نوجوان ‘روايتوں کا بارنہ اٹھائیں۔ نئے افکار اور نئے خيالات پیدا کریں
مسلم امّت خواتین کی تعلیم سے محرومی کی متحمل نہیں
محمد اسعد فلاحی،دلی
’حجاب تنازعہ‘ سے حکمت کے ساتھ نمٹیں۔مسائل میں الجھنے کے بجائے لائحہ عمل پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت
’المحدثات ‘کے مصنف ڈاکٹر اکرم ندوی کادورہ دلّی۔ فقہ اکیڈیمی کے سمینار اور مختلف پروگراموں میں اظہار خیا ل
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی علم کے ان شہ سواروں میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے اور اس نے انہیں علم دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔ اللہ نے انہیں حکمت اور تقفہ فی الدین سے نوازا ہے جو کہ یقیناً اللہ کے محبوب، چنندہ اور نیک بندوں کے لیے مخصوص ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی خالص رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے۔
ڈاکٹر اکرم ندوی (ولادت 1964) کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع جون پور سے ہے۔ انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت (1981) اور فضیلت (1983) کی ہے۔ پھر چند برس ندوہ میں تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد وہ UK چلے گئے تھے، جہاں طویل عرصہ تحقیقی ادارہ آکسفورڈ سنٹر آف اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر اکرم ندوی ان دنوں کیمبرج اسلامک کالج کے ڈین ہیں۔ قرآنی علوم، حدیث، اسماء الرجال، فقہ، تاریخ، سیر وسوانح اور اسلامیات کے دیگر پہلوؤں میں ان کی دو درجن سے زائد تصانیف ہیں، لیکن عالمی سطح پر ان کا تعارف علم حدیث میں خواتین کی خدمات کو نمایاں کرنے کے پہلو سے ہے۔ انہوں نے ایک عظیم منصوبے پر کام کیا ہے جس کے تحت 43 جلدوں میں تقریباً 10 ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کیا ہے، جنہوں نے حدیث کی تدریس وتحقیق اور فروغ واشاعت میں حصہ لیا ہے۔ موصوف کی یہ کاوش ’الوفاء باسماء النساء‘ کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی دہلی آمد پر آپ کے بہت سے علمی پروگرام منعقد ہوئے، جن کی مختصر روداد ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:
1۔ ایس آئی او کے طلبہ کے ساتھ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی 30؍مارچ 2022کو دہلی پہنچے۔ اسی دن شام کو بعد نماز مغرب ایس آئی کے طلبہ کے ساتھ ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا گیا۔ ابتدا میں ڈاکٹر صاحب نے طلبہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے حالات بہت سخت ہیں۔ اس وقت اسلام کے راستے پر چلنا دشوار کن ہے۔ یہ ببول کے کانٹوں پر چلنے کا راستہ ہے، يہاں بہار نہيں بلکہ خزاں سے واسطہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے بڑوں نے صداقت کو چھوڑ کر جھگڑوں کا راستہ اپنايا، دين کے اصولوں کو حب مال وحب جاہ کى چکيوں ميں پيسا گيا، ہمارے مدرسوں اور خانقاہوں ميں دانائى ترک ہوئى اور حکمت پسپا، اس کے ساتہ یہ بھى درست ہے کہ خدا کا دين عمامہ برداروں کے تابع نہيں، جو آگے بڑھے گا خدا اس کى مدد کرے گا، پس اے نوجوانو! روايتوں کا بار اپنے کندھوں پر مت اٹھاؤ، بلکہ نئے افکار اور نئے خيالات جنم دو، ميکدہ ساز بنو، ميکدہ بر دوش نہ بنو۔ آخر ميں سوالات وجوابات کا سلسلہ چلا، یہ نوجوان دين کى تڑپ رکھتے ہيں، اپنى ملت کے بہى خواہ ہيں، ليکن ڈر ہے کہ کہيں اپنى قوم کا علاج وہ نہ تجويز کرليں جو دوسرى قوموں کے لیے کار آمد ہے، اگر اوروں کو کسى تدبير سے کوئى نقصان نہ ہو تو دھوکہ ميں نہ آجائيں، کيونکہ آپ کو نقصان ہوسکتا ہے۔
