ادب ِ اطفال کے علمبردار:مرتضیٰ ساحل تسلیمی

احتشام الحق آفاقی۔رامپور

 

ہنس مکھ، خوش مزاج، نرم طبیعت ، خوش گفتار، بڑوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ روا رکھنااور چھوٹوں پر دست شفقت رکھنا، بیگانوں سے اس طرح ملنا کہ گویا ایسا معلوم ہو جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے رفیق ملے ہوں، بظاہر بہت سادہ اور معمولی لیکن باطن سے مجمع البحرین صفات کے حامل، اصلاحی و تعمیری ادب کے علمبردار اور ادب اطفال کے اسماعیلؒ ثانی مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب کی شخصیت کچھ ایسی تھی۔ ساحل صاحب بیک وقت کئی صفات سے متصف تھے۔ لحیم شحیم قدو قامت رکھنے والے انتہائی منکسر المزاج ، ان کی منکسر المزاجی کو دیکھ کر چاند بھی شرما جائے۔ جب گفتگو کرتے تو سامع اپنی تمام تر قوت سماعت کو بروئے کار لاتے ہوئے مزید سننے کی خواہش کا اظہار کرتے۔ ان کی گفتگو سننے والا کبھی اکتانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ مرتضی ساحل تسلیمی جب تک اہل دنیا میں زندگی بسر کرتے رہے زمین والوں نے شاید ان کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔ وہ اہل دنیا سے کچھ لینے کے آرزو مند دکھائی نہیں دیے۔ بزبان غالبؔ:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
عالم فانی سے عالم بقا کی جانب منتقل ہونے کے بعد مرتضیٰ ساحل تسلیمی کے چاہنے والوں کا جس قدر ظہور ہوا وہ شہرت بہت کم شعرا و ادبا کے حصہ میں آتی ہے۔ ایسے خوش نصیب ہزاروں، لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں۔ ایسے نایاب ہیرے کے لیے برسہا برس انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تدوین ’’آئین اکبری‘‘ کے تقریظ میں غالب نے سر سید احمد خاں کو مخاطب کیا:
’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘
یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ ماہرین غالب کا خیال ہے غالبؔ کے اسی جملہ نے سر سید کو تجدید کی طرف راغب کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ مرتضیٰ ساحل نے غزل کی اشاعت کے لئے جب اپنی غزل ایک بزرگ کی خدمت میں پیش کی تو جواب آیا:
’’ ساحل صاحب ! جب اللہ نے آ پ کو شعر گوئی کی صلاحیت دی ہے تو اسے بامقصد شاعری کے لیے کام میں لائیے۔ شاعری سے آپ شہرت پاسکتے ہین لیکن میر ؔ اور غالبؔ کا مقام حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس میدان میں سخت مقابلہ آرائی ہے البتہ بچوں کے ادب میں میدان کھلا ہے جس میں صرف ایک نام ہے شفیع الدین نیر صاحب کا۔ اگر آپ بچوں کے ادب میں طبع آزمائی کریں تو جلد ہی ادب میں مقام پیدا کرلیں گے اور یہ کام آپ کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہوگا۔‘‘
مرتضیٰ ساحل کو مستقبل کا راستہ دکھانے والی کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ جماعت اسلامی کے روح رواں اور ادارہ الحسنات کے بانی و مدیر مولانا عبد الحئی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت تھی۔ اس تبصرہ کے بعد مرتضیٰ ساحل کہتے ہیں’’میں نے اپنے بزرگ کی نصیحت کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس پر خلوصِ دل سے عمل بھی کیا۔ مرتضیٰ علی خاں کی شخصیت کو بنا سنوار کر اسے مستقبل کا مرتضیٰ ساحل تسلیمی بنا دیا۔ ان کی صالح تربیت میں مولانا کا بہت اہم رول رہا۔
پیدائش، تعلیم و تربیت:
مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی پیدائش دار السرور دبستان رامپور میں ۳۰؍ جون ۱۹۵۳ء کو ہوئی۔ ان کا پیدائشی نام مرتضیٰ علی خاں تھا۔ انہوں ابتدائی تعلیم مدرسہ مصباح العلوم سے حاصل کی بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور بی ایڈ اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ گھر میں ادبی ماحول ملا۔ بزرگوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ جس کی بنا پر ان کے اندر ادبی شعور بیدار ہوا۔ انہوں نے شاعری کا آغاز ۱۹۶۹ء میں ہی کر دیا تھا۔ کثرت مطالعہ اور مشاقی نے جلد ہی انہیں باشعور شاعر بنا دیا۔
ملازمت اور ادارہ الحسنات سے وابستگی:
؎ کچھ گھنٹوں کے لیے عارضی طور پر ادارہ الحسنات میں مولانا عبدالحی صاحب ؒ کی سرپرستی میں ملازمت اختیار کی۔ جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب کی تربیت اور مٹی کو سونا بنانے میں مولانا ؒ کا بہت اہم رول رہا۔ جب مرتضیٰ صاحب ادارہ سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے ساحل کے اندر چھپی صلاحیتوں کا بار بار مشاہدہ کیا اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان کے لیے بہترین راہیں ہموار کیں۔ مولانا عبد الحئی کی صحبت میں تین سے چار ماہ ہی گزرا تھا کہ انہیں ایک ایسے آدمی کی ضرورت پڑی جو نونہالوں کی تربیت پر مشتمل رسالہ کی ادارت کر سکے۔ عبد الحئی صاحب ؒ نے مرتضیٰ ساحل تسلیمی کے اندر وہ تمام خوبیاں دیکھیں جن کی انہیں تلاش تھی۔ ’’ بچوں کا ہلال‘‘ کے مدیر اعلیٰ وسیم عبد الباری صاحب کہتے ہیں: مولانا موصوف نے رسالہ کا خاکہ تیار کیا اور تمام مشمولات یکجا کر لیے اور سرورق کے لیے نظم بھی خود لکھی۔ مولانا مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی شعری حس سے اس قدر واقف تھے کہ اپنی نظم پر اصلاح لینے کے لئے خود ساحل صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور مخلصانہ درخواست کی کہ ’’آپ شعر و شاعری سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں میری یہ ادنیٰ سی کوشش کو ملاحظہ فرمالیں اور نوک پلک درست کردیں‘‘ ماہنامہ بچوں کے ہلال کا پہلا شمارہ مولانا عبد الحئی صاحب ؒ خود ترتیب دے کر منظر عام پر لائے لیکن دوسرے شمارے میں پوری ذمہ داری مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب کے سپرد کر دی۔ رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے وہ ’’ بتول، الحسنات، نور ، ہادی ‘‘ کے بھی مدیر مقرر ہوئے اور ۱۹۹۴ ء تک شعبۂ ادارت سے وابستہ رہے۔ ۱۹۹۴ء کے بعد آپ تدریس کے پیشہ سے بھی وابستہ ہوگئے۔ لیکن ادارہ الحسنات کے ساتھ ان کی وابستگی قائم رہی اور وہ تاحیات اعزازی مدیر رہے۔ مولانا عبد الحئی ان کی ذمہ دارانہ و مدیرانہ صلاحیت کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ عبد الباری وسیم صاحب
( مدیر ، بچوں کا ہلال) کہتے ہیں:
’’مرتضیٰ صاحب ادارہ سے ایک ملازم کی حیثیت سے وابستہ نہیں تھے بلکہ وہ گھر کے ایک فرد تھے۔ وہ ہماری خوشی اور غم کے برابر کے شریک تھے۔ انہوں نے ہماری تربیت ایسی کی جیسا کہ لوگ سگے بھتیجوں کی کرتے ہیں‘‘ وسیم صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ’’مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب آفس کے لیے کبھی بھی دیر نہیں کرتے تھے۔ ان کا آنے کا وقت ہمیشہ ایک رہا لیکن جانے کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا تھا۔ وہ روز کا کام روز ختم کرنے کے بعد ہی گھر جاتے اور دوسرے دن پھر وقت پر آفس پہنچ جاتے۔ ساحل صاحب نے مجھے خود بتایا تھا کہ ایک بار کام کرتے ہوئے انہیں وقت کا احساس نہیں ہوا اور کافی رات ہو چکی تھی اور میں اپنے کاموں میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کھٹر کھٹر کی آواز آئی۔ میں نے کاموں سے دھیان ہٹا کر دیکھا تو مولانا عبد الحئی صاحب جو کافی ضعیف ہوچکے تھے اور ان کے بدن پر ریشے پڑ چکے تھے چلنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا اور ہل ہل کر چلتے تھے۔ ٹرے میں چائے لیکر آرہے ہیں اور ٹرے اس قدر ہل رہی تھی کہ اس سے کھٹر کھٹر کی آواز آرہی تھی۔ مولانا نے نہایت شفقت سے فرمایا: ساحل صاحب چائے پی لیجئے آپ کافی دیر تک کام کر رہے ہیں تاکہ تھکن دور ہو۔ جب میں نے بعد میں گھر پر معلوم کیا تو پتہ چلا وہ چائے مولانا نے میرے لئے اپنے ہاتھوں سے خود بنائی تھی‘‘
