ذکیہ جعفری

اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر؟

نور اللہ جاوید

”جب بیسٹ بیکری میں معصوم بچے اور بے سہارا خواتین کو جلایا جارہا تھا اس وقت جدید دور کے نیرو کہیں اور دیکھ رہے تھے۔شاید یہ سوچ رہے تھے کہ گناہ کاروں کو کس طرح بچایا جاسکے“۔
یہ تبصرہ سپریم کورٹ کے جسٹس دوریسوامی راجو اورجسٹس ارجیت پاسائت کی بنچ نے گجرات فسادات کے 2سال بعد 12 اپریل 2004 میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے کیا تھا۔سپریم کے اس بنچ نے کس کی طرف اشارہ کیا تھا یہ واضح ہے۔مگر 18سال بعد وہی سپریم کورٹ نیروکے خلاف فیصلہ سنانے کے بجائے انصاف کے حصول کیلئے جدو جہد کرنے والوں پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ گجرات فسادات کے دوران گلبرگ سوسائٹی میں سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری اور اس سوسائٹی کے مقیم دیگر68افراد کو زندہ جلایا جانا محض ہنگامہ آرائی کانتیجہ تھا۔۔احسان جعفری چوں کہ سابق ممبر پارلیمنٹ تھے ان کے تعلقات اعلیٰ افسران اور سیاست دانوں سے تھے، انہوں نے کئی اعلیٰ عہدیداران کو فون کرکے مدد مانگی تھی۔اس کے باوجود کوئی بھی مدد کرنے کو نہیں آیا تھا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس واقعے کو بھیڑ کی ناراضگی کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے تبصرے کے محض ایک دن بعد ہی گجرات فسادات کے متاثرین کیلئے انصاف کے لئے جد و جہد کرنے والی تیستا سیتلواڈ اور سابق آفیسر سری کمار کو گرفتار کرلیا گیا۔بلاشبہ سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑا نہیں کیا جاسکتا ہے مگر اس فیصلے کے اثرات، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے متزلزل ہونے پر بات نہیں ہونی چاہیے۔کیا انصاف کے حصول کیلئے جدو جہد کرنا جرم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں مستقبل میں حکومت کی ناکامی کا ٹھکرا چند افسران اور یا پھر کسی واقعے کا نتیجہ قرار دے کر اقتدار پر فائز قوتیں خود کو مبرا نہیں کریں گی؟ ذکیہ جعفری کی عرضی کو خارج کرنے والی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کو سپریم کورٹ بنچ کے تبصرے پر غور نہیں کرنا چاہیے تھا کہ بنچ نے کن بنیادوں پر حکمرانوں کے کردار پر انگلی اٹھائی تھی؟۔اس کے علاوہ ہمیں اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرور ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ کی سپریم کورٹ نے وضع حمل کا حق شہریوں سے چھن لیا ہے۔اس پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سخت تبصرہ کیا اور اس فیصلے پر سوالیہ نشان لگایا۔کیا ہندوستان میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرنے اور اس پر سوالیہ نشان لگانے کا حق ملک کے شہریوں کو نہیں ملنا چاہیے۔
ایس آئی ٹی رپورٹ جس میں وزیر اعظم نریندر مودی جو 2002میں گجرات فسادات کے دوران ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے، سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران و وزرا اور دیگر سینئر لیڈروں کو بے قصور بتایا گیا ہے۔کے خلاف احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔انہوں نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی کہ۔ایس آئی ٹی نے کس طرح رپورٹ مرتب کرتے وقت کئی اہم شواہد کو نظر انداز کیا گیا۔سپریم کورٹ کی جسٹس ایم کھانولکر، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار پر مشتمل بنچ نے 25جون 2022کو ذکیہ جعفری کی عرضی کو رد کرتے ہوئے جو تبصرہ کیا ہے وہ کافی اہم ہے اور اس کے مستقبل کئی بھیانک اثرات ہوسکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا کہ گجرات فسادات کسی بڑی سازش کا نتیجہ نہیں ہے۔اس کے لئے بنچ نے کئی دلائل دیتے ہوئے کورونا بحران کو بھی نظیر بنایا ہے اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے انصاف کے حصول کیلئے جدو جہد کرنے والوں کی نیت اور اس کے کردار بھی بین السطور میں سخت تبصرہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ظاہر ہے کہ بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کیلئے ایک بڑی جیت کی حیثیت رکھتی ہے۔