آغاز سخن: ماہنامہ تجلی دسمبر1954 کا ایک اداریہ
مدیر تجلّی مولانا عامر عثمانی مرحوم کے زیر نظر اداریہ سے ۱۹۵۴کے منظرنامہ کی ایک ہلکی سی جھلک آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے جس میں انہوں نے امریکہ وروس کے درمیان اعصابی جنگ کے حوالہ سے نظریہ اشتراکیت کوشکست دینے کی ضرورت ظاہر کی ہےاور اس پس منظر میں امریکہ میں فروغ اسلام کے لیے تبلیغ کی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی صحیح تصور دین کے ساتھ کسی ضعف وپستی کا شکار ہوئے بغیر پوری مضبوطی سے دعوت دین پیش کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
مولانا عامر عثمانیؒ
گزشتہ اشاعت کے اداریہ میں ہم نے اپنے امریکن کرم فرما کے خط سے کچھ اقتباسات شائع کرکے جس تبلیغی مہم کا ذکر کیا تھا شکر ہے کہ اس پر کافی توجہ دی گئی اور بہت سے خطوط ان حضرات کے موصول ہوئے جو تبلیغ کے لیے اپنی خدمات وقف کرنے پر نہ صرف تیار ہیں بلکہ کسی معتد بہ اجر دنیاوی کی خواہش کے بغیر محض آذوقہ حیات پر اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کردینا چاہتے ہیں۔ ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو فی الوقت اپنی جگہ ملازمت یا کاروبار یا کسی اور ذریعہ معاش سے وابستہ ہیں، انہیں بطور روزگار ملازمت بلیغ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہماری تحریر سے متاثر ہوکر ان کی دینی حمیت اور خلوص و غیرت نے انہیں خود سپردگی اور آمادگی پر ابھارا ہے۔ بعض ان میں سے اردو انگریزی اور عربی تینوں زبانوں سے واقف ہیں اور بعض کسی دو سے۔ بہر حال ہم نے انہیں ضروری جوابات کے ساتھ امریکن کرم فرما کا پتہ لکھ بھیجا اور جو مفید مشورے ہم اس سلسلے میں دے سکتے تھے وہ دیے۔ ہمیں افسوس ہے کہ بعض دوستوں نے باوجود ہماری ہدایت کے جوابی خط نہیں بھیجا۔ اور بعض نے اردو کی بجائے انگریزی میں خط بھیجا۔ انگریزی میں خط لکھنے سے اگر ان کا مقصود اپنے اس دعوے کا ثبوت پیش کرنا تھا کہ ہم انگریزی خوب جانتے ہیں اور امریکہ کے لیے موزوں ہے تو ہم کہیں گے کہ ثبوت پیش کرنے میں انہوں نے موقع شناسی سے کام نہیں لیا ہے۔ ہم امریکن حضرات کی طرف سے کوئی ایجنٹ یا وکیل نہیں ہیں کہ ہمیں مطمئن کرنا ضروری سمجھا جائے۔ ہمارا تو جو کچھ مدبرانہ فرض تھا اسے ہم نے اسلامی انداز میں ادا کر دیا ہے۔ اب کون شخص یا اشخاص اس کام کے اہل ثابت ہوتے ہیں یہ طے کرنا یا اس کے لیے سفارش کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ معاملہ تو براہ راست امریکن دوستوں ہی سے طے کرنے کا ہے۔
مبادا کسی کو غلط فہمی رہ جائے ہم چند ضروری امور واضح کردینا مناسب سمجھتے ہیں۔ ان کو ہم نے اپنے جوابی خطوط میں بھی اجمالاً اور اشارۃً واضح کیا ہے۔ سابقہ اداریہ لکھنے کے بعد سے تادم تحریر ہمیں امریکہ سے کوئی خط وصول نہیں ہوا ہے۔ ہم نے بہت سی ضروری تفصیلات طلب کی ہیں جن کے بغیر کسی بھی بھائی کو ہم عزم سفر کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ ممکن ہے ہم سے پتہ منگانے والے حضرات میں سے کوئی صاحب براہ راست مراسلت کرکے رخت سفر باندھ بیٹھیں۔ انہیں ہم صفائی کے ساتھ منع تو نہیں کرسکتے کیونکہ یہ خالصتاً خدمت دین کا معاملہ ہے اور اسے خالص کاروباری نقطہ نظر سے نہیں طے ہونا چاہیے۔ تاہم شیخ سعدیؒ کی بات یاد آتی ہے ؎
شب چو عقد نماز می بندم چہ خورد بامداد فرزندم
نفوس اگر اس حد تک مغلوب و مصفے ہوں جس حد تک دور سلف کے سرفروش مبلغین و معلمین کے ہوا کرتے تھے تب تو بے شک ظاہری ضمانت و اطمینان دہانیوں کے بغیر ہی امریکہ جیسے دور افتادہ اور اجنبی ملک کی دعوت تبلیغ پر بلا تامل لبیک کہا جاسکتا ہے اور اللہ کے شیدائی دو کپڑے بدن پر ڈال کر :
