلم نظریہ اور مسلم طرفداری سے بالاتر ہو کر ایک ہمہ گیر و جامع انتخابی منشور کے ساتھ ملک و قوم کو ایک متبادل لائحہ عمل دے سکیں۔ ملک و معاشرے کی فلاح، انصاف پسندی، برادرانہ رویے پر مبنی اور بردباری کے ساتھ ہر شہری اور ہر ووٹر کو یکساں حقوق، عدل اور مساوات پر مبنی ایک فلاحی ریاست کا شہری ہونے کا احساس دلانے کے لیے کام کرنے والے گروہ کی شناخت بنا سکیں۔ ذاتی وخاندانی وراثت جوش و جذبات کی برانگیختگی یا اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل یا کسی اور کے پیادہ بن کر کسی کے لیے آلہ کار بن جانے کی حد تک ہمارے قائدین کی پہنچ کے بارے میں ہر طرح کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ لیکن سوال یہی ہے کہ قوم و ملت کی سیاسی بے وزنی کا استحصال کریں یا حاشیے پر پڑے طبقات کی ہم آواز بنیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پارٹی کیڈر، تربیت، ایک مقصدیت سے اس پارٹی کی والہانہ وابستگی اور مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہو تو ایک اصولی اور با مقصد سیاست کو آگے بڑھانے پر کام کیا جائے۔ سیاسی فراست کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ملک میں ہندو مقابلہ مسلمان کرنے کی کوششوں کو ناکام کرنے پر توجہ دینے کی ضروت ہے۔ در اصل جھارکھنڈ اسمبلی کے ایک خصوصی اجلاس میں اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد ’’سَرنا آدی واسی دھرم کوڈ‘‘ منظور کر لی گئی ہے کہ ’’آدی باسی‘‘ ہندو دھرم کا حصہ نہیں ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ ہیمنت سورین نے آئندہ مئی میں مردم شماری کے دوران ’’سَرنا‘‘ نام سے علاحدہ مذہبی درجہ بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سکھوں، جَینیوں، مراٹھا ذات کا قائم کردہ ’شِیو دھرم‘ اور بَودھ مذہب ان سب کی جداگانہ مذہبی شناخت ہے۔ یاد رہے کہ رانچی ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس سال کے آغاز پر کہا تھا کہ وہ اگلی مردم شماری میں آدی باسیوں کو ہندو مذہب کے زمرہ میں درج کروانے کے تعلق سے بڑے پیمانے پر ’بیداری مہم‘ چلانے جا رہے ہیں۔ سَنگھی ٹولیوں کے ذریعے بھارت کے تمام ’ابراہیمی مذاہب‘ کے علاوہ ہر ایک فرد وفرقہ اور مسلک کو ہندو شمار کر کے ایک ’عظیم ہندو سماج‘ یا سناتن دھرم و روایات سے وابستہ ایک متحدہ ہندو قومیت کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں سب پر عیاں ہیں۔ اس تناظر میں بھارتی سماج کے مختلف اجزا کا خود کو علاحدہ شناخت کے طور پر تسلیم کروانے کی یہ کوششیں بہت معنیٰ خیز ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی معاملات کو روا رکھنے میں ان کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی علاقائی سیاست اور کثیر جماعتی نظام جمہوریت بھارت کے تمام کمزور طبقات کے لیے بہتر ہے ورنہ کلِّیت و آمریت پسندانہ نظریات کے علمبردار چاہتے ہی یہ ہیں کہ یک قطبی یا زیادہ سے زیادہ دو جماعتی سیاسی نظام کی جانب ملک کو ہانک لیا جایے جس سے کہ حالات کو اپنے تنگ نظر ایجنڈے کے حق میں لے آنے میں آسانی ہو۔ بصورتِ دیگر زیادہ لیڈروں اور پارٹیوں کو ’مینیج‘ کرنے کا جوکھم اٹھانا، ایک بڑا چیلینج بھرا کام بن جاتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو انتخابات اور ووٹوں کی گنتی کے دوران دھاندلی کے الزامات ہیں۔ بہار کی موجودہ انتخابی گہما گہمی کے دوران ہی ’بامسیف‘ (BAMCEF) کے صدر وامن میشرام نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ بھلے ہی انتخابی ریلیوں میں بھیڑ تیجسوی کے کھاتے میں پہنچ رہی ہو لیکن ای وی ایم اپنا کام کرے گا اور وزیر اعلیٰ تو بی جے پی کی مرضی ہی سے بنے گا۔ اسی قبیل کی بات شیو سینا کے رکنِ پارلیمان سنجیے راؤت نے بھی کہی تھی کہ جواں سال تیجسوی ایک بہتر متبادل کے طور پر بہار کے سیاسی افق پر ابھر آئے ہیں لیکن ووٹ ڈالنے کے لیے روایتی بیلیٹ پیپر کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی رجحان کا ایمانداری سے پتہ چل سکے اس لیے کہ عوام کا مشینوں پر اعتماد نہیں ہے کہ ان کا ڈالا گیا ووٹ آخر جا کہاں رہا ہے؟ یہی مطالبہ ۳ اگست ۲۰۱۹ کو ایم این ایس کے بانی راج ٹھاکرے نے بھی کیا تھا کہ ۸۰ تا ۹۰ فی صد ممالک میں ای وی ایم مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کرائی جاتی ہے اور اس میں استعمال میں ہونے والی چِپس جاپان، نیدر لینڈ اور امریکہ ہی میں تیار ہوتی ہیں۔
