اداریــــہ

نا اہلی کا اعتراف کب؟ راجا تو برہنہ ہے!

 

ڈنمارک کے ہینس کرشچن اینڈرسن نے کوپن ہیگن میں ۷؍ اپریل ۱۸۳۷ کو ایک کہانی شایع کی تھی جس کا عنوان تھا ‘The Emperor Had No Clothes ’اس تمثیلی کہانی کے ذریعے اینڈرسن نے بتایا کہ چاپلوس، خوشامدی اور جی حضوری کرنے والے اگر کسی حکمراں کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں اور وہ ان کے علاوہ کسی اور کی رائے کو اہمیت نہ دے تو ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ راجا برہنہ کھڑا ہو جاتا ہے، لیکن حواری راجا کو حقیقتِ حال سے واقف نہیں کرواتے، اس ڈر سے کہ کہیں راجا خفا نہ ہو جائے۔ درباریوں کی منافقت دیکھ کر حیران پریشان ایک بچہ ہمت کر کے آگے بڑھتا ہے اور راجا کو اصلیت سے واقف کرواتا ہے کہ ’حضور آپ تو بے لباس ہیں‘۔ حیرت کی بات نہیں کہ مذکورہ کہانی کا دنیا کے سو سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اب یہ جملہ ایک محاورہ بن چکا ہے۔ خامیوں اور نا اہلیوں کی نشان دہی کرنے والے اپنا فرض انجام نہ دیں تو بعض مواقع حکمرانوں کے لیے شرمندگی اور پریشانی میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیکن انہی حالات میں کسی معصوم بچے کا ضمیر جاگ سکتا ہے اور وہ اصلیت کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ در اصل گجرات کی ایک خاتون نے اسی بچے کے کردار کو آج تازہ کیا ہے۔
۱۱؍ مئی کو گجرات کی ایک معروف شاعرہ پارول کھَکّر نے ’’شَوَ واہینی گنگا‘‘ کے عنوان سے ایک نظم سوشل میڈیا پر جاری کی۔ جس کے بعد ادیبوں کے ایک حلقے نے خود کو ان سے الگ کر لیا ہے۔ لیکن گجرات اور ملک کے ادبا اور شعرا اب پارول کی حمایت میں آگے آ رہے ہیں۔ حسبِ عادت بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور سنگھی ٹولیوں سے وابستہ کارندوں نے ان پر گالیوں کی بوچھار کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ قریب چالیس ہزار گالیوں سے پارول کو اب تک نوازا جا چکا ہے۔ در اصل پارول کے ضمیر کو کورونا سے ہلاک ہونے پر لاشوں کو جلانے کی بجائے پانیوں میں بہانے کے مناظر نے اندر سے ہِلا کر رکھ دیا۔ انتہائی جذباتی، باغیانہ نظم میں انہوں نے لکھا کہ پی ایم ’صاحب‘ ایک ایسے راجا ہیں جو برہنہ کھڑے ہیں اور ان کے حواری ان کو اصلیت سے آگاہ کرنے کی بجائے گن گا رہے ہیں ’سب کچھ چنگا چنگا‘۔ جب گنگا میں لاشیں بہتی رہیں وہ بانسری بجاتے رہے۔
آناً فاناً اس نظم کے متعدد زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں اور وہ بھی وائرل ہو رہے ہیں۔
بات صرف پارول کی نہیں بلکہ ملک کی عدالتیں بھی حکمرانوں پر انگشت نمائی کر رہی ہیں۔ ملک کی مختلف عدالتیں اور سپریم کورٹ کے جسٹس اے ایس بوبڈے کے ریٹائر ہوتے ہی سپریم کورٹ بھی کورونا اور سرکاری بے اعتنائی کے معاملے پر نہایت سخت ریمارک کرتی آئی ہیں۔ ۱۹؍ مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’سیاست دانوں اور سرکاری عہدیداروں کے لیے اپنی ناکامی اور نا اہلی کا اعتراف کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ان کے خون میں نہیں ہوتا۔‘‘ اپنی امیج بچانے اور پی آر کے لیے اپنے حواریوں کو کام میں لگانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ملک کے حکمراں اول تو اپنی سابقہ خامیوں اور کمیوں کا جائزہ لیں اور ان کا اعتراف بھی کریں تبھی ان کی اصلاح ممکن ہے۔ ورنہ زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی آنے سے رہی!