پروگرام کے آخر میں طلبہ نے سوالات کیے جن کے ڈاکٹر صاحب نے تشفی بخش جوابات دیے۔
2۔ یک روزہ قومی سمینار میں شرکت
دوسرے دن 31؍اگست 2022 کو اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا میں منعقد یک روزہ بین الاقوامی سمینار بعنوان: ’’علوم شرعیہ میں خواتین کی خدمات‘‘ میں شرکت کی اور اس سمینار کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔ مولانا صفدر زبيرى نے ڈاکٹر اکرم ندوی کا تعارف کرایا اور پروگرام کى نظامت کے فرائض پروفيسر مشتاق تجاروى نے انجام دیے۔ سمینار میں ریسرچ اسکالرس نے اپنے بیش قیمتی مقالات پیش کیے۔
آخر میں ڈاکٹر اکرم ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالہ نگاروں کی ہمت افزائی کی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ: اگر ہم نے خواتین کو تعلیم سے محروم کر دیا تو ہم ایک عظیم سرمائے سے محروم ہو جائیں گے۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کتنی خواتین حضرت عائشہ ؓ بن سکتی تھیں، کتنی خواتین حضرت خدیجہؓ بن سکتی تھیں لیکن ہم نے ان کو تعلیم سے محروم کیا تو وہ سامنے نہیں آسکیں۔ بہت سے لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی کتاب المحدثات میں میں اتنی بڑی تعداد کا تذکرہ کہاں سے کیا؟ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب میں جو تعداد ذکر کی ہے، وہ بہت تھوڑی ہے، اس تعداد کے مقابلے جو حقیقت میں ہے۔ عربی، انگریزی، اردو اور فارسی وغیرہ میں جو مواد مجھے مل سکا میں نے اس کو شامل کر لیا، لیکن ہندستان کے جنوبی علاقوں کی زبانوں سے میں واقف نہیں ہوں، اسی طرح سنٹرل ایشیا کے ممالک کی علاقائی زبانیں ہیں، ان سے واقف نہیں ہوں، افریقہ کی علاقائی زبانوں سے واقف نہیں ہوں، جب ان زبانوں میں ریسرچ کیا جائے گا تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی اور محدثین خواتین کی ایک بڑی تعداد سامنے آئے گی۔
بخارى شريف سے عورتوں کے اشتغال کا حال یہ ہے کہ اس وقت تک بخارى شريف کا سب سے صحيح نسخہ ايک خاتون کا ہے، نسخہ يونينیہ جس کى طباعت کا اہتمام سلطان عبد الحميد ثانى نے قاہرہ سے کيا تھا اور جسے نسخہ سلطانیہ کہا جانے لگا وہ نسخہ ہے حافظہ کريمہ مروزیہ (متوفاة سنہ 464ھ) کا، جن سے حافظ ابو بکر خطيب بغدادى، حافظ سمعانى وغيرہ نے بخارى پڑہى، یہ نسخہ شيخ زہير ناصر کى تحقيق سے شائع ہو کر متداول ہے، اسى طرح بخارى شريف کى عورتوں کى سند سب سے اونچى ہے، عام طور سے ديوبند، ندوہ اور ديگر مدرسوں کى سند ميں امام بخارى تک بيس يا اس سے زائد واسطے ہوتے ہيں جبکہ عائشہ مقدسیہ (متوفى 814ھ) کے واسطہ سے ميرے اور امام بخارى کے درميان صرف چودہ واسطے ہيں، امام بخارى کا انتقال سنہ 256ھ ميں ہوا، اور اس وقت سنہ 1443ھ ہے، تقريبا بارہ سو سال کے عرصہ ميں صرف چودہ واسطوں کا ہونا غايت علو اسناد ہے۔
شروع سے بڑے بڑے ائمہ حديث وفقہ نے کثرت سے عورتوں سے حديثوں کى روايتيں کى ہيں۔ امام بخارى کے شيخ مسلم بن ابراہيم فراہيدى اور ابو الوليد طيالسى نے صرف ايک شہر بصرہ کى ستر عورتوں سے حديث کى روايت کى، حافظ سمعانى نے اپنى 68 شيخات کا ذکر کيا ہے اور ان کے احوال بيان کیے ہيں، ابن عساکر نے اپنى معجم الشيوخ ميں 80 شيخات کے تراجم لکھے ہيں، اور اپنى مختلف کتابوں ميں ان سے روايتيں کى ہيں، اسى طرح امام مزى، ابن تيمیہ، برزالى، ذہبى، عراقى، ابن حجر، سخاوى، سيوطى وغيرہ کى خواتين شيخات کى تعداد بہت زيادہ ہے، ابن النجار جنہوں نے خطيب بغدادى کى تاريخ پر ذيل لکھا ہے انہوں نے چھ سو مردوں اور چار سو عورتوں سے روايت کى، يعنى ان کے عہد ميں چاليس فيصد اہل علم کا تعلق خواتين سے ہے، بلکہ شايد خواتين اہل علم کى تعداد اس سے زيادہ ہو، کيونکہ عورتوں کے متعلق لوگوں کے پاس معلومات بہت کم ہوتى تھيں۔
