اداریہ: تُرپ کا پتہ کس کام کا؟

 

سابقہ کانگریسی دور کے ہر اقدام کی برائی کرنا موجودہ این ڈی اے حکومت کی ایک سیاسی مجبوری ہو سکتی ہے لیکن متعدد معاملات میں ان ہی خطوطِ کار پر چلنا وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمرانی کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ بات صرف سیاسی، اقتصادی اور ادارہ جاتی فیصلوں کی نہیں ہے بلکہ اِکا دکّا استثنا کے ساتھ خارجہ اور دفاعی امور میں موجودہ حکومت ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت کے تمام اہم فیصلوں پر کاربند نظر آتی ہے۔ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کی امریکہ نواز خارجہ پالیسی کو موجودہ بی جے پی قیادت والی حکومت نے بھی مِن و عَن جاری رکھا ہے۔ نریندر مودی نے اس وقت اپوزیشن میں رہتے ہوئے جس شد و مد کے ساتھ من موہن سنگھ کو امریکہ نواز بتا کر نشانہ بنایا تھا اسے ابھی بھلایا نہیں جا سکا ہے۔ 26 اور 27 اکتوبر کو نئی دلی میں ہند۔امریکہ کے درمیان خارجہ اور دفاعی تعاون کے لیے منعقد ہوئے (2-2) مذاکرات کے بعد بعض نہایت اہم معاہدات ہر دستخط ہوئے ہیں۔ ان میں ایک اہم چھ سال سے ملتوی پڑا ہوا ’’بیسک کوآپریشن اینڈ ایکسچینج ایگریمنٹ‘‘ (BECA)معاہدہ ہے جسے دونوں ممالک کے مابین فوجی اہمیت کی حامل معلومات کے لین دین میں نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ان مذاکرات میں نمائندگی کی۔ اس دوران نیوکلیائی تعاون اور خفیہ جانکاری میں کافی مدد ملنے والی ہے۔ امریکہ زمین اور سمندر میں طویل فاصلے تک حملے کی اہلیت رکھنے والے ڈرون بھارت کو دینے والا ہے۔ اس سے شاید چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی کنٹرول کرنا مقصود ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ چچا سام ان سب کی ’قیمت‘ وصول کرنا بھی خوب جانتا ہے۔ امریکہ مفت میں کسی کو کچھ نہیں دیتا۔
چین نے ان ملاقاتوں اور بیانات کو نظریاتی تعصب پر مبنی بیان قرار دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وِین بِین نے امریکی موقف کو علاقائی امن میں خلل پیدا کرنے والا اور خطے میں نا اتفاقی کے بیج بونے والی حرکت قرار دیا ہے۔ وانگ نے معاہدات کے بعد پومپیو کے بیان کو ’’سردجنگ‘‘ کے دور کی ذہنیت والا بتایا ہے جس سے ٹکراؤ ہی کا اندیشہ ہے۔
یورپین فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (EFSAS)نامی ایک تھنک ٹینک کی رائے ہے کہ امریکہ میں ہونے والے انتخابات سے عین ایک ہفتہ قبل دو امریکی ذمہ داروں کا دورہ اور اس طرح کی بات چیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہند۔امریکی تعلقات کی سابقہ دو دہائیوں کی قربت میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ تعلقات مستحکم بھی ہو رہے ہیں۔ حالانکہ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ان انتحابات میں دوبارہ منتخب ہونے پر کافی شکوک کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن پھر بھی ذاتی طور پر امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے نئی دلی کے حیدرآباد ہاؤس میں باہم گفت و شنید کے لیے وقت نکالا ہے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے ووٹروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس نے چین کی ’دادا گیری‘ کو لگام دینے کے لیے بھارت کو اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ میں مقیم بھارتی ووٹروں کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی جارحیت سے بھارت کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ چینی خطرے سے نمٹنے کے نام پر امریکہ کو کیا ہم یہ باور کرا رہے ہیں کہ بھارت اپنی سرحدوں کی خود حفاظت کا اہل نہیں اور ملک کی سالمیت کو بچانے کے لیے ہمیں امریکی افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا ہوگا؟ ممکن ہے کہ فوجی تعاون کے تحت امریکہ کی جانب سے بھارت کو پاکستان کی بھی خفیہ یا اہم دفاعی معلومات فراہم کرائی جا سکیں گی جس کا بھارت کو بالخصوص کشمیر کی سرحدوں پر فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ’اَنکل سام سے قربت آج تک کسی فرد یا کسی ملک کے کام نہیں آئی ہے۔ جو بھی ملک ہو امریکہ کے نزدیک صرف اور صرف ان کے اپنے سیاسی و قومی مفادات ہی اولیت رکھتے ہیں۔ 1962 میں جواہر لال نہرو نے شمال مشرقی سرحدوں پر چینی خطرے سے مقابلہ کرنے کے لیے صدر کینیڈی سے ’’ہوائی تعاون‘‘ طلب کیا تھا لیکن اس وقت امریکی انتظامیہ نے بھارت کی مدد نہیں کی تھی۔ افریقہ، ایشیا اور عرب خطوں میں امریکی مداخلت اور تختہ پلٹ کارروائیوں میں اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ آج جبکہ ٹرمپ کو خود اپنی شکست آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی ہے اور دلی میں آکر امریکی نمائندہ بھارت کو ’’گندہ‘‘ بول کر نکل جاتا ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ ہمارے لیے عالمی سیاست میں کتنا قابلِ اعتبار ساتھی بن سکتا ہے؟ بھارت کو بہر حال اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھائی چارہ بنائے رکھنے پر کام کرنا چاہیے۔ کہاوت ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے۔ ساتھ ہی اپنی عسکری قوت کو مضبوط بناکر اپنی سرحدوں پر مستقل امن قائم رکھنے کی طویل المیعاد حکمت عملی پر کام کرنا ہی بھارت کے مفاد میں ہے۔ دور دراز کہیں بیٹھے ملک کےآنچل میں پناہ لینے میں ہماری کوئی عافیت نہیں ہے!
