اداریــــہ

قوم و قیادت کے لیے وقتِ احتساب!

اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو کیا تردد ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی آج کی تاریخ میں اپنی عوامی مقبولیت کی بلند ترین چوٹی پر کھڑے ہیں۔ ان کی ہر ادا پر جان فدا کرنے والے ان کے چہیتوں کو بھلے ہی ’’بھکت اور اندھ بھکت‘‘ کا لقب دے کر ان کی تحقیر کی جاتی ہو لیکن بھلا ان میں سے کس بات کا اثر ان عقیدت مندوں پر پڑا ہے؟ وزیر اعظم ہر چھوٹی بڑی سرگرمی کو ایک ’’شو‘‘ میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جسے لوگ ’شعبدہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی ماہ ایک بزرگ خاتون نے ایک وزیراعظم کے ویڈیو خطاب پر مبنی لائیو نما پروگرام کے دوران وزیر اعظم مودی کو اپنا ’’بھگوان‘‘ تک قرار دیا ہے کیونکہ ان کی جان اس طرح بچی کہ وزیر اعظم کی صحت سے متعلق ایک اسکیم سے ان کو استفادہ ہوا اور وہ اس کے لیے مودی جی کا شکریہ ادا کرتی ہے اور وزیر اعظم خاتون کی اس بات پر اس قدر ’جذباتی‘ بھی ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے ان کی ہچکی بندھ رہی ہو۔ پھر سب جانتے ہیں کہ کیسے بلا تاخیر ان مناظر کو چینلوں کی اور پھر اخبارات کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ویسے مودی جی کو بھگوان کہے جانےسے کافی پہلے ان کے مندر بن چکے ہیں۔
جس وزیراعظم کے نام پر پارلیمنٹ و اسمبلی بلکہ میونسپالٹی انتخابات تک میں لوگ آنکھیں موند کر ووٹ ڈالتے ہوں اور گھوڑا گدھا سب منتخب ہو کر ’جنتا کے نمائندے‘ بن جاتے ہوں،جس قاید کے بادی النظر میں اوٹ پٹانگ فیصلوں پر ان کے ووٹر یہ کہ کر سر تسلیم خم کر دیتے ہوں کہ ’’یہ تکلیف دہ بھلے ہو لیکن لیا دیش ھِت (ملکی مفاد) میں گیا ہے۔‘‘
انہی مودی جی نے پھر ایک دن آٹھ بجے شب اعلان کر دیا کہ ’’جَنتاکرفیو‘‘ میں لوگ خود کو گھروں میں قید کر لیں اور شام 5 بجے پانچ منٹ کے لیے تالی بجا کر ڈاکٹروں سے اظہار یگانگت کریں۔ توان کاسب طبقات نے بھرپور ساتھ دیا تھا لہذااب ’’کرفیو جیسا‘‘ ایک لاک ڈاؤن اگلے اکیس دنوں کے لیے پورے ملک بھر میں لاگو کرنے کا جب نیا اعلان سامنے آیا توپارٹی و حکومت کے کارندوں سے لے کر غیر بی جی پی ریاستوں کی پولیس تک یوں اس حکم کے نفاذ میں لگ گئی کہ گویا ان کو ’حکمِ خداوندی‘ ملا ہو۔ آفات کی روک تھام سے متعلق قانون Disaster Management Act-1897کے تحت نافذالعمل ملک گیرپابندیوں کے دوران بے انتہا والہانہ (بعضوں کے نزدیک واہیات) طریقوں سے عوام و خواص نے اسی قانون کا باجا بجا دیا۔ معاً بعد مختلف ریاستوں نے بندشوں کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ اس کے مختلف اثرات کا جائزہ وقت کے ساتھ لیا جائے گا۔ البتہ بعض پہلو نمایاں ہیں اول یہ کہ پولیس نے اکثر جگہوں پر اپنے ڈنڈے کا غلط یا غیرضروری استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ٹی وی اسکرینوں پر وہ مناظر بھی بڑے چاؤ سے دیکھے گئے کہ کس طرح پولیس نے سڑکوں پر پکڑے گئے لوگوں کے کپڑے اتروائے اور کس طرح کان پکڑوا کرذلیل کیا بلکہ بعض مقامات پر بائک سواروں کوگاڑی سے اتار کر زمین پر لڑھکنے کو مجبور کیا درآں حالیکہ پولیس ان کو لگاتار پیٹتی بھی جا رہی تھی گویا کہ عقیدت مندوں کو ان کے بھگوان کا ’’پرساد‘‘ دیا جا رہا ہو۔ حالانکہ انتظامیہ بیچ سفر میں پھنسے مسافروں اور باہر نکل کر سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور ہوئے عوام کی ضروریات کی تکمیل از خود کرتی تو ان کے نکلنے کی نوبت شاید آتی ہی نہیں۔