حديث کى بہت سى کتابيں اور بہت سے اجزاء اس وقت صرف عورتوں کى روايت سے باقى ہيں، مثلاً امام طبرانى کى معجم کبير جو پچيس جلدوں ميں ہے فاطمة الجوزدانية (متوفاة 524ھ) کى روايت سے متداول ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلاسفہ ہمیشہ عورتوں کو نیچا سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ یونانی فلسفے میں دیکھیں گے کہ وہاں مرد فلسفیوں کی تعداد تو کثرت سے ملتی ہے، لیکن ایک بھی عورت فلسفی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ارسطو جیسا مفکر اور فسلفی جو انسانی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، اس نے عورتوں کے کم عقل اور نیچے ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ عورت کے دانت مردوں سے کم ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں عورتوں کے بارے میں بہت سی باتیں بغیر تحقیق کے کہی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالیؒ، جو اپنے زمانے کے محقق، مجدد اور فقیہ ہیں اور اسلامی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب (لتّبر المسبوک فی نصیحة الملوک) میں بادشاہوں کو نصیحت کی ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے عورتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے بادشاہوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں سے مشورہ مت کرو۔ اور اگر مرد نہ ہوں اور صرف عورتیں ہی ہوں اور ان سے مشورہ کرنا پڑجائے تو اس کا الٹا کرو۔ اس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے اندر جتنے مسائل اور پریشانیاں ہیں، سب عورتوں کی وجہ سے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تصنیفات پر از سر نو کام کیا جائے، ان پر نقد کیا جائے اور اس کی تصحیح کی کوشش کی جائے۔
ظہرانہ کے ساتھ پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔
3۔ ’المحدثات‘ (اردو) کی تقریبِ اجراء
31 ؍مارچ 2022 جماعت اسلامى کے مرکز ميں امير جماعت جناب سيد سعادت اللہ صاحب کى صدارت ميں اسى اردو ترجمہ کا رسم اجراء ہوا، اس پروگرام ميں مردوں اور عورتوں نے بڑى تعداد ميں شرکت کى۔
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی کتاب (الوفاء بأسماء النساء) کے مقدمہ کا خلاصہ انگريزى ميں تقريباً بيس سال پہلے شائع ہوا اور وہ کافى مقبول ہوا۔ امريکہ کى کئى خواتين نے بتايا کہ اس کتاب کى وجہ سے سيکڑوں مرتد لوگ دوبارہ اسلام ميں واپس آگئے۔ الحمد للہ، بار بار اس کى طباعت ہوتى رہى، فرانسيسى، بوزنين، انڈونيشين اور مليالم زبانوں ميں اس کے ترجمے شائع ہو چکے ہيں، اردو ترجمہ سے ہدايت پليشرز کى جانب سے شائع ہوا چاہتا ہے۔
اس پروگرام میں ڈاکٹر اکرم ندوی نے اپنے خیالات کا اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں کو جتنے مسائل درپيش ہيں ان ميں ايک اہم مسئلہ "اسلام ميں عورتوں کا مقام "ہے، اس مسئلہ کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کى سنجيدہ کوشش اب تک مفقود ہے، جب کوئى مسئلہ در پيش ہو تو اس کا حل نکالنا ضرورى ہے۔
