احساس زیاں جاتا رہا۔۔!

مرعوب و خوابیدہ ذہنوں کو پیکر عمل بن کر بیدار کریں

جاویدہ بیگم ورنگلی

دنیا نے تجربات و حوادث کے شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
جب بھی ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آتا ہے تو زندگی کے وہ تجربات یاد آجاتے ہیں جو ذہن میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے لڑکے کو کمپنی کی جانب سے جو کوارٹر الاٹ ہوا تھا وہ آفیسرس کلب کے بالکل قریب تھا۔ اس کلب میں ہفتہ میں ایک دن خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ ہماری پڑوسن بڑی پابندی سے اس دن کلب جایا کرتی تھیں۔ ان کو پابندی سے کلب جاتے ہوئے دیکھ کر خیال آیا کہ کلب جاکر دیکھنا چاہیے کہ وہاں خواتین جمع ہو کر کرتی کیا ہیں۔ وہاں ان کے مشاغل کس قسم کے ہوتے ہیں۔ پڑوسن کو ہم نے بتا دیا کہ اس بار ان کے ساتھ ہم لوگ بھی کلب چلیں گے۔ مقررہ دن اور مقررہ وقت پر ہم تینوں (میں میری بیٹی اور بہو) برقعہ پہن کر گھر سے نکلے اور پڑوسن کو اس کی اطلاع دی۔ پہلے پڑوسن کا لڑکا گھر سے باہر آیا اور ہم کو برقعہ میں دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا۔ بڑی حیرت سے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ برقعہ پہن کر کلب جائیں گی؟ اس پر ہم نے جواب دیا کہ ہم لوگ بغیر برقعہ گھر سے باہر نکلا نہیں کرتے۔ وہ بڑی تیزی سے گھر کے اندر چلا گیا اور والدہ کو ساتھ لے کر باہر نکلا۔ وہ بھی ہم کو برقعہ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں، بڑی حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا آپ لوگ کلب جانے کے لیے برقعہ اوڑھ کر نکلی ہیں؟ ہم نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ جی ہاں! ہم لوگ کلب جانے کے لیے ہی تیار ہو کر نکلی ہیں۔ ہم بغیر برقعہ اوڑھے باہر نہیں نکلا کرتیں۔ وہ کہنے لگیں دوسری جگہ جانے کی بات اور ہے آفیسرس کلب میں برقعہ اوڑھ کر جانا مناسب نہیں ہے۔ آفیسرس کلب میں صرف آفیسرس کی بیویاں اور ان کے رشتہ دار آیا کرتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ روشن خیال ہوتے ہیں۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہم لوگ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں آپ کو ہم اپنی ڈگریاں بتائیں گی۔ وہ کہنے لگیں آج کل کون ڈگریوں کو دیکھتا ہے۔ ظاہری وضع قطع کو دیکھا جاتا ہے اور ظاہری وضع قطع سے تو آپ لوگ تعلیم یافتہ نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس پر ہم نے کہا کہ علم کی رہنمائی میں ہی ہم نے یہ وضع قطع اختیار کی ہے۔ علم نے ہم کو بتایا کہ حیا عورت کا زیور ہے۔ اس کا جسم اس کی زیبائش و آرائش نمائش کے لیے نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ وہ ہماری باتوں کو قابل توجہ نہیں سمجھ رہی ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا ہے کہ یہ خاتون پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتیں۔ مغربی تہذیب کی نقالی کرکے انہوں نے اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھ رکھا تھا۔ مرعوب ذہن جو اپنی انفرادیت کھوچکا ہو وہ دوسروں کی تہذیب اختیار کرکے فخر محسوس کرتا ہے، وہ حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے ہماری یہ پڑوسن سمجھ نہیں پارہی تھیں کہ ان جیسی ترقی یافتہ خاتون برقعہ پوشوں کو ساتھ لے کر کلب کیسے جاسکتی ہیں۔ وہ گھر کے اندر جا کر اپنے شوہر محترم کو ساتھ لے کر آئیں۔ وہ ہم کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ برقعہ اوڑھنا جہالت کی نشانی ہے اور پڑھا لکھا طبقہ برقعہ پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کلب برقعہ اوڑھ کر جانا مناسب نہیں ہے وہاں صرف بڑے لوگوں کی فیملیز آتی ہیں۔ وہ آپ کو برقعہ میں دیکھ کر کیا سوچیں گی؟ ہم نے جواب دیا ان کی سوچوں سے ہم کو کیا، وہ جو چاہے سوچیں ہم لوگ صرف اللہ کی ناراضگی کے بارے میں سوچتے ہیں، کیونکہ اسی کے سامنے ہم اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہیں۔ یہ پردہ کا حکم اللہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے۔ اے نبیؐ اپنی بیویوں سے اپنی بیٹیوں سے اور مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں، یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں (کہ عزت دار عورتیں ہیں) اور تنگ نہ کی جائیں اور اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب ۵۹)
یہ اللہ کا حکم ہمارے مسلمان کی حیثیت سے پہچان اور ہماری شناخت ہے اور ہم کو اس پر فخر ہے۔ پھر ہم نے بڑی سنجیدگی سے ان سے کہا ’’معاف کرنا آپ لوگوں کو ہم نے تکلیف دی کلب سامنے ہی تو ہے ہم خود چلے جائیں گے۔ ان کو چھوڑ کر ہم آگے بڑھ گئے۔ کلب پہنچ کر بڑی خود اعتمادی کے ساتھ ہم نے اپنا تعارف کرایا کچھ ہی دیر میں ہم ان خواتین سے ایسے گھل مل گئیں جیسے بہت پرانی سہلیاں ہوں مغرب کی نماز گھر آکر ادا کرنے کا ارادہ تھا مگر بارش کچھ ایسی شروع ہوئی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہم نے وہاں کی خواتین سے قبلہ کا رخ (غروب آفتاب کی سمت) معلوم کی تو انہوں نے از خود نماز کے لیے جگہ دی۔ ہم نے اطمینان سے نماز ادا کی اور ہماری پڑوسنیں ہم کو دیکھتی رہیں۔ اس تجربہ نے ہم کو سمجھا دیا کہ جب انسان اپنے آپ کو نظروں سےگرا دیتا ہے تب لوگ اس کو نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ ورنہ لوگوں کی کیا مجال کہ نظروں سے گرا سکیں۔
ایک لمبے عرصے کے بعد وطن جانے کا اتفاق ہوا۔ اپنوں میں جاکر اپنوں کی پہچان مشکل ہوگئی۔ وضع قطع طور طریقے رنگ ڈھنگ رہن سہن سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ سلام کے بجائے ہائے ہیلو، خیر وعافیت پوچھنے کے بجائے کلب کے دوستوں کی باتیں شروع کر دیں۔ میں ان لوگوں کی اس تبدیلی پر حیرت زدہ ہوکر رہ گئی۔ میری حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب وہ مجھ سے سوال کررہی تھیں دنیا بدل گئی تم ویسی کی ویسی ہو، یہ لمبے لمبے آستین، کفن نما کرتا، سر پر لپٹا ہوا کپڑا۔ دنیا میں رہنا ہو تو دنیا والوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ نئے زمانے کے ساتھ یہ پرانے طور طریقے نہیں چل سکتے۔ تم تو قدامت کا چلتا پھرتا اشتہار بنی ہوئی ہو، پڑھی لکھی جاہل۔ تمہارا پڑھنا لکھنا ڈگریوں پر ڈگریاں لینا سب بیکار ہے۔ خاموش کیوں ہو؟ کیا زمانے کا ساتھ دینا برا ہے؟ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں۔ دماغ میں ایک ہی شعر گونج رہا تھا
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
(اقبال)
جس کے دل ودماغ پر دنیا سوار ہو۔ دنیا کی ترقی کو زندگی کا مقصد زندگی کی معراج سمجھ رہا ہو۔ جو ہر احساس سے عاری ہو چکا ہو وہ بھلا اس بات کو کیسے سمجھ پائے گا کہ دوسروں کی تہذیب کو اپنانا اپنی تہذیب کی تذلیل ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس نے اسلام کے سوا کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہا اسے ہرگز قبول نہں کیا جائے گا وہ آخرت میں یقیناً خسارہ میں رہے گا (آل عمران) اللہ کے رسول کا ارشاد مبارک ہے جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا کل قیامت میں اس کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا (ابوداود)
