ہر سال کی طرح اس سال بھی وجئے دشمی کے موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ جناب موہن بھاگوت نے اپنے پرچارکوں سے خطاب کیا۔ اگرچہ اس دوران موہن بھاگوت کے مختلف بیانات اور تقریروں کے میڈیا میں چھائے رہنے کے سبب اس سالانہ خطاب کے لیے لوگوں کا انتظار کسی حد تک کم محسوس ہوا لیکن سنگھ کے یوم تاسیس کے اس خطاب کی بہرحال ایک سیاسی و سماجی اہمیت ہے۔
موہن بھاگوت کا یہ خطاب بنیادی طور پر سنگھ کے افکار و خیالات کا آئینہ دار اور تضادات کا مجموعہ تھا۔ بحیثیت مجموعی ان کی تقریر سنگھ کے اسی ہندو-مسلم بیانیہ پر مشتمل تھی جو کہ اس کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ایک سے زائد مرتبہ ملک میں یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا، لیکن ساتھ میں کئی ایسی باتیں بھی کہیں جو خود اس یکجہتی کو متاثر کرنے والی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جو سماج کو بانٹنے والی ہو، ہمیں مختلف طبقات کے درمیان غیر رسمی رابطوں اور بات چیت کا ماحول پروان چڑھانا چاہیے۔ لیکن انہوں نے برسراقتدار طبقے کے مختلف قائدین کی جانب سے استعمال کی جانے والے نفرت بھری اور انسانوں کو بانٹنے والی زبان کے استعمال پر کوئی لب کشائی نہیں کی۔ انہوں نے گرو تیغ بہادر کا حوالہ دیتے ہوئے دبے لفظوں میں مسلمان بادشاہوں پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں قدیم زمانے ہی سے تمام لوگوں کو اس بات کی آزادی حاصل رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا مذہب اختیار کریں لیکن درمیان میں کچھ لوگوں نے اس آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف لڑتے ہوئے گروتیغ بہادر نے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ بھاگوت جی نے اس واقعہ کا ذکر کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک طرف سکھوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف پرانے زخموں کو کرید کر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان رقابت پیدا کرنا چاہا۔ انہوں نے ہندوستان میں پائی جانے والی مذہبی آزادی کی بھی تعریف کی اور اس بات پر بھی پریشانی کا اظہار کیا کہ ملک میں آبادی کا تناسب بگڑ رہا ہے۔ آر ایس ایس کی مرکزی عاملہ کی ایک قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے آبادی کے اضافے کی شرح میں مختلف طبقات کے درمیان پائے جانے والے عدم توازن پر اپنی تشویش ظاہر کی اور حکومت کو نصیحت کی کہ وہ آبادی کے عدم توازن پر قابو پانے کے لیے مناسب پالیسی وضع کرے جو سب کے لیے یکساں ہو۔ ظاہر ہے کہ یہاں روئے سخن مسلمانوں ہی کی جانب تھا، اگرچہ انہوں نے صاف الفاظ میں نہیں کہا۔
موہن بھاگوت کے خطاب کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ اس میں ملک کی موجودہ معاشی اور سماجی صورت حال کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ملک معاشی ابتری کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، مہنگائی اپنے شباب پر ہے، بھوک کے عالمی اشاریے میں وہ مزید نیچے گر گیا ہے، دلتوں اور اقلیتوں پر مسلسل ظلم و جبر جاری ہے، عورتوں کی پر مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ملک کے وسائل کو چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم کے نزدیک ان مسائل کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہے کہ وہ اس کے چیف کے سالانہ خطاب میں جگہ پا سکیں۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اپنے زعم میں راشٹر کے لیے وقف کردہ تنظیم، راشٹر کے ان سنگین مسائل سے آنکھیں کیسے چرا سکتی ہے؟ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر آسام اور دیگر مقامات پر ہونے والے سنگین واقعات کا راست ذکر کیے بغیر موہن بھاگوت یہ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے ملک میں اگر چھوٹے موٹے کچھ ناپسندیدہ واقعات ہوتے ہیں تو انہیں میڈیا کے ذریعے اس قدر بڑا نہیں بنانا چاہیے کہ اس سے ملک کی شبیہ خراب ہو۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حکومت کی کارکردگی اور ملک کی صورت حال پر تنقید کرنے والوں اور تشویش کا اظہار کرنے والوں کو بھی ملامت کا نشانہ بنایا۔ آخر مسٹر بھاگوت کے نزدیک ملک کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرنے اور حکم رانوں کی غلطیوں کو سدھارنے کا کیا طریقہ ہے؟ موہن بھاگوت نے کووِڈ سے نمٹنے کے سلسلے میں حکومت کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا کہ حکومت نے اپنا کام کیا ہے اب سماج کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ یقیناً ملک کو بہتر بنانے میں عوام اور سماج کا بھی اہم کردار ہوتا ہے لیکن جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ کام عوام یا سماج نہیں کر سکتے۔ حکومت کی ناکامی کا ذمہ دار عوام کو تو نہیں بنایا جا سکتا؟
آر ایس ایس کو ملک کی لسانی، تہذیبی، علاقائی اور مذہبی تنوع سے بھی کافی پریشانی ہے جو ہمارے ملک کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ موہن بھاگوت نے اپنے خطاب کے دوران اس موضوع پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف انتظامی لحاظ سے ایک وفاق ہیں سماجی اور عوامی اعتبار سے ہم وفاق نہیں بلکہ ایک اکائی ہیں۔ حالانکہ اس ملک کی انتظامی وفاقیت دراصل عوامی سطح پر پائی جانے والی تہذیبی، لسانی اور علاقائی وفاقیت ہی کے سبب تشکیل دی گئی اورجب بھی اس تنوع کو ختم کرنے یا اس انتظامی وفاقیت کو متاثر کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے دسہرہ کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ مسئلہ اٹھایا کہ "بھارت میں وفاقیت اور ریاست کے حقوق واختیارات کے مسئلے پر سنجیدہ مباحث ہونے چاہئیں۔ انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے سے کہا کہ جس طرح مرکز کو اختیارات حاصل ہیں اسی طرح ریاستیں بھی اپنے معاملات میں با اختیار ہیں۔ اگر مرکز ریاست کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو دراصل وہ دستور کی خلاف ورزی ہے”۔
موہن بھاگوت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دنیا کے معاشی نظام ناکام ہو چکے ہیں اور ہم دنیا کو ایک نیا معاشی نظام دے کر وشو گرو بن سکتے ہیں۔ یہ بات کہنے سے پہلے انہیں یہ یاد کر لینا چاہیے تھا کہ اس وقت بھارت کا برسر اقتدار طبقہ در اصل اسی معاشی پالیسی پر گامزن ہے جو دنیا بھر میں جاری ہے۔ بہتر ہوتا کہ دنیا کو نیا معاشی نظام دینے کی بات کرنے سے پہلے وہ خود اپنے ملک کے معاشی نظام کو بہتر بنانے کی بات کرتے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021