صحابيات، تابعيات اور بعد کى صديوں ميں بہت سى عورتيں حديث وفقہ ميں ممتاز تھيں، ان کى ايک بڑى تعداد فتوے بھى ديتى تھى، لوگ ان سے حديث وفقہ وغيرہ کى تعليم ليتے تھے، کچھ خواتين اپنے حفظ سے حديثيں پڑھاتى تھيں، بہت سى حديثيں صرف عورتوں کى روايت سے محفوظ ہيں، حنفى، مالکى، شافعى، حنبلى اور دوسرے مسلکوں کے کتنے فقہى مسائل ايسے ہيں جو
تنہا عورتوں کى روايتوں پر مبنى ہيں۔ امام ابو عبد اللہ الحاکم النيشابورى لکھتے ہيں کہ اسلام کے ايک چوتھائى احکام کى بنياد عورتوں کى روايتوں پر ہے۔ دنيا ميں کوئى مذہب نہيں جس کے تشکيلى دور ميں خواتين نے یہ عظيم علمى کردار ادا کيا ہو۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ علماء کى ذمہ دارى ہے کہ جب قرآن وسنت کے کسى حکم کى تحريف ہو يا اس پر عمل يا اس کے نفاذ ميں رکاوٹ ہو تو وہ اس تحريف کا خاتمہ کريں اور قرآن وسنت کے حکم پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کى راہ ہموار کريں۔ عورتوں کے بنيادى انسانى اور اسلامى حقوق اللہ تعالى کے ديے ہوئے ہيں اور اس کے پيغمبر کے بيان کردہ ہيں، ان حقوق کے لیے جد وجہد کرنا پورى امت کى ذمہ دارى ہے۔
4۔ خواتین سے آن لائن خطاب
31 ؍مارچ 2022 کو بعد عشاء شعبہ خواتین جماعت نے ايک آن لائن خطاب بعنوان ’’علم حدیث کے ارتقا میں خواتین کی خدمات‘‘ منعقد کیا جس ميں خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ محترمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ (سکریٹری شعبہ خواتین) نے ڈاکٹر اکرم ندوی کا مختصر تعارف پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض محترمہ مبشرہ فردوس صاحبہ نے انجام دیں۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر اکرم ندوی نے کہا کہ خواتین پر میں نے برسوں تحقیق کی ہے۔ میں نے پایا کہ دورِ اول کی خواتین کے سامنے شرم وحیا اور اس جیسی دوسری چیزیں کبھی حصولِ علم کی لیے رکاوٹ نہیں بنیں۔ میرے لیے خود حیرت کی بات ہے کہ اس زمانے کی عورتوں نے اتنے کام کیسے کیے؟ مسلم معاشرے میں عورتوں کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو اس سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ گھر کا رکھ رکھاؤ، کھانا پکانا، بچوں کی پرورش و پرداخت وغیرہ۔ یہ سب کام کرتے ہوئے، جنگ میں میں بھی حصہ لیتی تھیں، سفر بھی کرتی تھیں اور اس کے باوجود وہ علم کے حاصل کرنے اور اس کی اشاعت کے لیے وقت نکالتی تھیں۔
موجودہ وقت میں ہمارا یہ معمول بن گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی مشکلات پر شکوے شکایات میں اچھا خاصہ وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ دورِ اول کی خواتین کا حال یہ تھا کہ انہیں جو مسائل درپیش تھے ان سے وقت نکال کر علمی کام انجام دیتی تھیں اور جو سہولتیں انہیں میسر تھیں ان سے فائدہ اٹھاتی تھیں۔ حضور ﷺ نے عورتوں کی ہمت افزائی کی ہے اور آپ نے عورتوں کو اس کے مواقع فراہم کیے ہیں اور خواتین نے ان مواقع کا استعمال کیا۔
مسجد نبوی امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی مرکز جماعت دلّی میں مولانا اکرم ندوی(درمیان میں) کی کتاب ’المحدثات‘ (اردو) کی رسم اجراء انجام دیتے ہوئے۔
میں مرد اور خواتین دونوں نماز کے لیے جمع ہوتے اور آپؐ کے خطاب سے مستفید ہوتے۔ بلکہ حضور ﷺ نے بعض خصوصی ایسے مواقع عطا کیے جو مردوں کو حاصل نہیں تھے۔ مثلاً خواتین کو یہ عام اجازت تھی کہ وہ آپؐ کے گھر میں کسی وقت آکر علم سیکھ سکتی تھیں، مسائل دریافت کر سکتی تھیں۔ ان مواقعوں کا یہ فائدہ ہوا کہ خواتین نے ایسی بہت سے احادیث کی روایت کی ہیں کہ اگر وہ اسے بیان نہ کرتیں تو امت ایک بڑے علم سے محروم ہوجاتی۔