دوسرا پہلو بے سہارا عوام کی مصیبتوں میں فوری اضافہ ہو گیا۔ انفرادی و غیر سرکاری سطح پر بعض بیدار مغز و درد مند لوگوں اور گروپوں نے راتوں رات حالات کے تقاضوں کے تحت درپیش ضرورتوں اور سنگینی کو محسوس کیا اور اپنی سکت بھر کھانے پینے کا سامان فراہم کیا جانے لگا، بھلے انتظامیہ و پولیس ان مجبوروں تک اب تک پہنچ نہ سکے ہوں۔ تیسرا پہلو تعصب و نفرت انگیزی ہے۔ خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں کے باشندوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویے اور امتازی سلوک برتنے کے واقعات رو نما ہونے لگے ہیں۔ اس خطے کے باشندوں کی شکل و شباہت اور ناک نقش چینی باشندوں سے ملتی جلتے ہیں جس کی بنا پر ان کوبھارت کے دیگر حصوں میں ’’کورونا وائرس‘‘ کہہ کرپکارا جا رہا ہے۔ جو کہ ملکی سالمیت اور معاشرتی اتحاد کے لیے ایک نیا خطرہ بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے قوم کے نام خطاب میں ایک اہم بات کہی کہ عوام ’’اَندھ وِشواس‘‘ پھیالانے والی باتوں پر یقین نہ کریں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مودی جی اپنے پیروکاروں اورنظریاتی پریوارکے ان لوگوں کو پہلے روک دیتے جو جگہ جگہ یگیہ، گوموتر پارٹی، سورج کی دھوپ سے یا جاریہ نو راتری کے ’‘ وَرت‘ یعنی روزوں کے ذریعہ اور یوگا کرنے سے بلکہ تھالی بجانے سے بھی کورونا والی بیماری سے بچنے کی باتیں کھلے عام کہہ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پرپھیلا بھی رہے ہیں۔ہمارا ملک پہلی بار اس صورتحال سے گذر رہا ہے کہ جہاں 19 ریاستوں میں مکمل بندشیں لاگو ہیں اور ملک کی سطح پر بھی کرفیو نما بندشوں کو لاگو کیا گیا ہے۔ ریل اور ہوائی راستے مکمل بند کئے گئے ہیں ایسے میں بجا طور پرپی ایم نے نوراتری اورہولی تقریبات کو روک دیا وہیں مدھیہ پردیش کے نئے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان نے سوشل ڈسٹنسنگ کے اصولوں کو طاق پر رکھ کراپنی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔مدھیہ پردیش میں وزیر اعلی کا حلف لینے کی تقریب بھی منعقد کی گئی اور نئے سرے سے کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کا جشن بھی منایا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ کم و بیش تین دنوں تک ملک کی ایک بڑی ریاست بغیر سرکار کے چلتی رہی۔ کاش کے مودی جی اپنے وزن کا استعمال کرتے اور وہاں سیاسی اقدار کی پائمالی کو روکنے میں اپنا حصہ ادا کرتے۔
بہر حال مسلم ملت کو اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ آئسولیشن کے اس چیلینج کو ایک موقع میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں یا میدان خالی چھوڑ کرپھر مقہورو مظلوم بن جاتے ہیں۔ منصب خلافت اور دنیا کی امامت کے لیے برپا کی گئی ملت کو ایسا کرنا زیبا نہیں دیتا۔ مختلف حلقوں سے ان حالات میں کرنے کے کئی طرح کے کام سجھائے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلم فلاحی و سماجی کارکنوں نیزاداروں کے بیچ باہم تال میل و رابطے کی شکلیں قریہ و دیہات سے لے کر شہر و ریاستی سطح تک پیدا کی جائیں تاکہ بر وقت امداد، راحت رسانی، رہنمائی وغیرہ کا نظم کیا جا سکے۔
مساجد و شب معراج کے تناظرمیں محلوں میں سڑکوں پر اتری نمازیوں وغیرہ کی بھیڑ کو انتہائی منفی انداز سے کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے مجمع کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ملت کو اس دوران بھی بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت تھی لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ نوجوانوں کے جُھنڈ رات رات بھر بند کمروں یا مساجد کے اندر بیٹھ کرعبادات میں مشغول رہنےکی بجائے جس طرح چائے نوشی اور مٹر گشتی میں لگے رہے اسی سے شر پسندوں کو ملت کے شعائرِ اسلام کی بدنما تصویر پیش کرنے کا موقع میسر آیا۔
شاہین باغ کے بعد اب سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پرمساجد کو کورونا وائرس پھیلانے کے مراکز کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ علما کی رہنمائی میں ایک منضبط لائحہ عمل پر کام کرتے ہوئے ’احسن مجادلہ‘ اور دعوتی انداز سے شر پسندوں کا جواب دینے کے لیے ہمارے نوجوانوں، خواتین کے ان فرصت کے لمحات کو استعمال میں لانے کاکام کیا جاسکتا ہے۔
اسکائپ، ویڈیوکال اور کال کانفرنسگ جیسی آسانی سے دستیاب اسمارٹ فون کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے گھر، محلوں میں دینی موضوعات پر دروس اور کلاسوں کے انعقاد کا نظم کرنے سے بھی نئی نسل کو ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