دوسری جانب آر ایس ایس سے توقع تھی کہ وہ مذکورہ کہانی میں انگلی اٹھانے والے بچے کا کردار نبھاتا لیکن مبینہ ’’پازیٹیویٹی مہم‘‘ لانچ کر کے ایک طرح سے سنگھ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے ’ننگ راجا‘ کو آئینہ دکھانے کی بجائے ایک ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ’سب چَنگا سی۔‘ گویا شتر مرغ والے رویے پر چل کر اپنی گردن ریت میں گھسا دی ہے اور باہر کے بَونڈر سے مقابلہ کرنے کا وہ کوئی حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ جو کہ نا اہلی اور ناکامی کا اعتراف ہے۔
ظاہر ہے کہ ملک اور دنیا میں ہماری ناکامیوں کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ’مارننگ کَنسلٹ‘ نامی اعداد وشمار پر تحقیق کرنے والی ایک کمپنی نے سروے کیا ہے جس میں انکشاف کیا ہے کہ کورونا پر لاپروائی برتنے کے سبب ہمارے وزیر اعظم جناب مودی صاحب کے خلاف عوامی سطح پر ناراضگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کے ایک لیڈر نے ’دی کارگین ڈیلی‘ نامی جعلی ویب پورٹل پر مودی جی کی ستائش کرنے والا مضمون شائع کروایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا عالمی میڈیا میں اب مودی جی کے کورونا کا مقابلہ کرنے کے اقدامات کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ باقی حزب اختلاف والے تو ملک اور مودی دونوں کی شبیہ خراب کرنے کے لیے ’ٹول کٹ‘ کا استعمال کرنے میں لگے ہیں۔ حالانکہ کانگریس کے نام پر بی جے پی ہی نے ایک جعلی ٹول کِٹ جاری کیا تھا جس کے لیے ٹویٹر نے سزا کے طور پر پارٹی ترجمان سمبت پاترا کے ٹویٹ کو Manipulated Mediaکے زمرہ میں شامل کیا ہے۔ دوسری جانب کانگریس نے پاترا کے ساتھ ساتھ پارٹی صدر جے پی نڈّا کے خلاف کیس کرج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ایک سنجیدہ اقدام ہے اور اب مرکز کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن کے اقدامی رویے کی نشان دہی کرتا ہے۔ لیکن یہ سوال ہنوز برقرار ہے کہ کیا اب حکمراں پارٹی کورونا سے لڑنے کی جگہ اپوزیشن اور عالمی میڈیا سے لڑنے کو ترجیح دینے لگی ہے؟ ایسی پارٹی جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتی کہ ان کے ہاں ’ملک اول پارٹی بعد اور فرد آخر‘ ہے وہ آج اس ترتیب کو بالکل ہی اُلٹ چکی ہے۔ کم از کم اتنا شعور اب لازم ہے کہ دنیا کا کوئی حکمراں ہمیشہ کے لیے اقتدار پر نہیں رہتا۔ دوسری جانب ملک کے وفاقی ڈھانچے میں صرف مرکز میں ہی حکمراں منتخب نہیں ہوتے بلکہ ریاستوں میں بھی عوام ہی اپنے وزرائے اعلیٰ کو ووٹوں کے ذریعے منتخب کرتے ہیں جن کی آواز کو دبایا یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں کانگریس کا مقدمہ دائر کرنا اور اُدّھو ٹھاکرے، بھوپیش بگھیل، ہیمنت سورین، کے چندر شیکھر راؤ، اشوک گہلوت اور اب ممتا بنرجی جیسے وزرائے اعلیٰ نے وقتاً فوقتاً مرکز کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے بلکہ اب ڈکٹیٹر کی طرح اور مغرور انداز کے ساتھ پی ایم کی ویب کانفرنس منعقد کرنے پر مرکز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے لگے ہیں۔ ریاست اور مرکز کے بیچ وفاقی نظم کو بچانے کے لیے اگر ریاستیں سرگرم ہو رہی ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور ایسا کر کے وہ بھی اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کی آواز کو اٹھانے کا کام کر رہی ہیں، نہ پروٹوکول کے خلاف ہیں اور نہ کوئی غیر جمہوری کام کیا ہے۔ عوام کے درد اور گھٹن میں اپوزیشن کا یہ عمل جمہوریت کے تحفظ و بقا کے لیے کسی آکسیجن سے کم نہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021