جمہوریت کا ایک اہم خاصّہ اقتدار کی پر امن منتقلی ہے۔ اگر ایک سپر پاور ملک کا صدر پہلے ہی اعلان کر دے کہ انتخابات میں خرد برد کا اندیشہ ہے اور وہ اپنے سیاسی حریف کو اقتدار سونپنے والے نہیں ہیں۔ اس کے لیے ٹرمپ عدالتی کارروائیوں اور سڑکوں پر احتجاج کے راستے چل کر کرسی سے چپک کر رہنے کی اپنی خواہش پوری کرنا چاہیں گے۔ حزبِ مخالف کا حکومتِ وقت کے فیصلوں پر تنقید کرنا ایک جمہوری عمل خیال کیا جاتا ہے۔ رائے دہی کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت کو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن بھی جمہور کے ووٹوں کے ایک حصہ کی حقدار بنی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ اقتدار کی کرسی کا نشہ حاکموں کو اکثر اندھا بنا دیتا ہے اور بسا اوقات مطلق العنان بھی! موجودہ جمہوریتوں کی خامیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ ووٹ پانے کے لیے سیاسی جماعتیں اکثر انتخابات میں عوام کو یا تو گمراہ کرتی ہیں یا ورغلاتی ہیں یہاں تک کہ جھوٹ بولنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتیں۔ امریکی انتظامیہ کی بھارت کے دورے میں یہ جلد بازی اور ’’چینی خطرہ‘‘ سے بھارت کو ڈرا کر اس کی آڑ میں اپنے ہتھیار بیچنا اور پھر ہم پر احسان جَتانا ان کے ووٹروں کو ایک پیغام دینے کی کوشش ہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہار اسمبلی اور ملک کی متعدد ریاستوں میں ہونے جا رہے ضمنی انتخابات میں ہمارے سیاست داں بھی اپنی حکمرانی پر کم اور خارجہ امور پر زیادہ بات کرنے لگے ہیں۔ یہاں بھی ووٹروں کے لیے دوسرا کھانا پروسا جا رہا ہے۔ تو کیوں نہ ہم جمہوریتیں اپنے جمہور عوام کی بہبود کے لیے مخلصانہ کام کریں تاکہ انتخابات کے دوران ہمیں جنگی جنون کا سہارا لینا نہ پڑے؟
دو سال قبل مارگن اسٹینلی انویسٹمنٹ مینیجمنٹ کے رُچیر شرما کے ایک عالمی سروے کے مطابق امیروں کی 2.1 فی صد تعداد زیادہ تر آسٹریلیا، دبئی، اسرائیل، سنگاپور، امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک کو نکل گئی ہے۔ حالانکہ سن 2017 میں بھارت میں بیس فی صد اضافے کے ساتھ امیروں کی تعداد 2 لاکھ 63 ہزار تک بڑھ گئی تھی۔ 2014 سے 2018 کے عرصے میں 23 ہزار کروڑپتی سرمایہ دار افراد (ڈالر ملینیئر) بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکی شہریوں کی جانب سے ملک چھوڑ جانے کا سلسلہ پچھلے کچھ عرصے میں کافی تیز ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ بلکہ امیر لوگ ہی امریکی شہریت ترک کر کے باہر جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں دونوں ملکوں کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ اقتصادی تعاون پر زیادہ کام کرتے نہ کہ فوجی امور پر جس سے کہ اپنے اپنے ملکوں میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد کی فضا بحال ہوتی؟ پھر کبھی نہ کبھی اس سوال کا جواب تو تلاش کرنا ہی ہوگا کہ ڈالر کو خدا تصور کرنے والا ایسا ’ٹرمپ کارڈ‘ آخر کس کے کام آئے گا جو اب تک کسی کا نہ ہوا؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020