’’دنیا بدل گئی ہے، سی بی آئی کو بھی بدلنا چاہیے‘‘: سپریم کورٹ نے کہا کہ ایجنسی کے مینوئل کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے

نئی دہلی، دسمبر 6: سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے مینوئل کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

عدالت ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات اور ان کے مواد کو ضبط کرنے، جانچنے اور محفوظ کرنے کے بارے میں رہنما خطوط جاری کرنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی تھی۔

جسٹس ایس کے کول نے کہا ’’دنیا بدل گئی ہے، سی بی آئی کو بھی بدلنا چاہیے۔‘‘ اس بنچ میں جسٹس اے ایس اوکا بھی شامل ہیں۔

پیر کی سماعت میں سینئر ایڈووکیٹ نتیا رام کرشنن نے، جو درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت کو بتایا کہ سی بی آئی کے دستورالعمل کو سیل بند احاطہ میں رکھا گیا ہے اور وہ قابل رسائی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ’’کوئی بھی طریقہ کار جس کا مقصد شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے کسی دفتر میں سیل بند غلاف میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سی بی آئی کا طریقہ کار کیا کہتا ہے ہم نہیں جانتے۔‘‘

رام کرشنن نے دلیل دی کہ پرائیویسی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دیگر ایجنسیاں اپنے دستورالعمل کو مسلسل اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔

اس کے جواب میں ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کہا کہ کتابچہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ اگر دستورالعمل عام طور پر قابل رسائی ہے تو اسے سیل بند لفافے میں کیوں رکھا گیا ہے۔

اس پر راجو نے جواب دیا ’’محکمہ کی طرف سے کچھ مزاحمت ہے۔‘‘

ججوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب 7 فروری کے بعد درج کیا جائے گا۔

یہ درخواست پانچ ماہرین تعلیم نے دائر کی ہے، جن میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر رام رام سوامی، ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی کی پروفیسر سجاتا پٹیل، حیدرآباد کی انگلش اینڈ فارن لینگویجز یونیورسٹی میں کلچرل اسٹڈیز کی پروفیسر مادھوا پرساد، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جدید ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر مکل کیسون اور نظریاتی ماحولیاتی ماہر معاشیات دیپک ملگھن شامل ہیں۔

درخواست گزاروں نے تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے لیے ہدایات طلب کی ہیں، بشمول الیکٹرانک آلات تک رسائی یا ضبط کرنے سے پہلے جوڈیشل مجسٹریٹ سے اجازت لینا اور یہ بتانا کہ مواد کس طرح مبینہ جرم سے متعلقہ ہے یا منسلک ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوری قبضے کی صورت میں اجازت نہ لینے کی وجوہات تحریری طور پر ڈیوائس کے مالک کو فراہم کی جائیں۔ الیکٹرانک ڈیوائس کے مالک کو پاس ورڈ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے، مثالی طور پر ہارڈ ڈرائیو کی کاپی لی جانی چاہیے نہ کہ اصل اور ہارڈ ڈسک کی جانچ ڈیوائس کے مالک کی موجودگی میں کرنی چاہیے۔

درخواست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماضی میں درج ہونے والے مبینہ جرائم میں جن لوگوں سے آلات ضبط کیے گئے ہیں ان کا تعلق علمی شعبے سے ہے یا وہ نامور مصنفین ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے ’’تعلیمی برادری اپنی تحقیق اور تحریر کو الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیم میں لکھتی اور ذخیرہ کرتی ہے اور الیکٹرانک آلات کو ضبط کرنے کی صورت میں علمی یا ادبی کام کے نقصان، تحریف یا قبل از وقت نمائش کا خطرہ کافی ہوتا ہے۔‘‘

نومبر میں مرکز نے ایک حلف نامہ میں کہا تھا کہ رازداری کا حق مطلق نہیں ہے اور اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ اس نے دلیل دی تھی کہ زیر تفتیش شخص کے ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی واپسی کے حوالے سے کوئی بھی حکم نامناسب ہوگا۔