اتحاد و یکجہتی اردو صحافت کا روشن ورثہ
اردو میڈیا کے فروغ میں علمائے کرام کا کردار ناقابل فراموش
ڈاکٹرعرفان وحید
اگر آپ اردو صحافت کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات محسوس کیے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ درحقیقت یہ علمائے کرام کی روشن خدمات اور بے بہا قربانیوں کی تاریخ ہے۔ ہر دور میں سچی، دیانت دارانہ، سماج کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے والی، قوم کو ایک لڑی میں پروکر متحد رکھنے والی، اعلیٰ اقدار کی حامل، تعمیری صحافت میں علمائے کرام کے حصے کو فراموش کرنا ناممکن ہے۔ وہ اردوئے معلی ہو یا اخبارِ اہل حدیث، زمیندار ہو یا زم زم، مدینہ ہو یا لسان الصدق، الہلال ہو یا البلاغ، الجمعیۃ ہو یا تیغ، مخزن ہو یا الانصاف، زندگی ہو یا دعوت، ہر دور میں صحافت کے اعلیٰ ترین معیاروں کی امتیازی علامت یہی اردو رسائل و اخبارات رہے ہیں۔ مولوی محمد باقر، مولانا ثناءاللہ امرتسری، علامہ شبلی نعمانی، مولانا عبدالسلام بستوی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ راشد الخیری، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلی مودودی، مولانا عبدالماجد دریابادی، چراغ حسن حسرت، مولانا امداد صابری، مولانا ماہرالقادری، شورش کاشمیری اور کتنے ہی ایسے علما ہیں جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے نہ صرف ملک و قوم کی بروقت رہ نمائی کی بلکہ استعماری طاقتوں سے اپنے قلم کا لوہا بھی لیا۔ انہوںنے مصلحت اندیشی سے اوپر اٹھ کر حق گوئی و بے باکی کو حرز جان بنایا۔ اس راہ میں ان پر بڑی بڑی مصیبتیں آئیں۔ تختہ دار پر لٹکایا گیا، ضمانتیں ضبط کی گئیں، قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا گیا، سچ لکھنے کی پاداش میں ان کی ذاتی املاک تک کو ضبط کیا گیا، لیکن ان بزرگوں کے پائے استقلال میں سرمو تزلزل نہیں آیا۔ حق گو صحافت کی راہ میں ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ آج جب ہم ان کی قربانیوں کی تاریخ پڑھتے ہیں تو دل لرز جاتا ہے۔
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
اردو صحافت نے ہمیشہ قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد جب کہ ایک طرف خود اردو زبان سیاسی بے اعتنائی کا شکار ہوکر اس کے حق سے محروم کردی گئی اور دوسری طرف ذاتی و سیاسی مفادات کی خاطر صحافیانہ اقدار کی بلی چڑھائی گئی، ایسے نامساعد حالات میں بھی علمائے کرام نے تعمیری صحافت سے اغماض نہیں برتا۔ اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود انہوں نے وقت کے فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اس مختصر تحریر میں ان تمام بزرگوں کی فرداً فرداً خدمات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ چند نام لینے پر اکتفا ہی کیا جاسکتا ہے ورنہ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ کئی مقالے بھی ناکافی ہوں۔ یہ بزرگ کسی مخصوص حلقے یا مکتب فکر کی نہیں بلکہ پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مولانا سید حامد علی، اصغر علی عابدی، مولانا محمد یوسف، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا ابوللیث ندوی، عامر عثمانی، انوار علی خاں سوز، محمد مسلم، مولانا سید احمد عروج قادری، ملک نصر اللہ خاں عزیز، مولانا جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمان فریدی، مولانا سلمان ندوی، ڈاکٹر محی الدین غازی وغیرہم جیسے کتنے ہی جید علما کا ایک روشن سلسلہ ہے جنہوں نے اردو صحافت کے گیسوؤں کو سنوارا، قوم کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا، جابر حکمرانوں کی برملا اور بے لاگ تنقید کی اور سب سے بڑھ کر، قوم کی سلامتی اور اتحاد کو قائم رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
بعض ایسی بھی شخصیات ہیں جو اگرچہ باقاعدہ کسی مدرسے کے فارغین نہیں، لیکن انہوں نے قوم کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں اور قلم وقف کردیے، ان کا نام لیے بغیر یہ فہرست مکمل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر محمد رفعت، سید سعادت اللہ حسینی، قاسم رسول الیاس، پرواز رحمانی وغیرہم نے اپنی تحریروں میں نظامِ حیات کا جامع تصور پیش کیا ہے۔ اسی طرح ابو محمد امام الدین رام نگری، ابو سلیم محمد عبدالحی، مائل خیرآبادی، ابوالمجاہد زاہد، حفیظ میرٹھی، طیب عثمانی، ابن فرید، عزیز بگھروی، ابرار کرتپوری، شبنم سبحانی، انتظار نعیم، تابش مہدی، رشاد عثمانی، حسنین سائر، ڈاکٹر حسن رضا وغیرہم نے اردو صحافت سے چولی دامن کا رشتہ رکھنے والے شعر و ادب کی آبیاری کی اور اس کے ذریعے ذہنی و فکری انقلاب لانے کا کام کیا۔ ان بزرگوں نے اردو صحافت کو مقصد حیات سے آشنا کیا اور صالح و معروضی اقدار سے روشناس کرایا۔
معروف مصنف و صحافی سہیل انجم کی کتاب "اردو صحافت اور علماء” ایک قابلِ قدر کاوش ہے جس میں انہوں نے درجنوں کتابوں، صحافت کی تاریخوں اور اخبارات و رسائل کی فائلوں کو کھنگال کر صحافت میں علمائے کرام کی خدمات جلیلہ سے متعلق گراں قدر مواد جمع کیا ہے۔ علمائے کرام کی صحافتی خدمات کے حوالے سے یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
یہاں اتنا عرض ہے کہ اردو صحافت کی ایک انتہائی اہم روایت جو آج بھی روشن اور جاری ہے وہ فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر قوم کو متحد رکھنا اور فرقہ واریت کا تدارک کرنا ہے۔ آج جب کہ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ حکمراں جماعت کا ہم نوا بنا ہوا ہے اور جس کا بنیادی ایجنڈا ہی ملک کے عوام میں پھوٹ ڈالنا اور اتحاد و اتفاق کی فضا کو فرقہ واریت کے زہر سے مسموم کرنا ہے، ایسے بے مہر اور نامساعد حالات میں بھی اردو صحافت نے اپنی اس اہم قدر سے پہلو تہی نہیں کی ہے۔ صداقت شعاری و انصاف، اتحاد قومی، اور ملک کے عوام کے اصل جذبات و خیالات کی ترجمانی آج بھی اردو صحافت کا نصب العین اور وصفِ امتیازی ہے۔ یہ اسی روشن ورثے کا نتیجہ ہے جو اسے اپنے بزرگ علمائے کرام سے ملا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022