چناں چہ فیصلہ چند گھنٹے بعد ہی ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی کے صبر کی مثال دی اوراین جی او بالخصوص تیستا سیتلواڈ جو گزشتہ 20سالوں سے فسادات متاثر ین کے انصاف کیلئے جدو جہد کررہی ہیں کی سخت تنقید کی۔اس کے بعد ہی ممبئی سے گجرات اے ٹی ایس نے سیتلواڈ اور سری کمار کو گرفتار کرلیا گیا۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ ہے۔ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک بھر میں ایک لاکھ سے زاید فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں، تاہم ان میں سے کئی ایسے فسادات ہیں جو ہندوستان کی تاریخ کے کافی اہم ہیں۔2002میں گجرات فسادات کے بعد مختلف اخبار نویس اورسیاسی تجزیہ نگاروں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ گجرات صرف گودھرا ٹرین سانحہ کے رد عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔بلکہ اس کے پیچھے بڑی سازش کارفرما تھی۔نیوز چینل آج تک اور تہلکہ میگزین کی مشترکہ اسٹنگ آپریشن اور اس کے بعد تحقیقاتی صحافی رعنا ایوب جنہوں نے تہلکہ میگزین کے ایڈیٹر کی ہدایت پر مہینوں گجرات فسادات کا م کیا مگر بعد میں تہلکہ میگزین نے اس رپورٹ کو شائع کرنے سے انکار کردیا تھا۔رعنا ایوب نے اپنی اس رپورٹ کو ”گجرات فائلس“ کے نام سے شائع کیا۔علاوہ ازیں ایمسڈریم یونیورسٹی میں پروفیسر آف ایمرٹ جان برمن جو 1960سے ہی گجرات کا دورہ کررہے ہیں اور جواہر لال نہرویونیورسٹی کے پروفیسر گھنشیام شاہ نے اپنی مشترکہ کتاب”Gujarat, Cradle and Harbinger of Identity Politics’میں 1960کے بعد گجرات میں پیش آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے2002تک گجرات میں مختلف مرحلے میں کل29فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے مگر 1969میں ہونے والا فرقہ وارانہ فسادات اور 2002میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں کئی پہلوؤں میں اشتراک تھا۔اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ 1969اور 2002میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں دونوں میں ہجوم کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور ہجوم تانڈو مچاتی رہی مگر ریاست طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کرتی رہی۔1969میں پہلے ٹیکسٹائل فیکٹری میں مزدوروں کے ہڑتال کو فرقہ واریت کا رنگ دیا گیاچوں کہ فیکٹریوں کے مالکان کا تعلق گجراتی بنیا سے تھا اور مزدور زیادہ ترغریب مسلمان تھے۔اس ہڑتال کے بہانے گجراتی مسلم ورکنگ کلاس کو تباہ کیا گیا اور 2002میں گجرات کے مڈل طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو تہس نہں کردیا گیا۔اس کتاب میں گجرات کے ہندتو لیبارٹری بنانے کے عوامل اور اس کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ذکیہ جعفری اور دیگر سماجی کارکنان اور انصاف کے متلاشیوں کو یقین تھا کہ سپریم کورٹ گجرات فسادات پر ایس آئی ٹی کی رپورٹ از سر نوغور کرے گی۔کیوں کہ ایس آئی ٹی ایک طرف کسی سازش سے انکار کرتے ہیں اور کورٹ گجرات کے سینئر افسران سنجیو بھٹ اور سری کمار اور سابق ریاستی وزیرہرین پانڈیا کے بیانات کو سنسی خیزی اور حکومت مخالف ذہن کا نتیجہ قرار دیتی ہے مگراس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ گجرات فسادات کی شروعات کے بعد جب مرکزی حکومت نے سابق جنرل ضمیرالدین شاہ کی قیادت میں ہندوستانی افواج کا دستہ بھیجا تھا اسے تعینات کرنے میں 24گھنٹے کیوں لگ گئے۔
***

 

***

 عدالت ،گجرات کے سینئر افسران سنجیو بھٹ اور سری کمار اور سابق ریاستی وزیرہرین پانڈیا کے بیانات کو سنسی خیزی اور حکومت مخالف ذہن کا نتیجہ قرار دیتی ہے مگراس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ گجرات فسادات کی شروعات کے بعد جب مرکزی حکومت نے سابق جنرل ضمیرالدین شاہ کی قیادت میں ہندوستانی افواج کا دستہ بھیجا تھا تو اسے تعینات کرنے میں 24گھنٹے کیوں لگ گئے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022