ہر چہ بادا باد ماکشی در آب اندر اختیم
کہتے ہوئے نکل کھڑے ہو سکتے ہیں ۔
لیکن جب نفوس آلائش دنیا سے آلودہ ہوں اور اہل و عیال اور لواحقات دنیا پر اللہ کی محبت کمال و تمام و حاوی نہ ہو تو تبلیغ و تعلیم کے لیے نکلنا اور خار زار راہوں پر گامزن ہونا بعض ضروری شرائط کے بغیر خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ غیر متوقع اور صبر آزما آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑے۔ آزمائشیں جہاں مردِ مومن کے لیے رحمت اور سعادت ہوتی ہیں وہیں عقوبت اور ہلاکت بھی بن جایا کرتی ہیں۔ نفس اگر ابتدال و حوادث کو شکر و صبر کے ساتھ برداشت نہ کرسکے تو ثواب کی جگہ الٹی گناہ کی راہ کھل جاتی ہے۔
ن الفاظ سے جو کچھ ہمارا مقصد ہے وہ آپ عملاً سمجھ گئے ہوں گے۔ مزید توضیح یہ ہے کہ کسی بھی خادم دین کو امریکہ کے لیے عزم سفر کرنے سے پہلے بہت سے متعلقہ امور کی بابت اطمینان و تشفی کرلینی چاہیے۔ امریکن کرم فرما ہمیں جو کچھ وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں وہ اگر وقتی جذبے اور ہنگامی تاثرات کے ماتحت نہیں ہے بلکہ سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ وہ بیرون امریکہ سے پہنچنے والے مبلغین کی ضروریات اور مالہ و ما علیہ کو سمجھتے ہیں اور خود کو تمام متعلقہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تب تو بے شک ان کی آواز پر لبیک کہنا بجا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو لبیک کہنا نہ صرف قائلین کے لیے فتنے کا باعث بن سکتا ہے بلکہ اس مقصد کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کے لیے یہ تمام تگ و دو کی جائے گی۔ویسے ایک بات تو یقیناً قابل لحاظ ہے کہ دنیا کے سیاسی حالات نے اس وقت امریکہ میں اسلامی تبلیغ کے لیے فضا کو بہت ہموار بنا دیا ہے۔ روس و امریکہ کی اعصابی جنگ اور برابر کی ٹکر سے کون واقف نہیں۔ دونوں ہی حریف ایک دوسرے سے خائف اور چوکنے ہیں۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگ کے لیے شب و روز تیاریاں کر رہے ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو کھا جانے کی فکر میں ہیں۔ امریکہ نے ایٹم اور ہائیڈرو جن اور دیگر الا بلا بموں اور ہتھیاروں کی تیاری کے باوجود اس حقیقت کو کسی نہ کسی حد تک سمجھ لیا ہے کہ ’’روسیت‘‘ یعنی اشتراکیت ایک آئیڈیالوجی ہے ایک ازم ہے۔ ایک فکری قوت ہے جسے محض مادی ہتھیاروں سے شکست نہیں دی جاسکتی بلکہ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قوی تر اور قابل قبول آئیڈیالوجی اور ازم کی ضرورت ہے۔ چنانچہ غور و خوص کے بعد امریکہ جس نتیجہ پر پہنچا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام اور تنہا اسلام ہی وہ مذہب ہے جو فکر و نظر اور علم و سائنس کے محاذ پر اشتراکیت کا حریف بن سکتا ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو کمیونزم سے خم ٹھوک کر لڑ سکتا ہے۔ اس نتیجہ کا شعور اگرچہ امریکہ کو ابھی اس حد تک نہیں ہوا ہے کہ اسے ایک فیصلہ کن اٹل پالیسی اور ڈپلومیسی قرار دے کر اپنے وسیع تر وسائل و ذرائع کو اس سلسلہ میں کار فرما کردے۔ نہ ابھی تک امریکن کانگریس کے اسلام نا آشنا ذہن و قلب اسلام کی حقیقی اور واقعی قوت و صلاحیت سے آگاہ ہو سکے ہیں تاہم تھوڑا بہت میلان مذہب کی طرف عموماً اور اسلام کی طرف خصوصاً پایا جا رہا ہے۔ کم سے کم وہ ضد اور عناد اور دشمنی اسلام سے نہیں ظاہر کی جارہی ہے جو ہمیشہ سے اہل کفر اور دنیا پر ست قوتوں کا خاصہ رہی ہے۔ بلکہ چھوٹے بڑے پیمانے پر کئی امریکی انجمنیں تحقیق مذاہب کی خاطر قائم ہو چکی ہیں اور بعض تو صرف اسلام ہی کی تحقیق کے لیے بنی ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں امریکہ کی فضا میں اسلامی مبلغین کے لیے سازگاری و ہمواری کی توقعات مضبوط ہوجاتی ہیں وہاں صحیح اسلامی تبلیغ کی ضرورت کے لیے اس عہد خاص کی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ اگر اس وقت امریکن ارباب حل و عقد پر اسلام کے نام سے غیر اسلامی اور نا صاف تصورات پیش کردیے گئے اور ان تصورات کو قبول کرکے انہوں نے فکر و نظر کے محاذ پر اشتراکیت سے جنگ شروع کی تو یقیناً یہ تاریخ کا ایک زبردست المیہ ہوگا اور نا صاف و آلودہ اسلام اشتراکیت کا مقابلہ نہ کرسکے گا جس کے نتیجہ میں موجودہ دنیا کی یہ بہت بڑی قوت یعنی امریکہ شاید ہمیشہ کے لیے اسلام سے بیزار اور مایوس ہوجائے گی اس کے برخلاف اگر اسلام کو صحیح طور پر پیش کرنے والے آگے بڑھ جائیں اور امریکن ارباب فکر و قوت صحیح اسلام سے روشناس ہوجائیں تو بعید نہیں کہ تاریخ کا ایک بالکل نیا باب کھل جائے اور اہل کفر ہی کے ہاتھوں اسلام کی وہ خدمات انجام پا جائیں جن کی خود اہل اسلام سے فی الحال کوئی توقع نہیں۔
بہرحال اسلامی تبلیغ کے لیے ویسے تو اس وقت امریکہ کی فضا کافی سازگا ر ہے اور مبلغین کو امریکن حکومت کی طرف سے کوئی مثبت امداد نہ بھی ملے تو کم سے کم مخالفت و مبارزت کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت مفید ہوسکتا ہے جب جذب و جنون کو عقل و فکر کی رہنمائی بھی میسر آسکے اور زور آزمائی کے لیے پیٹ میں دو روٹیاں بھی ہوں۔ اہل و عیال کی طرف سے دماغ پرسکون بھی ہو، مادی وسائل بھی ہاتھ آئیں۔
اس تمام نظر خراشی کا مطلب یہ ہے کہ عزم امریکہ کرنے والوں کو اقدام میں جلد بازی اور غیر دانشمندانہ عجلت نہیں کرنی چاہیے بلکہ امریکن کرم فرما سے تفصیلی مراسلت کے ذریعہ اور دیگر ممکنہ ذرائع سے تمام متعلقہ امور کی تحقیق و آگاہی پیشگی ضروری ہے اور اس سے زیاد ہ ضروری آہنی عزم حوصلہ، مشکلات سے لڑنے کی ہمت اور آخرت کی حرص و تمنا ہے۔ امریکہ میں قادیانی مبلغین عرصہ سے گرم کاز ہیں۔ انہیں وہاں کے ماحول و فضا سے آگاہی ہے۔ وسائل و تعلقات رکھتے ہیں نشیب و فراز سے واقف ہیں۔ کسی بھی اسلامی مبلغ کو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر انہی سے جنگ آزما ہونا پڑے گا ۔ کون جانے جنگ کن صبر آزما منزلوں سے گزرے۔ اسلامی مبلغین کو پہلے سے ہر سرد و گرم کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ شاید ہنسی اڑائی جائے گی کہ خود تو مدیر تجلی نے تبلیغ پر ابھارا، اور خود ہی مشکلات و موانع کا تذکرہ کرکے ہمیں توڑ رہا ہے تو بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ مدیر تجلی محض جذبات کا سہارا لے کر کسی معصوم و مخلص بھائی کو قعر دریا میں دھکیلنا نہیں چاہتا۔ اگر عامۃ المسلمین کے کردار و تقویٰ پر کامل بھروسہ ہو تا تب تو خادم بلا تامل مشورہ دیتا ہے کہ حالات حاضرہ کی سازگاری سے فائدہ اٹھا کر بے تکلف راہ عمل میں کود پڑو۔ لیکن اس صورت میں کہ نفوس دنیا کی آلودگی سے داغدار اورایمان و للہیت کی اعلیٰ قوت سے خالی اور علم و برداشت کے کمال سے محروم ہیں اگر بے سوچے سمجھے کوئی آگے بڑھ گیا اور ابتلا و آزمائش نے اسے جھنجھوڑا تو سوائے اس کے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوگا کہ رجعت قہقہری اور پسپائی کا مظاہرہ کرکے وہ اسلام کی مزید بدنامی اور ضعف کا باعث بنے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اہل اخلاص اسے باہمیں اپنے طور پر مشورہ کریں اور گہرے تدبر کے ساتھ تمام تفصیلات پر نظر ڈالیں۔ ہمیں اگر امریکہ سے مسئولہ تفصیلات موصول ہوئیں تو فی الفور شائع کردی جائیں گی۔ ( تجلی ۱۵نومبر۱۹۵۴)