ووٹنگ کے دوران متعدد مشینیں خراب ہونے اور اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیے بغیر لوگوں کے واپس جانے کی خبریں اسی اکتوبر میں سامنے آ چکی ہیں۔ اس پر مستزاد آر جے ڈی کے رکنِ پارلیمان کی گنتی کے دوران ان کی پارٹی کے ۱۱۹ امیدواروں کو جن کے بارے میں الیکشن کمیشن کے آفیسروں نے کامیاب بتایا تھا لیکن کامیابی کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے میں تاخیر کرنے کی شکایت سوشل میڈیا سے آگے بڑھ کر سیاسی گلیاروں اور انتخابی کمیشن کی میز تک پہنچی۔ درجنوں پولنگ بوتھس پر از سرِ نو انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی پر زور انداز سے کیا گیا۔ لیکن کمیشن نے حزب اختلاف کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا حالانکہ دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار کی جانب سے ری کاؤنٹنگ کا تقاضا کرنے پر انتخابی کمیشن کے ضابطوں کے مطابق اس مطالبے پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے لیکن اس بار بہار میں اس شکایت کو بھی سنا نہیں گیا۔ آج بی جے پی کے ایک مہارتھی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا بیان اب بھی یو ٹیوب پر گردش کر رہا ہے کہ ای وی ایم مشین سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ یہ الزام زیادہ تر لوک سبھا اور دلی اسمبلی انتخابات کے دوران لگایا گیا تھا کہ ای وی ایم میں خرد برد کی گئی تھی یہاں تک کہ لندن میں ایک پریس کانفرنس میں ای سی آئی ایل کے ایک سابقہ ملازم شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسی کسی بھی مشین کو ’’ھیک‘‘ کرنا تکنیکی لحاظ سے ممکن ہے۔ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ حکومت، انتخابی کمیشن اور عدالت نے ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کے دعوؤں کو غلط قرار دیا ہے تو بھی کیا جمہوریت کی خاطر حزبِ اختلاف کے شکوک کا مناسب طریقے سے ازالہ کرنا ضروری نہیں ہے؟ دوسری جانب حزبِ اختلاف کو اس بات کا بھی جواب دینا ہوگا کہ ان کی کامیابی پر تو وہ خاموش رہتے ہیں لیکن بی جے پی جیت جاتی ہے تو وہ ای وی ایم کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے؟ جبکہ ۱۹۸٤ میں کانگریس کے ترجمان ابھیشیک مَنو سنگھوی نے اندرا گاندھی کی ایما پر پارلیمنٹ میں ای وی ایم مشینوں کے استعمال کی تجویز رکھی گئی تھی جس کی تائید اٹل بہاری واجپئی اور سیتارام یچوری جیسے قائدین نے کی تھی۔ ۲۰۰٤ میں ملک کے تمام انتخابات کے لیے واجپئی نے ان مشینوں کو لازم کر دیا تھا۔ ۲۰۰۹ تک مسلسل دو انتخابات میں شکست پانے والی بی جے پی نے عدالت میں کانگریس کے خلاف ای وی ایم میں دھاندلی کرنے کے ثبوت جمع کرائے۔ سپریم کورٹ نے ۸ اکتوبر ۲۰۱۳ کو مشینوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا۔ انتخابات کو آزاد، شفاف اور غیرجانب دار منعقد کروانے کی غرض سے وی وی پیٹ کا اضافہ کرنے کی ہدایت دی گئی جس میں پرنٹ کاپی محفوظ رہتی ہے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے مطالبے پر از سرِ نو ووٹوں کا شمار کیا جائے گا۔
اب اگر ملک کے سیاست داں چاہتے ہیں کہ انتخابات شفاف اور ایماندارانہ طریقے پر منعقد ہوں تو ان کو بھی اس انتہائی حساس معاملہ پر اتنا ہی ایماندارانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ انتخابات میں دھاندلی (Rigging) کا روایتی انداز بیلیٹ بکسوں کی لُوٹ کر کے، ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے اور بوتھ پر قبضہ کرنے کے طریقے پہلے بھی دیکھے جاتے رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اب نئی حکمراں پارٹی نے ایک قدم آگے بڑھ کر جدید طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اب لازم ہے کہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کے بیچ اس موضوع کے ہر پہلو پر کھل کر بحث ہو۔ حالانکہ پچھلے سال ۱۱ اپریل کو راجیہ سبھا میں بی ایس پی کے ایم پی ستیش چندر مشرا نے مشینوں کی ھیکنگ کا مسئلہ پر زور انداز سے اٹھایا تھا اور ثبوت میں ایک ویڈیو پیش کرتے ہوئے انتخابی کمیشن سے شکایت کی تھی کہ دلتوں کے ووٹ بی ایس پی کے بجائے بی جے پی کے حق میں جا رہے ہیں۔ مایاوتی نے ۱۲ اپریل ۲۰۱۹ کو ٹویٹ کر کے عوام کے اعتماد کی بحالی کی خاطر انتخابی کمیشن کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب اگر عوام اور سیاسی جماعتوں کو اس معاملے پر اطمینان حاصل کرنا ہے تو لازم ہے کہ ابھی سے اس کے تکنیکی و عملی نیز، سیاسی پہلوؤں پر سب کے لیے قابلِ قبول حل تلاش کر لیا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020