سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے الیکٹورل بانڈس کی فروخت پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں یہ عرضی داخل کی گئی تھی کہ مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالا اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر یکم اپریل سے ۱۰ اپریل تک الیکٹورل بانڈس کی فروخت پر روک لگائی جائے۔ واضح رہے کہ یہ الیکٹورل بانڈس ہر سہ ماہی یعنی جنوری، اپریل، جولائی اور اکٹوبر کے ابتدائی دس دنوں کے دوران اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی جانب سے فروخت کیے جاتے ہیں۔ الیکٹورل بانڈس کی یہ اسکیم مرکزی حکومت کی جانب سے جنوری ۲۰۱۸ء میں شروع کی گئی تھی۔ الیکٹورل بانڈ دراصل کسی بھی فرد یا تجارتی ادارے کی جانب سے اپنا نام ظاہر کیے بغیر اپنی پسندیدہ پارٹی کو چندہ دینے کا قانونی دستاویز ہے۔ ان بانڈس پر خریدنے والے یا ان کی رقم ادا کرنے والے کی کوئی معلومات درج نہیں ہوتیں اور جس سیاسی پارٹی کے پاس یہ بانڈس موجود ہوتے ہیں وہی ان کی مالک سمجھی جاتی ہے۔ یہ بانڈس ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ اور ایک کروڑ روپے کی مالیت میں دستیاب ہیں۔ صرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا ہی کو انہیں فروخت کی اجازت دی گئی ہے۔ کوئی کمپنی یا فرد لا محدود تعداد میں بانڈس خرید کر اپنی پسندیدہ پارٹی کو عطیہ دے سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارچ ۲۰۱۸ سے جنوری ۲۰۲۱ کے دوران کل ۶ ہزار ۵ سو ۳۵ کروڑ روپے لاگت کے ۱۲ ہزار ۹ سو ۲۴ الیکٹورل بانڈس فروخت کیے گئے جن میں سے ۶۰ فیصد سے زیادہ بانڈس تنہا بی جے پی کو حاصل ہوئے ہیں۔ اسکیم کو پیش کرتے ہوئے حکومت نے یہ دلیل دی تھی کہ اس سے ملک کے انتخابی عمل میں کالے دھن کا عمل دخل ختم ہو جائے گا اور سارے عطیات بنک کی علم و اطلاع کے ذریعے ہی پارٹیوں تک پہنچ سکیں گے۔ لیکن مختلف سیاسی ماہرین اور دانشوروں کے نزدیک یہ بانڈس ہندوستان کی جمہوریت کے لیے نہایت ہی نقصان دہ اور اس کے اصل حصہ دار یعنی عوام کے حق معلومات پر حملہ ہیں۔ عطیہ دہندگان کی عدم معلومات ہی اس کا سب سے قابل اعتراض پہلو ہے۔ دراصل مرکزی حکومت نے فائنانس ایکٹ ۲۰۱۷ء میں ترمیم کرتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کو الکٹورل بانڈس کے ذریعے حاصل ہونے والے عطیات کی تفصیلات دینے سے مستثنیٰ کر دیا تھا۔ وہ ہرسال الیکشن کمیشن کو جو حسابات پیش کرتے ہیں ان میں الیکٹورل بانڈس کے ذریعے حاصل ہونے والے عطیات کی تفصیلات پیش کرنا لازمی نہیں ہوتا۔ حالاں کہ ان بانڈس کے آغاز سے قبل بیس ہزار سے زائد عطیہ دینے والوں کی تفصیلات فراہم کرنا سیاسی پارٹیوں کے لیے ضروری تھا۔ چنانچہ اب ووٹر کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی پسندیدہ پارٹی نے کس فرد یا کس تجارتی ادارے سے کس قدر عطیہ حاصل کیا ہے۔ جمہوریت میں شفافیت کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرف تو ملک کے شہریوں کے حق معلومات پر ایک قدغن ہے اور دوسری طرف اس کے ذریعے سیاسی طبقہ کی جواب دہی اور بھی کم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اور یہ جمہوری روح کے بالکل خلاف ہے۔ جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ رائے دہندے جس کسی کو ووٹ دے کر ایوان میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہے ہیں انہیں ان افراد کے متعلق مکمل معلومات کا ہونا لازمی ہے، بالخصوص مالی معاملات کے متعلق معلومات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ اکثر جمہوری ممالک میں سرمایہ دار اور کارپوریٹ ادارے دولت ہی کی بنیاد پر اپنی پسندیدہ پالیسیاں بنواتے ہیں، مختلف ریگولیٹری اداروں پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں اور حکومت کے فیصلوں کو اپنے حق میں ہموار کرتے ہیں۔ اگر ملک کے شہری مختلف سیاسی پارٹیوں کے مالی ذرائع کے متعلق اندھیرے میں رہیں تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا کہ جو حکومتی پالیسیاں بنائی گئی ہیں وہ دراصل ان کے مفاد میں نہیں بلکہ سیاسی پارٹی کو عطیہ دینے والوں کے مفاد میں ہیں۔ اور یہ صورت حال کسی بھی ملک میں جمہوریت کے زوال کی علامت ہے کیوں کہ جمہوریت کی تعریف ہی یہی ہے کہ اس کی بنیاد پر قائم کی جانے والی حکومت عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے لیکن اس طرح کی صورت حال میں یہ حکومت محض سرمایہ داروں کی، سرمایہ داروں کے ذریعے اور سرمایہ داروں کے لیے ہو جاتی ہے۔
ہمارا ملک ایک طویل عرصے سے اسی راستے پر چل رہا ہے۔ یہاں کے انتخابی عمل میں دولت کا عمل دخل بے انتہا بڑھ چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں بحیثیت مجموعی ۵۵ ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ یہ خرچ ۱۹۹۸ کے لوک سبھا انتخاب میں ہونے والے خرچ سے چھ گنا زیادہ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی تقریباً چالیس فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار تی ہے وہاں صرف ایک انتخاب کے لیے ۵۵ ہزار کروڑ روپے (۸ بلین ڈالرس) صرف کر دیے جاتے ہیں اور وہ دنیا میں سب سے مہنگے انتخابات کا ریکارڈ قائم کر دیتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی انتخابات میں
اخراجات پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ opensecret.org کے مطابق ۲۰۱۶ء میں ہونے والے امریکی صدراتی اور کانگریس کے انتخابات میں کل 6.5 بلین ڈالرس خرچ ہوئے تھے۔ صورت حال ایسی ہو چکی ہے کہ انتخابات میں ایک عام آدمی کا حصہ لینا نا ممکن ہو چکا ہے۔ وہ جمہوریت بھی کیا جمہوریت ہے جس میں ایک عام اور غریب آدمی نہ تو انتخابات میں عملاً بطور امیدوار حصہ لے سکتا ہے اور نہ انتخاب کے بعد بننے والی حکومت ہی اس کے مفادات کا خیال رکھتی ہے۔ اس طرح آج کی جمہوری حکومت عملاً عوام کی نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔
ان بانڈس میں عطیہ دہندگان کی معلومات سے متعلق ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بر سرکار حکومت اسٹیٹ بنک کے ذریعے بانڈز خریدنے والے کی تمام تفصیلات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ گویا معلومات کی یہ پوشیدگی صرف عوام اور اپوزیشن پارٹیوں تک ہی محدود ہے۔ جب عطیہ دینے والا یہ جانتا ہے کہ حکومت وقت اس کے عطیوں کے متعلق ساری معلومات حاصل کر سکتی ہے تو وہ موجودہ حالات میں حکومت وقت کی ناراضگی کا خطرہ کیوں مول لے گا۔ اس طرح ہمیشہ حکومت میں رہنے والی پارٹی ہی ان بانڈز سے بھر پور فائدہ اٹھاتی رہے گی جو آزادانہ اور مساویانہ انتخاب کے بالکل منافی ہے۔ یہ ایک طرح سے ملک کو کثیر جماعتی نظام سے یک جماعتی نظام کی طرف لے جانے کی دانستہ کوشش ہے جہاں حکمراں پارٹی دوسری تمام پارٹیوں کی آمدنی کے سوتوں کو بتدریج خشک کر کے انہیں کمزور کر رہی ہے۔
بحیثیت مجموعی الیکٹورل بانڈز کی یہ اسکیم ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کرنے والی بہت ساری کوششوں میں سے ایک ہے اور ملک کے جمہوریت پسند عوام کو اس سے بہت جلد باخبر ہونے کی ضرورت ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021