خون ناحق چاہے کسی کا بھی بہے تکلیف دہ ہوتا ہے۔پچھلے دنوں مرکز کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں وہاں کی اقلیتوں کے چار افراد کے علاوہ مزید دو تین شہریوں کو سر عام جس طرح گولیوں سے بھون کر ہلاک کردیا گیا اس نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمالیائی ریاست کے شہریوں پر یوں بھی دوہری مار پڑ رہی ہے۔ ایک جانب انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے تو دوسری جانب افواج اور پولیس کی سخت ترین نگرانی اور ایجنسیوں پر لگنے والے مبینہ ظلم و زیادتیوں کے الزامات!
جموں کے دیپک چند اور سرینگر میں الوچی باغ کے باشندے نیز گورنمنٹ بوائز اسکول کی پرنسپل سُپیندر کور کو اسکول کے احاطہ میں سات اکتوبر کو گولیوں سے بھون دیاگیا۔ اس سے قبل اسی ہفتے کشمیر کے ایک معروف دوا فروش بزرگ، ایک بہاری ٹھیلے والے اور ایک مقامی کیب ڈرائیور کے علاوہ سرینگر کے پرانے شہر میں ایک مقامی شہری کی موت کی وارداتیں درج ہو چکی ہیں حالانکہ ایجنسیوں کی جانب سے دی ریزِسٹینس فرنٹ ( ٹی آر ایف) کی طرف انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ساتھ ہی پڑوسی ملک افغانستان میں سیاسی تبدیلیوں نے ہمارے یہاں اندیشوں کی آہٹ بھی پیدا کردی ہے لیکن دوسری جانب ڈی جی پی دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ ”کشمیر کی یہ وارداتیں کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ استاذہ سمیت معصوم شہریوں کا قتل، کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کی صدیوں پرانی روایت پر حملہ کرنے اور اس فضا کو نقصان پہنچانے کی سمت میں ایک قدم ہے” پولیس کو کچھ سراغ ملے ہیں۔ کشمیر کی پولیس دعویٰ کررہی ہے کہ قاتلوں کو جلد ہی پکڑ لیا جائے گا۔ ہمیں بھی اسی کی امید اور انتظار ہے کہ اصل مجرموں کی گردن تک قانون کے لمبے ہاتھ پہنچ جائیں گے۔
پولیس کی یقین دہانیوں کے باوجود کشمیر میں خوف وہراس عام ہے۔ عوام ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ہدف بناکر شہریوں کو قتل کرنے کی وارداتیں کیا کم تھیں کہ آئے دن انکاؤنٹر سے شہری اور حفاظتی عملے دونوں کی اموات کاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے۔
نہیں بھول سکتے کہ مرکزی حکومت کشمیر میں سب کچھ معمول پر ہونے کی دہائی دیتے نہیں تھکتی ایسے میں کشمیری پنڈتوں اور سکھوں کی جانب سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہ وادی چھوڑ کر ملک کے دیگر محفوظ مقامات میں پناہ لینے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔خاص طورسے وادی کشمیر سے جموں منتقل ہونے کے لیے سرکاری ملازموں اور اساتذہ کی جانب سے درخواستیں موصول ہونے کی خبریں ہیں۔
محکمہ تعلیم کے ایک جونیئر اسسٹنٹ سشیل نے کہا کہ’’ہم سرینگر سے بائک پر بھاگے ہیں‘‘ 1990 میں نامساعد حالات کے دوران گورنر جگ موہن کی تحریک پر کافی ہندواورپنڈت وادی کشمیر سے نکل کرملک کے مختلف مقامات پر منتقل ہوئے تھے۔
آج کشمیر کی اقلیتیں خود کو اسی خوف و دہشت میں محسوس کررہی ہیں حالانکہ جموں وکشمیر حکومت کے راحت اور بازآبادکاری کمشنر اشوک پنڈتا کا دعویٰ ہے کہ وادی سے اقلیتی ملازمین ”ترک وطن” نہیں کررہے ہیں۔
آئینی حکم 273 کے تحت صدر جمہوریہ ہند نے 6 اگست 2019 کو دستور کی شق 370 میں نہایت اہم اور بنیادی ترمیم پر اپنی مہر ثبت کردی تھی۔کہاں تو حکومت اس آئینی ترمیم کو ریاست سے دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کی ہمہ جہت ترقی و بہبود سے وابستہ کر کے پیش کررہی تھی لیکن ریاست اور مرکز دونوں جگہ ایک مضبوط انتظام و انصرام ہونے کے باجود حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں اس نے کشمیر میں امن بحالی کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔اب تو کشمیری پنڈتوں کی تنظیمیں آگے بڑھ کر مرکزی حکومت کی کشمیری پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑے کرنے لگی ہیں۔
وادی کشمیر کے 3464 افراد میں 808 کشمیری پنڈت خاندان بتائے جاتے ہیں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کشمیر کے تقریباً 41ہزار 117 خاندان جموں میں بسے ہیں جن میں 22سو 46 مسلم اور 17سو 58 سکھ ہیں۔ تیس سال پہلے کشمیر چھوڑ چکے لوگوں کو واپس بلانے کا وعدہ بی جے پی کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ تھا لیکن آج حالات متضاد سمت کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ’ کشمیریت‘ کی آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی اور مقامی باشندوں کے اعتماد کو جیتنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔اگر مسائل کو زندہ رکھ کر ووٹ بینک کی سیاست جاری رکھنا مقصود ہو تو کشمیر ہی کیا ملک کے کسی بھی حصے میں حقیقی اور پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021