آکسفورڈ کی شریک ہندوستانی فرم کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 ویکسین ستمبر تک ممکن

نئی دہلی، اپریل 28: دنیا کی سب سے بڑی ویکسین بنانے والی کمپنی کے چیف نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ستمبر کے آخر میں ہی کورونا وائرس کے لیے ایک ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی قیمت تقریباً 1،000 ایک ہزار روپے ہوگی۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا ے چیف ادار پونہ والا نے این ڈی ٹی کو بتایا ’’ہم نے مئی کے آخر سے مینوفیکچرنگ کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اگر ستمبر یا اکتوبر تک ختم ہونے والے ٹرائلز کامیاب رہے…. تو ہمارے پاس ایسی ویکسین ہوگی جو ہم ہندوستان اور دنیا کو دے سکتے ہیں۔‘‘

پونے میں واقع سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، برطانیہ اور امریکہ میں سائنس دانوں کے ساتھ مل کر عالمی وبائی مرض کے لیے ایک ویکسین کی تیار پر کام کر رہا ہے، جس نے 30 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے اور 209،661 افراد کی زندگیاں چھین لی ہیں۔

زیادہ تر سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مارکیٹ میں دو سال یا کم از کم 18 ماہ سے قبل ویکسین کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ مختصر مدت کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر پونہ والا نے کہا کہ وہ بھی اس وقت تک طویل مدت کی ہی توقع کر رہے تھے، جب تک انھوں نے آکسفورڈ یونی ورسٹی کے سائنسدانوں سے معاہدہ نہیں کیا تھا۔

انھوں نے کہا ’’ہم نے خود کہا ہے کہ اس (ویکسین کی تیاری) 2021 تک کوڈجینکس اور دیگر امریکی شراکت داروں کے ساتھ ہوگی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ یہ ہے کہ ہم ایک ہفتہ قبل آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس نے بہت ترقی کی ہے اور جس کے تجربے انسانوں تک آ پہنچے ہیں۔‘‘

آکسفورڈ کی ویکسین کے انسانی تجربے کا عمل، جو دنیا بھر میں تیار ہونے والے 100 سے زیادہ میں سے ایک ہے، 23 اپریل کو شروع ہوا۔ سات دیگر افراد کے کلینیکل ٹرائلز بھی لیے گئے ہیں۔

لاگت کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر پونہ والا نے کہا کہ اس کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار بتانا بہت جلدی ہوگی۔ لیکن یہ ایک ہزار روپیے تک ہوگی۔

سیرم انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ نے کہا کہ انھیں آکسفورڈ ٹیم پر اعتماد ہے، جو ایبولا وائرس کی ویکسین لے کر آنے میں کامیاب رہی تھی۔ مسٹر پونہ والا نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے ملیریا کی ویکسین کے لیے بھی ان کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔

آکسفورڈ کے علاوہ ان کی فرم کا، امریکی فرم کوڈجینکس کے ساتھ بھی معاہدہ ہے، جو ان کے مطابق اس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے ایک زندہ کشیدہ وائرس استعمال کررہی ہے اور وہ اس کے ساتھ جانوروں پر تجربہ کررہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’یہ آکسفورڈ سے کچھ مہینوں پیچھے ہے۔‘‘