اتحاد ملت کانفرنس کی قیمتی باتیں

’’امت بننے کے لیے ذاتی مفادات کو قربان کریں‘‘
’’جب تک سب لوگ امت کے مشترکہ مفادات کے لیے ایک جگہ جمع نہیں ہوتے اور اپنے ذاتی مفادات کو ملت کے مفادات پر قربان کرنے کی عادت نہیں ڈالتے اس وقت تک ہمارا ’’امت‘‘ بننا ممکن نہیں۔ میں ایک مبارک مقصد کے لیے آپ سب کے جمع ہونے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ اجلاس اتحاد ملت کے سلسلے میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ میں اپنی صحت کی وجہ سے حاضر تو نہیں ہو سکا لیکن اس وقت سب لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر دلی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی،صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ وناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
انتظار کئے بغیر عملی اقدامات کی ضرورت
’’ملک کے حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، وہ سب کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جولائی 2018 سے ہم نے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں میرے ساتھ مولانا عبدالحمید نعمانی، شاہ اجمل فاروق ندوی اور محمد عالم تھے۔ اس سلسلے میں علماء، مشائخ، دانشورں اور سیاسی افراد سے ملاقاتیں کی گئیں۔ سبھی نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اب انتظار کیے بغیر کچھ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے ایک اتحاد ملت کانفرنس کا منصوبہ بنایا گیا۔ ایک ایسا منصوبہ جس میں کانفرنس کے داعی حضرات ملت کے نمائندہ افراد ہوں، کوئی ایک ادارہ یا فرد داعی نہ ہو۔ ہمیں خوشی ہے کہ ملت کی مرکزی شخصیات نے اجلاس کا داعی بننا قبول کیا۔ الحمدللہ یہ اجلاس پوری کامیابی کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے۔ مختصر طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس اجلاس کا مقصد باہمی ملاقات، باہمی تبادلہ افکار اور باہمی اشتراکِ عمل ہے۔ ان تینوں نکات پر ایک ترتیب سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)
اتحاد ملت کی کوششیں خوش آئند
’’اتحاد کے بغیر کسی قوم کا ترقی کرنا ممکن نہیں۔لہٰذا اس سمت میں کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ ہمارے والد گرامی حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نے بھی اس سلسلے میں کوشش کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا یہ اجلاس قدیم کوششوں کا نیا ایڈیشن ہے، جو کہ بہت منظم اور بھرپور ہے۔ البتہ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ ہم جو تجاویز پاس کریں ان میں کسی نئی تنظیم کے قیام کی بات نہ ہو۔ کیونکہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘
مولانا سید محمود اسعد مدنی (صدر جمعیۃ علمائے ہند)
اتحاد کا عملی اور مستقل مظاہرہ کرنا ہو گا
’’ملک اس وقت جس خطرناک رخ پر جارہا ہے اس سے سب واقف ہیں۔ پس ماندہ طبقات شدید فکر میں مبتلا ہیں اور ان کے اندر بہت بے چینی ہے۔ ہمارے مسلم نوجوان بھی اضطراب کا شکار ہیں اور ان کے اندر غصے اور مایوسی کے ملے جلے جذبات پائے جارہے ہیں۔ اگر فوری طور پر انہیں مطمئن نہ کیا گیا تو بات بہت بگڑ سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اتحاد کا عملی اور مستقل مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس کے علاوہ کچھ ایسے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جو ملت کے تحفظ اور بقا کے لیے مضبوط بنیاد بن سکیں۔ ‘‘
مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی،جامعہ امام ربانی، نیرل
اتحاد ملت ہی نہیں اتحاد انسانیت کی بھی ضرورت
’’اتحاد ملت کے اس پروگرام میں اس وقت میں دو حیثیتوں سے حاضر ہوں۔ ایک تو دارالعلوم دیوبند کے خادم کی حیثیت سے اور دوسری جمعیۃ علمائے ہند کے خادم کی حیثیت سے۔ دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک مسلک ہے اور اس مسلک کی بنیاد پر جن بہت سے لوگوں نے اکابر دارالعلوم پر کفر کے فتوے لگائے، دارالعلوم نے ان میں سے کبھی کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ ہم ہر شخص کی طرف عزت واحترام کے ساتھ ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ لوگ ہمیں کافر بناتے ہیں لیکن ہم کسی کو کافر نہیں بناتے۔ البتہ حدود شرعیہ سے تجاوز دیکھتے ہیں تو فوراً علمی انداز سے اس پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی سمجھتے ہیں۔ جہاں تک جمعیۃ کے خادم کی حیثیت سے میری شرکت کی بات ہے تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں ہر مسلک کے آدمی کا استقبال ہے۔ سب لوگوں سے ہمارے تعلقات بھی ہیں۔ حتیٰ کہ ہم نے موہن بھاگوت (سرسنگھ چالک آر ایس ایس) سے بھی ملاقات کی۔ ہمارا خیال ہے کہ اتحاد ملت ہی نہیں اتحاد انسانیت کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
مولانا سید محمد ارشد مدنی،صدر جمعیۃ علمائے ہند
نئی نسل کا اضطراب دور کریں
’’نئی نسل شدید اضطراب اور مایوسی کا شکار ہے۔ اسے اپنے قائدین کی طرف سے اپنے مسائل کا حل نہیں مل رہا ہے۔ اگر اب بھی اس نسل کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو شدید بے زاری کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہو گا۔ اس لیے ہمیں اب رسمی کوششوں سے اوپر اٹھ کر عملی اقدامات کی طرف جانا ہو گا۔ ایسے عملی اقدامات جن سے ملت کا نقشہ تبدیل ہو سکے اور نوجوان نسل کو اطمینان نصیب ہو سکے۔‘‘
جناب نوید حامد،صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت
کچھ کرنے کا فیصلہ کرکے ہی اٹھیں
’’یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کلمہ اور ایک قبلہ رکھنے والی امت کے درمیان اختلاف اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ سلام کلام نہیں کرتے۔ شیعہ سنی کو برداشت نہیں کرتا اور سنی شیعہ کو۔ دیوبندی بریلوی کو برداشت نہیں کرتا اور بریلوی دیوبندی کو۔ غیر مسلموں کے ساتھ بیٹھنا اور ہنسنا بولنا سب کو گوارا ہے، لیکن آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں۔ یہ معمولی المیہ نہیں۔ ترقی یافتہ اور باشعور قوموں کی علامت بھی یہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں آج اس اتحاد ملت کانفرنس سے کچھ کرنے کا فیصلہ کرکے ہی اٹھنا ہو گا۔‘‘
مولانا عبیداللہ خان اعظمی (سابق ممبر راجیہ سبھا)
راہ اعتدال کو اپنانے کی ضرورت
’’ اختلاف اعتقادی ہو، خواہ فروعی، راہ اعتدال کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک کسی شخص کے کفر کا یقین نہ ہو جائے، اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ جو اختلافات عوام الناس کے فہم وادراک سے بالاتر ہوں، انہیں صرف اہل علم کے حلقے تک اور درس وتدریس تک ہی محدود رکھا جائے۔ مشتہر نہ کیا جائے۔ وہ فروعی مسائل جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے دست گریباں ہیں، اہل علم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام وخواص کو بتائیں کہ یہ مسلکی اختلاف ہے، دین کااختلاف نہیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے۔ اس لیے اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مسلک کی تنقید وتنقیص نہ کریں‘‘۔
مولانا شاہ سید آیت اللہ قادری (زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ، پ
ھلواری شریف، پٹنہ)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021