پروگرام کے بعد خواتین نے سوالات کیے، جن کے ڈاکٹر صاحب نے تشفی بخش جوابات دیے۔
5۔ جماعت اسلامى کے ذمہ داروں سے تبادلہ خيال:
یکم اپریل 2022 کو شوریٰ ہال جماعت اسلامی ہند میں امیر جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی کی صدارت میں ذمہ داران جماعت کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر اکرم ندوی نے اپنى گفتگو ميں درج ذیل نکات پیش کیے :
1۔ زمانہ تيزى سے بدل رہا ہے، ملکوں کى پاليسياں تغير کى زد ميں ہيں، اس لیے ہميں روايتى حلقوں سے آزاد ہو کر سوچنا ہو گا، مولانا مودودى عليہ الرحمة نے اپنے زمانہ کى قيادت کى، علماء سے اختلاف کيا اور مستقبل کا لائحہ عمل ديا، اگر ہم اس عہد ميں مولانا کى فکر کى جزئيات پر اصرار کريں گے تو ہم وہى غلطى کريں گے جس کے خلاف وہ زندگى بھر متنبہ کرتے رہے۔
2۔ ہم جب کسى مسئلہ کا حل تلاش کريں گے تو انتخاب ہميشہ نافع وضار يا جائز اور نا جائز کے درميان نہيں ہو گا بلکہ کبھى ہمارے پاس دو اختيار ہوں گے اور دونوں ناجائز، اس صورت ميں ہميں اسے اختيار کرنا ہو گا جس کا دينى ودنيوى نقصان کم ہو، اسے فقہاء ’’اہون البليتين‘‘ کے لفظ سے تعبير کرتے ہيں۔
3۔ ہميں آنکھيں کھلى رکھنى ہوں گى کہ کچھ مسائل صرف ہميں الجھانے کے لیے اٹھائے جائيں گے، ان ميں الجھنے سے بچيں، مثلا حجاب کا مسئلہ، اسے مقامى رہنے ديں، مظاہروں سے پرہيز کريں، حجاب کا رنگ بدل ديں، ہر لڑکى الگ الگ رنگ اختيار کرے، کالا رنگ کسى فضيلت کا حامل نہيں اور اگر کسى تعليمى ادارہ ميں وقتى طور پر حجاب چھوڑنے کى نوبت آجائے تو مجبورى کے حالات اور پر امن حالات کے فرق کو سمجھيں، ليکن تعليم ہرگز نہ ترک کريں۔ کيونکہ تعليم سے محرومى کا انجام بہت بھيانک ہو گا۔
4۔ سيکولر تعليم ميں مسلمانوں کو آگے کريں، ان کى تيارى کے لیے کوچنگ سنٹر وغيرہ قائم کريں، ساتھ ہى شام کے وقت اور چھٹيوں ميں عصرى اداروں کے طلبہ وطالبات کے لیے اسلاميات اور عربى زبان کى معيارى تعليم کا انتظام کريں۔
5- دين کو ہميشہ جماعت اور مسلک کے انتساب پر مقدم رکھيں، آپ کى کوششوں سے تمام مسلمان خواہ ان کا تعلق کسى مسلک سے ہو يکساں طور پر مستفيد ہوں۔
(مضمون نگار شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے معاون ہیں)
***
***
موجودہ وقت میں ہمارا یہ معمول بن گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی مشکلات پر شکوے شکایات میں اچھا خاصہ وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ دورِ اول کی خواتین کا حال یہ تھا کہ انہیں جو مسائل درپیش تھے ان سے وقت نکال کر علمی کام انجام دیتی تھیں اور جو سہولتیں انہیں میسر تھیں ان سے فائدہ اٹھاتی تھیں۔ حضور ﷺ نے عورتوں کی ہمت افزائی کی ہے اور آپ نے عورتوں کو اس کے مواقع فراہم کیے ہیں اور خواتین نے ان مواقع کا استعمال کیا۔ مسجد نبویؐ میں مرد اور خواتین دونوں نماز کے لیے جمع ہوتے اور آپؐ کے خطاب سے مستفید ہوتے۔ بلکہ حضور ﷺ نے بعض خصوصی ایسے مواقع عطا کیے جو مردوں کو حاصل نہیں تھے۔ مثلاً خواتین کو یہ عام اجازت تھی کہ وہ آپؐ کے گھر میں کسی وقت آکر علم سیکھ سکتی تھیں، مسائل دریافت کر سکتی تھیں۔ ان مواقعوں کا یہ فائدہ ہوا کہ خواتین نے ایسی بہت سے احادیث کی روایت کی ہیں کہ اگر وہ اسے بیان نہ کرتیں تو امت ایک بڑے علم سے محروم ہوجاتی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022