مولاناؒ کی یہ باتیں بظاہر تو بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ باتیں ساحل صاحب کے اندر تک گھر کر جاتی تھیں۔ اس لئے وہ مولانا کے ہر مشورے کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کر دیتے تھے۔
عادات و اخلاق:
کہا جاتا ہے انسان جیسا دکھتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے۔ ہر آدمی ظاہر سے کچھ دکھتا اور باطن سے کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ یہاں ہر چہرے پر ایک نہیں کئی کئی ماسک چڑھے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کا حقیقی چہرہ دھندلا سا بھی نظر نہیں آتا۔ لیکن مرتضیٰ ساحل صاحب کے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ جیسے باہر سے تھے ویسا ہی ان کا باطن بھی تھا۔ ان سے ملنے والا چند لمحوں میں ہی ان کا شیدائی ہو جاتا تھا۔ ان کی نظر میں بڑوں اور چھوٹوں کا یکساں احترام تھا۔ بڑوں سے خندہ پیشانی سے ملتے اور چھوٹوں پر دست شفقت رکھتے۔ ان کے اندر یہ خوبی تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ اکثر بچہ بن جاتے۔ آج بھی مجھے یاد ہے کہ دوپہر کی سخت چلچلاتی گرمی تھی گلی اور سڑکوں پر سناٹا پسرا پڑا تھا۔ میں آفس (ادارہ الحسنات) میں اکیلا کام کر رہا تھا کہ ’’السلام علیکم ‘‘ کی آواز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ساحل صاحب تشریف فرما ہیں۔ تعظیماً کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ کندھا تھپتھپا کر بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا۔ ان کو ہانپتے دیکھ کر میں نے عرض کیا:’’ حضرت کہیں پیدل تو تشریف نہیں لارہے ہیں۔ ‘‘ جواب آیا:’’ ارے صاحب اب پیدل اور سواری میں فرق کیا، اب تو عمر کے اس پڑاؤ پر ہوں کہ سفر و حضر ایک جیسا معلوم ہوتا ہے۔ چار قدم چلتے ہی یہ ہانپنا شروع ہو جاتا ہے۔‘‘ حال و احوال کے بعد وسیم عبدالباری صاحب ( مدیر بچوں کا ہلال) کے متعلق پوچھنے لگے۔ وسیم صاحب کہیں کام سے گئے ہوئے تھے۔ ساحل صاحب کے ساتھ میں غالباً ان کا پوتا تھا۔ انہوں اپنی جیب سے چند ٹافیاں نکالی ایک اپنے پوتے کو اور دو مجھے دینے لگے۔ میں نے ٹافی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ٹافیاں تو بچے کھاتے ہیں آپ رکھ لیں کسی اور بچے کو دے دیجئے گا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوئے ’’آپ بھی تو ہمارے لئے بچے ہی ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ ذرا بڑے بچے ہیں۔ اس میں بھی میں نے آپ کا خیال رکھا ہے، اس لئے آپ کو دو ٹافیاں دے رہا ہوں۔ ‘‘ ساحل صاحب سے یہ میری شاید تیسری یا چوتھی ملاقات تھی۔ ساحل صاحب سے میری شاید آخری ملاقات کچھ اس طرح رہی کہ میں قریب تین بجے کے آس پاس آفس پہنچا۔ وسیم عبد الباری صاحب آفس کے کام سے باہر کہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا ’’ساحل صاحب اوپر کچھ کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال رکھیے گا‘‘ جب میں اوپر پہنچا تو دیکھا ساحل صاحب اپنے کام میں منہمک ہیں۔ سلام علیک، حال واحوال دریافت کرنے کے بعد وہ اپنے کام میں دوبارہ منہمک ہوگئے۔ میں وہیں ان کے پاس بیٹھ کر انہیں کام کرتے ہوئے ٹک ٹک دیکھتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد ساحل صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’بزرگوں کے پاس بیٹھنا اور ان سے باتیں کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن جب بزرگ کام کر رہے ہوں تو انہیں تکلیف دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ آپ یہاں کام کرنے آئے ہیں جا کر اپنا کام دیکھیں اور مجھے بھی کام کرنے دیں۔ کیوں اپنا حرج اور میرا نقصان کر رہے ہیں‘‘ میں یہ سن کر اپنا سا منہ بنا کر کیبن میں چلا گیا۔ ساحل صاحب کام سے فارغ ہو کر جب جانے لگے تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا:’’ میری باتوں کا برا تو نہیں لگا، آئیے کسی دن میرے غریب خانہ پر پھر تفصیلی ملاقات ہوگی۔ میری باتوں کا برا مت مانیے گا۔‘‘ اور پھر مسکرا کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے:’’ آئیے مجھے نیچے چھوڑ دیجئے‘‘ میں بھی مسکرا کر انہیں نیچے چھوڑنے آیا اور اللہ حافظ کہا۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب جہاں اپنی تحریروں کے ذریعہ نوجوانوں اور نونہالوں کی تربیت و اصلاح فرماتے وہیں وہ مختلف عملی طریقے بھی اپناتے۔
ادبی زندگی:
ساحل صاحب نے جب لکھنے کا آغاز کیا تو وہ زمانہ اردو رسالوں کے ترقی کا زمانہ تھا۔ مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کرکے سخنور آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ لیکن انہوں نے ان راستوں کو نہیں اپنایا۔ انہوں نے اپنے لئے ایک مشکل راستہ اختیار کیا۔ اور وہ راستہ تھا اصلاحی اور اسلامی ادب کا۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اصلاح اور اسلام کو سب سے اوپر رکھا۔ جس پیمانے پر ان کی تربیت و پرورش ہوئی تھی وہ اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ انہوں نے اس سے روگردانی کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ان کے ادب میں اصلاح معاشرہ کا پیغام نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ اسلامی زندگی کی جھلک، رواداری کا پاس و لحاظ، آپسی یگانگت ان کی نمایاں خوبیوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے اس وقت رائج ادبی دائرے کو قبول کرنے سے احتراز کیا۔ اور وہ اسلام ازم کے سامنے کسی اور ازم سے نہ تو متاثر ہوئے اور نہ ہی اس کی پیروی کی۔ انہوں نے اپنے قارئین کو رومانی سیر کرانے کو برا مانا اور ان کو چند لمحوں کی خوشی فراہم کرکے ان کی آخرت کو بگاڑنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا۔ اس لئے وہ اپنے لئے اور اپنے قارئین کے لئے بھی دونوں جہان میں بھلائی کا سامان پیدا کرتے رہے اور اجر عظیم کے ملتجی رہے۔ انہوں نے اصلاح معاشرہ کی غرض سے ’’ کڑوی سچائیاں، گھر گھر کی کہانیاں‘‘ جیسی کتابیں لکھیں۔ وہ اپنی ادبی نگارشات کے متعلق لکھتے ہیں: ’’……میں اُس مدرسہ ادب کا ادنیٰ طالب علم ہوں جس کا نصاب ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے اصول و ضابطے پر تیار کیا گیا ہے۔ ادبِ اطفال ہو کہ ادبِ بالغان، نظم وغزل ہو کہ کہانی یا افسانہ۔ یہاں سے ’’بامقصد ادب‘‘ کی سند حاصل ہوتی ہے۔ یہاں سے فارغ ادیب اعلیٰ انسانی قدروں کی ترویج و اشاعت کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ تعمیری اور اصلاحی ادب پاروں سے معاشرہ کو پاکیزہ اور پر وقار بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ میرے افسانوں کا مقصدِ تخلیق بھی یہی ہے‘‘
ادب اطفال :
