ہندوستان میں جب بھی کسی سطح کے انتخابات کا مرحلہ سامنےآتا ہے تو مسلمانوں کے سامنے اس کے سیاسی ایجنڈے سے متعلق بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہےاور مختلف قسم کے سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں۔اس طرح کی بحث کا شروع ہونا اور سوالات کا کھڑے ہونا فطری بھی ہے کیوں کہ مسلمان ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً پندرہ فیصد ہیں اور بعض ریاستوں میں ان کی آبادی کا تناسب بہت ہی فیصلہ کن بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں کے سیاسی عمل میں مسلمانوں کی شرکت ملک اور خود مسلمانوں کے مستقبل کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔وہ ایک طرف تو اس ملک کے شہری ہیں اور اس لحاظ سے ملک کے وسائل میں برابر کے حصہ دار ہیں وہیں وہ ایک اصولی اور منصبی فریضے کی حامل امت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے پوری انسانیت کی دنیوی و اخروی فلاح کے ذمہ دار بھی ہیں۔ آزادی اور تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے یقیناً نہایت ہی جرات مندی اور استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے ملی وجود اور اپنے ملی تشخص کو محفوظ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ حکومتوں ، انتظامیہ اور مختلف تنظیموں کے منفی رویوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا ہے۔ لیکن اس مدافعانہ جدوجہد کے دوران وہ اپنی اصل حیثیت کو پیش نظر نہیں رکھ پائے۔ چنانچہ آزادی کے بعد اس کا سیاسی ایجنڈا حالات کے دھارے کے مطابق تشکیل پاتا رہا۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ سیاست سے مراد انتخابی سیاست بھی ہے اور روزمرہ کی سیاست بھی ہے۔ لیکن چند ایک استثنائی صورتوں کے سوا مسلمانوں کی سیاست بالعموم انتخابی سیاست پرمرکوز رہی اور وہ بھی کسی ایجابی پروگرام سے خالی رہی۔ ۲۰۱۴ میں بی جے پی مکمل اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی اب تک کی سیاسی فعالیت کا پورا ایجنڈا زمین بوس ہو گیا۔کیوں کہ پچھلے تیس چالیس برسوں کے دوران ہندوستان کی مسلم سیاست صرف اس ایجنڈے پر چلتی رہی ہے کہ یہاں فسطائیت کو برسر اقتدار آنے سے روکا جائے، اس کے لیے کہیں ملک میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کا دامن تھاما گیااور کہیں خود اپنی چھوٹی چھوٹی مسلم سیاسی جماعتوں نے مسلم قوم کے تحفظ کی دہائی دے کر اور فسطائیت کی مخالفت کے نام پر انتخابات میں حصہ لیالیکن دونوں صورتوں میں ایجنڈا یہی رہا اور یہ کوئی ایجابی نہیں بلکہ منفی ایجنڈا تھا۔ یقیناً کبھی کبھی اس طرح کی حکمت عملی کو بھی اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن منفی ایجنڈے کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کا کوئی خاص نتیجہ برآمدنہیں ہوتا۔چنانچہ آج فسطائیت کو اقتدار پر آنے سے روکنے کا یہ نظریہ اپنی معنویت کھو چکا ہے اوراب اس کی کوئی معنویت باقی نہیں رہی ، بلکہ یہ نعرہ اس کو مزید قوت بھی فراہم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں اولین فرصت میں اس منفی سیاسی ایجنڈے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست کا ایک اور پہلو مسلمانوں کے لیے کچھ مراعات کا حصول ، ان کے چھوٹے چھوٹے مفادات کا تحفظ بھی رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمان خود اپنےکسی نظریے اور مثبت پروگرام کے تحت کبھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل نہیں ہوئے۔حالیہ دنوں میں مسلمانوں میں جو سیاست، یعنی مسلم قوم پرستانہ سیاست ،ملک کے مختلف حصوں میں قبولیت عام حاصل کررہی ہے حقیقت کے اعتبار سے اس کی بنیادیں بھی یا تو منفی ہیں یا حقیر مفادات پر مبنی ہیں اور ہمارا احساس ہے کہ سیاست کا یہ طرز امت کو ایک بند گلی میں لے جائے گا۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ ہم وہی غلطیاں دہرارہے ہیں جو ماضی قریب کی تاریخ میں ہم سے ہوئی تھیں۔ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہم محض کوئی قوم نہیں ہیں بلکہ ایک بامقصد امت ہیں۔ ہماری جدوجہد اور کوشش محض اپنے حقوق کے حصول، اپنے لیے کچھ مراعات کی فراہمی یا صرف اپنےلیے انصاف کی خاطر نہ ہو کہ بلکہ ہم ملک کے تمام انسانوں کی فلاح کے لیے سوچیں۔ ہم مظلوموں کے حقوق اور ان کے لیے عدل و انصاف کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے والے ہوں ، ہم لوگوں کو حقوق دلانے والے بنیں۔ہماری سیاست اس ملک کے لیے ایک بہتر سماجی، معاشی و اخلاقی متبادل کی بات کرنے والی ہو۔ وہ یہاں کے تمام مظلوموں کی آواز بنے۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت سے بعید نقطہ نظر ہے کہ جہاں خود مسلمانوں کا جینا دوبھرہو اور جہاں خود ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں وہاں آپ دوسروں کو انصاف فراہم کرنے اور حقوق دلانے کی بات کررہے ہیں۔لیکن ہمارا یہ ایقان ہے کہ یہی راستہ مسلمانوں کو اس ملک میں عزت اور احترام بھی دلائے گا اور ان کے لیے نئی راہیں بھی کھولے گا۔آج کی سیاست کی پوری کوشش یہی ہے کہ منفی پروپگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو حاشیے پر کردیا جا ئے انہیں سماج سے ایکسکلوڈ کردیا جائے وہ سماج میں یکا وتنہا ہوجائیں تو اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مسلمان سیاسی میدان میں،کمزوروں کےحقوق کی لڑائی کے لیے، لوگوں کو انصاف کی فراہمی جیسی مثبت بنیادوں پر اپنی موجودگی درج کرواتے جائیں۔ یقیناً اس میں مشکلات آئیں گی، آزمائشیں بھی آئیں گی لیکن یہی سیاست اور یہی جدوجہد ہماری حیثیت سے مطابقت رکھتی ہے ۔ ہمارے تمام مسئلوں کا حل بھی اسی سے برآمد ہوگا اور سرخروئی بھی اسی راستے سے حاصل ہوگی۔ یہی ہمارے آقا حضرت محمدؐ کی سنت بھی ہے۔ہمارے سامنے تاریخ اسلام کا وہ واقعہ رہنا چاہیے جب کہ مکہ کے ابتدائی دور میں آپؐ پر زندگی تنگ کی جاچکی تھی، مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیاتھا لیکن اس حالت میں بھی جب آپ کے سامنے ایک لٹا پٹا مسافر اپنے حق کی دہائی دیتا ہوا آیا کہ آپ ابوجہل سے میرا حق دلوایے۔۔۔۔ حالانکہ ابوجہل آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا، مکہ کی ایک بڑی آبادی آپ کی مخالف تھی۔۔۔۔۔ لیکن آپ بلاکسی خوف و تردد اس کا حق دلانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔آپ نےیہ نہیں کہا کہ اس وقت تو ہم خود ہی پریشان ہیں ، ہم پر ہی مصیبت آن پڑی ہے ہم تمہارا کا حق کیسے دلوائیں؟یا یہ کہ ابو جہل تو ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے ہم کیسے یہ کام کرسکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ بس آپ اس کا حق دلانے کے لیے تیار ہوگئے۔یہ وہ کردار ہےجو آج ہمیں اختیار کرنےکی ضرورت ہے۔ آج بھی بے شمار انسانوں کے حقوق تلف کیے جارہے ہیں،آدی واسی ، دلت ، خواتین اور مختلف طبقات ہیں جو مظلوم ہیں ان پر بے تحاشاظلم ہورہا ہے۔اگر ان کے حقوق کے لیے انہیں انصاف دلانےکے لیے مسلمان کھڑے ہوجاتے ہیں تو یقیناًان کے اپنے مسائل انہیں چھوٹے دکھائی دیں گے۔ ملک کے عوام معاشی استحصال کا شکار ہیں ان میں ہندو مسلمان اور دیگر قومیں سب شامل ہیں۔ ہمیں اس راستے میں کسی کو یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ہم کمزور ہیں یا دشمن کے شور وغوغا سے دب گئے ہیں، یا ان کے پروپگنڈے اور بہتان و افترا پردازی کی مہم سے مرعوب ہوگئے ہیں یا ان کی بھپتیوں، طعنوں اور تضحیک سے پس ہمت ہوگئے ہیں،یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے ڈر گئے ہیں۔ یہ راہ کٹھن ضرور ہے لیکن کامیابی بھی اسی میں ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021