وزیر اعظم کے ’’من کی بات‘‘ کتنی مقبول، کتنی کامیاب؟
سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی نے پروگرام کی ’مقبولیت‘ کی قلعی کھول دی
محمد ضیاء اللہ خان
سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) اور لوک نیتی کا سروے حکومت کے اس دعوے کو چیلنج کرتا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم کا ریڈیو نشریاتی پروگرام ’’من کی بات‘‘ ایک مقبول پروگرام ہے، جو عوام کے مسائل اور ان کے مطالبات کو پیش کرتا ہے اور عوام سے کامیابی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا پروگرام ’’من کی بات‘‘ ایک ماہانہ ریڈیو نشریاتی پروگرام ہے جس کا آغاز 2014 میں ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا جو آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ ساتھ مختلف ڈیجیٹل ریڈیو اسٹیشنوں اور پلیٹ فارموں سے ہر ماہ نشر کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کو شروع کرنے کا اصل مقصد عوام سے ان کے مختلف مسائل پر براہ راست خطاب کرنا تھا۔ آج حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہ پروگرام عوام میں نہایت مقبول ہے جب کہ سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز اور لوک نیتی کے سروے میں پیش کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ایک طرف اس پروگرام کی نشریات کی 100 ویں قسط مکمل ہوگئی ہے اور دوسری طرف سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی جیسی با وقار تنظیمیں اس پروگرام کی نام نہاد مقبولیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ پروگرام ’من کی بات‘ اتنا مقبول نہیں ہے جتنا کہ اس کی مقبولیت کا دعویٰ کیا جاتا ہے، حتی کہ یہ پروگرام عام طور پر گھروں میں بھی نہیں سنا جاتا۔ مشہور سیاسی مبصرین و تجزیہ نگار سنجے کمار، سہاس پلشیکر اور سندیپ شاستری کے مطابق ’’بھارتی میڈیا، رسائی، طریقہ کار، خدشات اور اثرات‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ایک رپورٹ اس پروگرام کی کچھ اور ہی حقیقت پیش کرتی ہے جس میں بھارت کی 19 مختلف ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 7463 شہریوں سے ریاست آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالا، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، اڈیشہ، پنجاب، راجستھان، تمل ناڈو، تلنگانہ، اتر پردیش اور مغربی بنگال میں انٹرویوز لیے گئے۔ اس کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ جن گھروں میں ٹی وی، انٹرنیٹ دیکھا اور ریڈیو سنا جاتا ہے، ان میں سے ہر پانچ میں سے دو خاندانوں نے بتایا کہ پچھلے ایک سال میں انہوں نے پروگرام ’من کی بات‘ کبھی نہیں سنا۔ ان کے علاوہ دیگر دس عام خاندانوں میں سے صرف تین نے کہا کہ انہوں نے یہ پروگرام صرف ایک بار سنا ہے۔
سروے کے یہ نتائج حکومت کے اس دعوے کو چیلنج کرتے ہیں کہ ’من کی بات‘ عوام کے ساتھ آج بھی جڑا ہوا ہے۔ سی ایس ڈی ایس کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے اس پروگرام کے متعلق عوامی رائے میں دس میں سے صرف ایک شہری نے دعویٰ کیا کہ اس نے پچھلے سال باقاعدگی سے یہ پروگرام سنا ہے جب کہ ہر پانچ میں سے تین لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ پروگرام نہیں سنتے اور کچھ لوگوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے بارے میں انہیں کچھ بھی معلومات نہیں ہیں۔
پروگرام کے سامعین کی تعداد؟
اسی سروے کے مطابق شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں یہ پروگرام سننے والوں کی تعداد زیادہ پائی گئی تاہم پروگرام کے مجموعی سامعین کی تعداد نسبتاً کم ہی ہے۔ البتہ دیہی علاقوں میں 18 فیصد عوام اس پروگرام کو باقاعدہ سنتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاید ’’من کی بات‘‘ اپنے سامعین تک پہنچنے میں اتنا موثر ثابت نہ ہوسکا جتنا کہ اسے شروع کرنے کا مقصد یا ارادہ تھا۔ ’’من کی بات‘‘ پروگرام کو نہ سننے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں جیسے یہ پروگرام صرف ہندی اور کچھ علاقائی زبانوں ہی میں نشر کیا جاتا ہے، حالانکہ دوسری زبانیں بولنے والی آبادیوں کے ایک بڑے حصے تک ان کی رسائی ہو سکتی تھی۔ سامعین کی تعداد کم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پروگرام صرف آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے ہی نشر کیا جاتا ہے۔ اس دور میں الکڑانک میڈیا اور انٹرنیٹ پر زیادہ انحصار کرنے والے نوجوانوں کے لیے ابلاغ کا یہ ذریعہ، ترجیحی نہیں ہوسکتا۔ اس پروگرام کو نہ سنے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس میں پیش کیا جانے والا مواد نہایت غیر دلچسپ اور عوامی امور سے خالی ہوتا ہے۔ ’’من کی بات‘‘ پیش کرنے کا اصل مقصد عوام سے رابطہ قائم کرنا، ان کے خدشات اور اندیشوں کو دور کرنا ہونا چاہیے تھا لیکن یہ پروگرام عوام کے ساتھ یکطرفہ مواصلت کے طور پر ابھر کر آیا، جسے سننے میں عوام نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
اگر اس پروگرام کے ذریعے وزیر اعظم عوام سے صرف مخاطب ہونے کے علاوہ عوام کی اپنی رائے، ان کے مشورے، شکایات اور تکلیفیں سنتے تو شاید یہ پروگرام مقبول ثابت ہوتا۔ اس کے بجائے وزیر اعظم عوامی فلاح و بہبود کے لیے مستقل کیے جانے والے کاموں کی منصوبہ بندی، پچھلے کارناموں اور کامیابیوں کی تفصیلات سنانے پر اکتفا کرتے ہیں جس کی وجہ سے پروگرام سننے والوں کی اکثریت کو اور بہت بڑے طبقے کو اس پروگرام سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے من کی بات کو وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے ایجنڈے اور نظریات کو فروغ دینے کے لیے تشکیل دیا جانے والا پلیٹ فارم قرار دیا، اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکمراں جماعت اور اس کی پالیسیوں کو پیش کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔ شاید یہ الزام عوام کی مکمل نمائندگی نہ کرتا ہو لیکن بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی سے تعلق یا جھکاو رکھنے والے اور ان کی پالیسیوں کی تائید کرنے والے عوام میں سے نصف سے زیادہ لوگ، یہ پروگرام خود نہیں سنتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پروگرام کو سننے والوں کی اکثریت کا تعلق بی جے پی سے ہوتا ہے۔ اس سروے میں ایک اور حقیقت سامنے آئی ہے کہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے افراد میں سے 51 فیصد لوگوں نے من کی بات پروگرام آج تک نہیں سنا۔ البتہ بی جے پی کے حامی افراد میں سے 7 فیصد افراد پابندی سے یہ پروگرام سنتے ہیں اور اتنی ہی تعداد نے کبھی کبھی یہ پروگرام سنا لیکن پابندی سے نہیں۔ اس اعتبار سے پابندی سے اس پروگرام کو سننے والوں کی 58 فیصد آبادی کا جھکاو یا تعلق بی جے پی سے ہوتا ہے۔ مشہور بالی ووڈ ایکٹر عامر خان نے بھی اس پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے عام لوگوں کو اس پروگرام کو سننے کا مشورہ دیا ہے۔ یقینا اس ایکٹر کا عوام کو دیا جانے والا یہ مشورہ سیاسی محرکات اور دباو کے پس پردہ ہی ہوسکتا ہے۔
حاصل کلام :
CSDS اور لوک نیتی کا سروے، حکومت کے اس دعوے کو چیلنج کرتا ہے کہ من کی بات پروگرام ایک مقبول عوامی پروگرام کی سمت کامیابی کے ساتھ گامزن ہے، اسی پروگرام کے ذریعے حکومت اور عوام کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس پروگرام کے سامعین کی تعداد انتہائی محدود ہے اور عوام تک رسائی کی کوشش اتنی پراثر نہیں ہو سکی جتنا کہ اس پروگرام کے شروع کرنے کا حکومت کا مقصد اور منشاء تھا۔ واقعتا اگر حکومت اپنے ارادوں، پالیسیوں اور لائحہ عمل کو عوام تک پہنچانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ اس پروگرام کی پیش کشی کا ازسر نو جائزہ لے اور چند کارآمد انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ اسے دلچسپ بنانے کی کوشش کرے۔ (ترجمہ: سلیم الہندی، حیدرآباد )
(مضمون نگار انفارمیشن ٹکنالوجی کمپنی میں سینئر کانٹینٹ رائٹر اور ڈیجیٹل مارکٹنگ کمپنی کے سربراہ ہیں)
***
***
ایک طرف اس پروگرام کی نشریات کی 100 ویں قسط مکمل ہوگئی ہے اور دوسری طرف سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی جیسی با وقار تنظیمیں اس پروگرام کی نام نہاد مقبولیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ پروگرام ’من کی بات‘ اتنا مقبول نہیں ہے جتنا کہ اس کی مقبولیت کا دعویٰ کیا جاتا ہے، حتی کہ یہ پروگرام عام طور پر گھروں میں بھی نہیں سنا جاتا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023