ادب اطفال کے متعلق ڈاکٹر ابن فرید لکھتے ہیں: ’’بچوں کے ادب کے میدان میں امکانات بہت سے ہیں کیونکہ عام طور سے لکھنے والے اس ادبی محاذ کو لائق اعتنا تصور نہیں کرتے۔ نقصان سب سے بڑا یہ ہے کہ بچوں کے ادب کو جب اہمیت ہی نہیں دی جاتی تو اس صنف کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی ادیب یا شاعر تصور نہیں کیا جاتا۔ اردو ادب کی کسی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے، اس میں بچوں کے ادیبوں، شاعروں کا کہیں کوئی ذکر نہ ملے گا۔ یہ صرفِ نظر بہت بڑا خسارہ ہے۔ ساحل صاحب نے ’’ فائدوں‘‘ کو خواہ پیش نظر رکھا ہو یا نہ رکھا ہو لیکن خسارہ کا خطرہ ضرور مول لے لیا ہے‘‘
صحیح معنوں میں مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب نے اپنے سر پر خسارہ کا بیڑا ڈال لیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کے باوجود بہت کم مدت میں جو مقبولیت اور شہرت حاصل کی ادب اطفال کے میدن میں وہ صرف چند ادباء اور شعرا کے حصے میں آئی ہے۔ انہوں نے نئی نسل کی آبیاری کے لئے ہی ادب کو فروغ دیا۔ چند سالوں میں ہی درجنوں کتابوں کے مصنف بن گئے۔ ادب اطفال کے موضوع پر بیس نثری کتابیں لکھیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں: ’’بھولا راجا (ناول) جلوس، بچھو، توبہ، نٹ کھٹ، رحمدل ہاتھی، لالچی گیڈر، سمجھدار گدھا، مددگار چوہا، ڈاکٹر بندر، شیر کا انصاف، صبح کا بھولا، گھوڑے کی دُم، پک نک، مکار لومڑی، کھوٹی اٹھنی، شام کا بھولا، نقلی سورما، نرم ٹہنی۔‘‘ جب کہ دو منظومات کا انتخاب شائع ہوا:’’ مہکتی کلیاں، پھول اور کلیاں‘‘ ۔
مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب نے پیشہ وارانہ زندگی کی شروعات ماہنامہ ’’بچوں کا ہلال‘‘ سے کی تھی۔ بچوں کے ہلال سے ان کو دلی انسیت تھی۔ ہلال ہی کیا بچوں کے تمام رسائل سے انہیں دلی شغف تھا۔ وہ اردو رسائل خصوصی طور پر بچوں کے رسائل کے فروغ کے لیے کوشاں نظر آتے تھے جس کے لئے وہ بارہا اشتہار کے ذریعہ حلقۂ قارئین کو نئی نسل کی تربیت کے لئے رسالوں کو جاری کرانے کی گزارش کرتے۔ مزید یہ کہ وہ روزآنہ کی بنیاد پر بچوں کی تربیت کے لئے رسالوں کی خریداری کے لیے پیسہ مقرر کر دیتے تھے تاکہ لوگ اس چیز کو سمجھیں کہ جہاں وہ اپنے بچے کی بہتر پرورش کے لئے ان پر دن میں سیکڑوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو انہیں بچوں کی تربیت اور اردو کے فروغ کے لئے روزانہ ایک دو روپے خرچ کیوں نہیں کرسکتے۔ بچوں کا ہلال جب نکلنا بند ہوا تو مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب بہت زیادہ مایوس نظر آئے۔ وہ ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ رسالہ دوبارہ جاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسالہ کو دوبارہ جاری کرنے کے لئے انہوں نے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔ ان کی انہی کوششوں سے الہلال کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تین شمارے شائع ہو کر منظر عام پر بھی آئے لیکن یہ سلسلہ پھر جلد ہی رک گیا۔ وسیم عبد الباری صاحب کی معاونت میں ہماری کوشش اب بھی جاری ہے کہ ادارہ الحسنات سے شائع والے تمام رسائل کو استفادہ عام کی غرض سے ڈیجیٹلائز کیا جائے اور بچوں کا ہلال کی دوبارہ اشاعت شروع ہو۔
وفات: ادب اطفال اور اصلاحی ادب کے علمبردار اردو کی اس عظیم شخصیت نے ۲۱؍ اگست ۲۰۲۰ء کے شب تقریباً گیارہ بجے جان جان آفریں کے سپرد کی۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے
٭٭٭

انہوں نے اپنی تحریروں میں اصلاح اور اسلام کو سب سے اوپر رکھا۔ جس پیمانے پر ان کی تربیت و پرورش ہوئی تھی وہ اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ انہوں نے اس سے روگردانی کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ان کے ادب میں اصلاح معاشرہ کا پیغام نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