اس وقت دنیا کے دو ہی ممالک ایسے ہوں گے جو کورونا سے کم اور تعصب و نفرت کے وائرس سے زیادہ لڑ رہے ہیں۔ رمضان کی مبارک گھڑیوں میں روحانی طاقت حاصل کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے عبادت گزاروں پر بے رحمی سے دھاوا بولنے والی اسرائیلی پولیس نے اپنا مکروہ ایجنڈہ پھر ایک بار دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں پر بے تحاشا فائرنگ اور عام آبادیوں پر بمباری کر کے بھی اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ اسرائیل کی طرف سے جاری ہے۔ دوسری طرف بھارتی سماج میں گھن کی طرح عوام کا استحصال کرنے والے عناصر نے اپنا سر اٹھا لیا ہے جو مذہب اور ذات کی بنا پر تفریق کو کورونا وبا کے سنگین چیلینج مقابلے میں آج بھی روا رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم اور ریاستی حکومتیں عوام سے اپیل کرتے نہیں تھکتیں کہ سب کو مل کر کورونا سے جنگ کرنا ہے لیکن عوام کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں کچھ لوگ مسائل و پریشانیوں سے شکست خوردہ ہیں تو کچھ لوگ ’’آپدا میں اَوَسر‘‘ کی وزیر اعظم کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نقلی دوائیں بنا رہے ہیں، واجبی سے زیادہ قیمتیں وصول رہے ہیں یا جمع خوری اور منافع خوری کے نئے نئے ’’مواقع‘‘ ڈھونڈ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی بنگال سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی مہمات، اتر پردیش کے پنچایت الیکشن سمیت وہ سارے کام کیے ہیں جو کورونا سے مقابلہ کے برعکس عمل ہے۔ ساتھ ہی بنگال اسمبلی انتخابات کی پوری مہم فرقہ ورانہ موضوعات کے گرد رکھ کر تعصب کے وائرس کو اور بھی زیادہ پھیلنے کا بھر پور موقع فراہم کیا گیا۔
۱۹ فروری کو حکومت ہند کی وزارتِ ثقافت نے آر ایس ایس کے سابق صدر مدھو گولوالکر کی سالگرہ پر جشن منانے کے لیے پیغام جاری کر دیا تھا۔ وزارت سائنس نے کورونا مریضوں پر گایتری منتر کے اثرات جاننے کے لیے چودہ دنوں کا ایک ٹرائل ملک کے مؤقر ادارہ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے ساتھ مل کر رشی کیش کے ایک اسپتال میں انجام دیا۔ وزیر اعلیٰ اتر پردیش نے ہر ضلع میں گائے شیلٹر ہوم قائم کروائے جہاں گائیوں کا بخار اور ان کا آکسیجن لیول روزانہ جانچا جا رہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ایک مرکزی وزیر سنتوش گنگوار نے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ان کے بریلی حلقے میں انسانوں کو آکسیجن تو کیا ضروری دوائیں بھی میسر نہیں ہیں۔ اتر پردیش کے ایک بی جے پی رکن اسمبلی نے گائے کا پیشاب پیتے ہوئے اپنا ایک ویڈیو بنا کر کے لوگوں سے اپیل کی کہ یہی ہر مرض کا اکسیر علاج ہے۔ سوامی چَکرپانی مہاراج نے کورونا کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے دلی میں باضابطہ اشتہار کر کے ’’گَوموتر پارٹی‘‘ منعقد کی۔
جب کہ صورت واقعہ یہ ہے کہ عوام اپنی دواؤں اور آکسیجن تک کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور کر دیے گیے ہیں۔ سوشل میڈیا انسانی جانوں کو بچانے کے لیے آج جو کردار ادا کر رہا ہے وہ تاریخی اور بے مثال ہے۔ خدمت کے اس میدان میں وہ طبقہ کہیں دور دور تک بھی نظر نہں آیا جو ’’دیش پہلے، دیش کے لیے جان بھی حاضر‘‘ جیسے دعوے کرتے نہیں تھکتا تھا۔ الٹا ’’پنچر والے لوگ‘‘ کہہ کر جس قوم کا مذاق اڑایا جاتا رہا اسی قوم کے روزہ داروں نے سب سے بڑھ کر ملک کے زندوں ہی کی نہیں بلکہ مردوں تک کی بے لوث خدمت کی۔ شاید زعفرانی ٹولے کو یہ فضیحت برداشت نہ ہوئی چنانچہ بنگلورو کے بدنام زمانہ ایم پی تیجسوی سوریا اور ان کے ساتھی ایم ایل اے نے خاص طور پر مسلم ملازمین اور ان کے تقرر کو نشانہ بناکر کورونا کے خلاف جنگ کو بھی تعصب کی ڈگر پر لے جانے کا کارنامہ انجام دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دنوں سے اسٹاف کم ہو گیا اور کورونا کے خلاف جنگ کمزور پڑ گئی۔ لیکن اس سے ان کو کیا غرض؟ انہوں نے تو فرقہ پرستی اور نفرت وتعصب کی آگ میں گھی ڈال کر اپنی لیڈری کی دکان بھی چمکا لی اور ایک انسانی مسئلے کو ہندو مسلم رنگ دے کر کورونا سے نمٹنے میں اپنی پارٹی کی ناکامیوں پر کامیابی کے ساتھ پردہ بھی ڈال دیا۔ لیڈری بھی یوں چمکی کہ کانگریس کے سینئر رکن پارلیمان ششی تھرور تک نے سوریا کو تیز طرار، پر جوش نوجوان دوست جیسے القاب سے نوازا۔ اس پر عوام نے فاشزم اور اس کے سیکولر حمایتیوں کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں۔ گویا آج ہم ہر اس موضوع پر توانائی صَرف کر رہے ہیں جہاں کورونا کے مریض تو وینٹیلیٹر پر رہیں لیکن سیاست و منافرت پروان چڑھتی رہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کیوں کہتے ہیں کہ کورونا سے ’جنگ‘ کے لیے سب کو متحد ہونا ہے؟ حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہند کے امیر اور مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں نے بھی وزیر اعظم کو خطوط لکھ کر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے لیکن حکومت کی جانب سے کسی تعمیری و مثبت رد عمل کا کوئی ایک اشارہ تک نظر نہیں آیا۔
اس حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والی آر ایس ایس کے ایک نہایت اہم عہدیدار ہوسابلے نے ایک خطرناک بیان جاری کر دیا تھا کہ کورونا وبا کی دوسری لہر کا کچھ ’’ملک دشمن عناصر‘‘ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ مرکزی حکومت کو بدنام بھی کریں گے۔ کیا سنگھ کو حقیقت ایسی کوئی ٹھوس معلومات فراہم ہوئی ہیں؟ اگر ہوئیں تو ہوسابَلے نے میڈیا کو تو بتا دیا لیکن خفیہ اداروں، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ اور خود پی ایم او کو اس کی تفصیلات فراہم کیں یا نہیں؟ ساتھ ہی یہ سوالات بھی جواب طلب ہوں گے کہ کیا حکومت کی ناقص کارکردگی اور کورونا سے مقابلے میں بے عملی اور لاپروائی پر انگلی اٹھانے والے سب ملک دشمن ہیں؟ کیا سنگھ کی اسی ’ہدایت‘ کے پیش نظر اتر پردیش اور ملک بھر کے صحافیوں پر نشانہ سادھا جا رہا ہے؟ کیا ملک دشمنی کے عمل کی تعبیر و تشریح کرنے کا حق سنگھ اور اس کے توسط سے پولیس کو دے دیا گیا ہے؟ کہیں ملک کو خانہ جنگی کی صورتحال میں دھکیل کر اپنی آمریت کو مضبوط کرنے کا ’موقع‘ تو نہیں ڈھونڈا جا رہا ہے؟ ایجنسیوں کو چاہیے کہ وہ آر ایس ایس سے گہری پوچھ تاچھ کرے اور انکشاف کرے کہ آخر کون ملک دشمن عناصر ہیں جو ملک کو کھوکھلا کرنے کے عزائم رکھتے ہیں؟ اگر ایسی بات نہیں ہے تو آئے دن اس طرح کے بیانات دینے کا مقصد کیا ہے؟ کیا ٹوٹے دلوں اور منافرت بھرے سماج کے ساتھ کورونا کے خلاف جنگ لڑی جا سکے گی؟
مالی لوٹ سے لے کر نفرت و تعصب کی اس زہریلی فضا کو اسی طرح پروان چڑھایا جاتا رہا تو ہم کوورونا سے جنگ میں تو کمزور پڑیں گے ہی ساتھ ہی تعصب کا وائرس بھی ہمیں ایک ناکام مملکت بنا کر چھوڑے گا۔
ملک سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کورونا سے بھی پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ اس نفرت کے وائرس کو بھی پنپنے کا موقع نہ دیں اور اس کے پھیلانے والوں کو اپنے انجام تک پہنچائیں۔