پیٹرسِنگر آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی میں پروفیسر، فلسفی ومصنف ہیں۔ ان کی ایک مقبول کتاب
’’اینیمل لِبریشن‘‘ دنیا میں بڑی متنازعہ رہی ہے، جس میں جانوروں کے مفادات کے تحفظ اور حقوق کو انسانوں کے برابر تسلیم کرنے کی وکالت کی گئی ہے۔ پیٹر کہتے ہیں کہ جانوروں اور چوپایوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے انسان کو گوشت خوری سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کی رائے میں کووڈ کے سنگین اثرات کو کم کرنے کے لیے سبزی خوری پر زور دینا چاہیے۔ انہوں نے دنیا کی غربت کے موضوع پر بھی لکھا ہے۔ ۱۹۷۵ سے اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ میں مصروف پروفیسر کے نام سے ایک ایوارڈ جاری کیا گیا ہے۔ ان کا چھٹا ایوارڈ ۲۹ مئی کو رکنِ پارلیمان منیکا گاندھی کو ملا۔ اس دن منیکا نے آن لائن تقریر کرتے ہوئے ملکی حالات پر ایک حساس تبصرہ بھی کیا کہ ’بھارت میں پولیس ہی سب کچھ کنٹرول کرتی ہے۔‘ اندازہ ہوا کہ جس کے نام سے منیکا گاندھی کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے وہاں انسان کی وقعت کچھ بھی نہیں۔ منیکا کی شناخت جانوروں اور ماحولیات کے جہد کار کے طور پر بنی ہوئی ہے۔ وہ ’پیپل فار انیمل‘ نامی ایک این جی او کے تحت جانوروں کے حقوق کے لیے کچھ سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ جس کے لیے منیکا کو پیٹر سِنگر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ لیکن آج کل جانوروں سے محبت دکھا کر عالمی اعزازات حاصل کرنے والی ایم پی صاحبہ انسانوں سے بد سلوکی کے لیے لوگوں کا غصہ جھیل رہی ہیں، وہ بھی کتوں کے علاج کے سلسلے میں! تازہ ترین معاملے میں ایک آدھ نہیں بلکہ متعدد آڈیو وائرل پائے گئے ہیں۔ منیکا نے کتوں کے علاج میں خرچ کی گئی رقم کو واپس حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو فون پر دھمکی دی اور بد زبانی کی مرتکب ہوئیں۔ آگرہ کے ڈاکٹر ایل این گپتا کا الزام ہے کہ ان کو ستر (٧٠) ہزار روپے واپس لوٹانے کے لیے منیکا دباؤ ڈال رہی ہیں جو ایک کتّے کے علاج میں خرچ ہو گیے اور جانور بچ نہیں پایا۔ مبینہ طور پر منیکاگاندھی کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ اس ڈاکٹر سے کہ رہی ہیں: "تم ایک تھرڈ ریٹ ۔۔۔ ہو، تم غلطی سے اس پیشے میں آگئے ہو، تمہارا باپ ضرور ہوگا ڈرائیور یا مالی۔ فرسٹ جنریشن ایجوکیشن لینے والے۔۔۔ تم ابھی پیسے واپس کرو ورنہ دیکھ لینا میں کیا کرتی ہوں، میں کلکٹر سے بات کر کے ابھی تمہارا کلِنک بند کرواتی ہوں۔” ظاہر ہے کہ منیکا کے خلاف ڈاکٹروں کا غصہ پھوٹ پڑا اور ملک بھر میں ٢٣؍ جون کو ڈاکٹروں نے جہاں منیکا کی بدتمیزی کے خلاف "یومِ سیاہ” منایا اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ وہیں ویٹرنری ڈاکٹروں کے ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم سمیت لوک سبھا اسپیکر اوم بِرلا کو مکتوب بھیج کر بی جے پی رکن پارلیمان منیکا کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ٹویٹر پر منیکا گاندھی معافی مانگے اور BoycottManekaGandhi#मेनाकागांधीमाफ़ीमांगे #
ہیش ٹیگ کو ہزاروں نہیں لاکھوں برہم لوگوں نے ٹرینڈ کیا۔ جبلپور ویٹرینری کالج کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے ۲۶؍ جون کو منیکا کو قانونی نوٹس بھی بھیجا ہے۔ ویٹرینری کونسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر اُمیش شرما نے ہتکِ عزت کا کیس دائر کرنے کا انتباہ دیا ہے۔ ان کی بد کلامی سے برہم مدھیہ پردیش کے رکن اسمبلی اور سابق وزیر ڈاکٹر اجئے وِشنوئی نے منیکا کی سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’منیکا گاندھی نہایت ہی گھٹیا خاتون ہیں۔ میں شرمندہ ہوں کہ یہ میری پارٹی کی ایم پی ہیں۔‘‘ حالانکہ اب تک حکومت یا پارٹی کی طرف سے باضابطہ کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے، الٹا بی جے پی میں ایم ایل اے اجئے کے خلاف کارروائی کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے عوامی نمائندے بھی اپنی غرض پوری کرنے اور شہریوں کو دھوکے میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۹ کو سرکوڑا موضع میں بی جی پی امیدوار منیکا نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ جو گاؤں ان کو زیادہ ووٹ نہیں دے گا وہ مستقبل میں ترقی سے محروم رہے گا۔ جہاں اسی (۸۰) فی صد ووٹ ملیں گہ وہ ’اے‘ زمرہ اور پچاس فی صد ووٹ والا ’سی‘ اور اس سے کم ووٹ والا ’ڈی‘ زمرہ میں شمار کیا جائے گا اور کم ووٹ دینے والے موضع میں ترقیاتی کام سب سے آخر میں پہنچتے ہیں۔ اگلے ہی دن انتخابی کمیشن نے منیکا کی سخت سرزنش کی اور ان کے فرقہ وارانہ تبصروں کی پاداش میں ۴۸ گھنٹوں کے لیے ان پر انتخابی مہم چلانے پر امتناع عاید کیا تھا۔ اسی انتخابی مہم کے دوران سلطان پور پارلیمانی حلقے میں منیکا نے اپنے ہی ووٹروں کو انتباہ دیا تھا کہ اگر مسلمان انہیں ووٹ نہیں دینگے تو وہ ان کو روزگار فراہم نہیں کرینگی اور نہ وقت ضرورت وہ ان کے کام آئیں گی۔ یہ انتہائی تشویشناک، غیر جمہوری بلکہ غیر انسانی طریقے سے ایک امیدوار نے ووٹ حاصل کرنے کی کی گئی ایک بھونڈی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟ جولائی ۲۰۱۸ میں لوک سبھا میں ٹرانس جینڈر طبقے کے لیے توہین آمیز کلمات کہنے پر ان کو عوام وخواص کے عتاب کو جھیلنا پڑا تھا۔ تب وہ مرکز میں خواتین واطفال بہبود وترقیات کی وزیر تھیں۔ اسی طرح جموں میں ایک کم سن بچی کی مندر میں عصمت ریزی اور انتہائی بے رحمانہ قتل کے معاملے میں حکومت کی عدم کارکردگی اور بی جے پی لیڈروں کی جانب سے ملزموں کی حمایت میں ریلیاں منعقد کرنے کے بارے میں منیکا نے لب کشائی نہیں کی بلکہ اپنی حکومت اور پارٹی کی خاموش تائید کی تھی۔ ایک دیگر واقعے میں اپنے حلقے سلطان پور میں محکمہ بجلی کے ایک افسر کو ڈانٹ ڈپٹ کر بے عزت کرنے کا ایک آڈیو ٹھیک ایک سال پہلے وائرل ہوا تھا۔ کلکٹریٹ میں اجلاس کے دوران سب کے سامنے منیکا اپنا آپا کھو بیٹھیں اور ایس ڈی او کو ذلیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم کوئی راجا ہو کیا؟ تم چھوٹے موٹے ملازم۔۔۔ ہماری بھیک پر جیتے ہو۔‘‘
زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ کے سوشل میڈیا شعبے میں سرپھٹوّل اجاگر ہوئی ہے۔ اس ٹیم میں کام کرنے والے صحافیوں کے متنازعہ آڈیو کلپ وائرل ہو چکے ہیں۔ اتر پردیش پولیس نے وزیر اعلیٰ یوگی کے سرکاری میڈیا سیل سے وابستہ دو لوگوں کے بیچ پیسے کے لین دین والی بات چیت پر مبنی آڈیو کلِپ کو سوشل میڈیا میں جاری کرنے کے الزام میں ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔ ایک ملازم پارتھ سری واستو کی مشکوک حالات میں موت واقع ہو چکی ہے۔
منیکا کی قابل اعتراض ٹیلیفون بات چیت لیک ہو کر عام ہونے کے بعد سوال اٹھنے لگے ہیں کہ ڈاکٹروں کے ذریعے علاج کے آپسی تنازع میں بار بار منیکا کیوں مداخلت کر رہی ہیں؟ کیا پولیس تفتیش پر ان کو اعتماد نہیں یا وہ کسی اور مقصد کے لیے لوگوں کے بیچ ’تصفیہ‘ کی کوششیں کرتی ہیں؟ کیا وہ بھارت میں ایجنڈے کے تحت انسانوں کی عزت وتوقیر کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگی ہیں؟ جانوروں کی صحت وزندگی کی اتنی پروا کرنے والی منیکا کو کیا انسانی جان اور احترام کی پروا نہیں ہے جو جانوروں کی خاطر انسانوں سے اس قدر بے لگام زبان میں گفتگو کر رہی ہیں؟ کسی ایم پی کے مسلسل غیر انسانی وغیر جمہوری برتاؤ پر پارٹی کی خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا ان کا رویہ ان کی پارٹی کے نظریات کی اُپج ہے؟ منیکا گاندھی کو یہ حق کس ناطے حاصل ہو گیا ہے کہ وہ ہر کس وناکس کو دھمکائیں، بد کلامی کریں اور نجی وخاندانی زندگی پر سوال کر کے سرکاری عملے یا شہریوں کی تذلیل کریں؟ ان کو عوام کی خدمت کے لیے نمائندہ منتخب گیا ہے یا جانوروں کی پیروی کرنے کے لیے؟ یوں بھی انہیں کورونا کے زمانے میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ملک کی حکمراں اور دنیا کی سب سے بڑی نیز خود کو بہتر ’’چال، چرتر اور چہرہ‘‘ کا حامل بتانے والی پارٹی کی لیڈر کسی بھی فرد اور وہ بھی ڈاکٹروں کے ساتھ بد زبانی، فحش کلامی اور دھمکی آمیز کلمات کا استعمال کس طرح کر سکتی ہے؟
ان واقعات سے یو پی کی اندرونی صورت حال، حکومت کے انتشار اور پارٹی لیڈروں کی جھلاہٹ کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان ہی حالات میں حزب اختلاف کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور بے رحم رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط سیاسی ونظریاتی متبادل کھڑا کر کے ایک انسان نواز، غریب دوست اور جمہور کے جذبات کا خیال رکھنے والی حکومت تشکیل دینے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ جمہوریت میں اقتدار سے بے دخل کر کے ہی عوامی نمائندوں کے غرور کو چکنا چور کیا جا سکتا ہے اور ان کی بے عملی اور بد عملی پر ان کو سبق بھی سکھایا جا سکتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021