اپنوں کی اس تبدیلی اور اس پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرمان نے دل کو بے چین کر دیا۔ بہت دیر تک مغربی تہذیب اس کے اختیار کرنے کے نتائج زیر بحث رہے مگر وہ کوئی بات سمجھنے تیار نہیں تھے بس اپنی ہی کہے جارہے تھے کہ دنیا میں رہنا ہو تو دنیا والوں کے طور طریقے اختیار کرنا ہی پڑے گا۔ لوگ ان ہی لوگوں کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں جو مغربی تہذیب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ تم کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم لوگ بڑی تیزی سے ترقی کے منزلیں طے کر رہے ہیں۔ سچ ہے انسان بڑا حاسد ہوتا ہے وہ لاکھ دین دار ہو مگر حسد سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتا۔ یہ مغربی تہذیب کا نشہ ہے جو انسان کے ذہن کو اس طرح مفلوج کر دیتا ہے کہ وہ دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کر پاتا ہے۔
سفر انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو یاد آکر متاع زندگی کو کھو دینے کے احساس کو تازہ کر دیتے ہیں۔ بس کا سفر تھا میں بچوں کو ساتھ لے کر سوار ہوہی رہی تھی کہ ایک برقعہ پوش خاتون بڑی حیرت سے پوچھنے لگی۔ کیا یہ اتنے سارے بچے آپ ہی کے ہیں؟ یہ عمر اور اتنے سارے بچے؟ آپ نے فیملی پلاننگ کیوں نہیں کرائی؟ اس مہنگائی کے دور میں آپ ان کی پرورش تعلیم وتربیت کیسے کر پائیں گی؟ کیا جاہلوں کی فوج تیار کرنے کا اردہ ہے؟ پتہ نہیں مسلمانوں کو کب عقل آئے گی؟ بس بغیر سوچے سمجھے بچے پیدا کیے جاتے ہیں جیسا کہ بہت بڑا کارنامہ انجام دیا جا رہا ہو، آج دنیا کس قدر ترقی کر گئی ہے۔ مسلمان وہی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں بچوں کو خدا کی رحمت سمجھ کر پیدا کرتے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو سات لے جاتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے کہ دوسرے لوگ اتنے سارے بچوں کو دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ مسلمانوں کی کیا عزت رہے گی؟ وہ بولے جا رہی تھی۔ شدت جذبات سے میری زبان بند ہوگئی تھی کہ مجھے اللہ کے رسولﷺ کا یہ ارشاد مبارک یاد آ رہا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں اپنی امت کی کثرت تعداد پر فخر کروں گا۔ دل نے سوال کیا متاع کارواں کے جانے کا ماتم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہو، دل ہی سے جواب آیا یہ ماتم نہیں خوابیدہ ذہن کو جگانا اور اس میں احساس کی چنگاری پیدا کرنا ہے۔ جب تک کھو جانے کا احساس پیدا نہ ہو اس کو حاصل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ جب کوئی خواہش انسان کے دل میں جڑ پکڑتی ہے تو اس کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں انسان اپنا پور زور لگادیتا ہے۔

 

***

 دل نے سوال کیا متاع کارواں کے جانے کا ماتم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہو، دل ہی سے جواب آیا یہ ماتم نہیں خوابیدہ ذہن کو جگانا اور اس میں احساس کی چنگاری پیدا کرنا ہے۔ جب تک کھو جانے کا احساس پیدا نہ ہو اس کو حاصل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021