انتخابی نتائج بہت کچھ بدل کر رکھ دیتے ہیں

کرن رجیجو: اڈانی کے مرگھٹ پر بلی کا بکرا!

ڈاکٹر سلیم خان

ہنڈن برگ رپورٹ سراسر غلط تھی یا معاملہ کچھ اور تھا؟
‘سیبی’ جیسے سرکاری ادارے کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ قابل غور ہے
کرناٹک میں شکست کے بعد مودی سرکار کی عقل کسی قدر ٹھکانے آئی تو سب سے پہلے کشتی ایسوسی ایشن کے سربراہ برج بھوشن سنگھ کی چھٹی کر دی گئی حالانکہ اس کو ہنوز جیل نہیں بھیجا گیا مگر یہ علامتی اقدام بھی احتجاج کرنے والی خواتین پہلوانوں کی ایک جزوی فتح ہے۔ کرناٹک میں جب وزیر اعلیٰ کی کرسی کا تنازع سلجھا اور حلف برداری کی تیاری شروع ہوئی تو سرکار کو احساس ہوا کہ اب سپریم کورٹ کے چیٖف جسٹس سے دشمنی مہنگی پڑے گی کیونکہ آئندہ سال اپریل میں مودی جی کی کرسی چلی بھی گئی تو ڈی وائی چندر چوڑ کو کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ مودی جی کے اقتدار سے ہٹتے ہی وہ شیر ہو جائیں گے اور پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی ہتک کا انتقام لینے کے لیے کوئی بھ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، اس لیے پیش بندی کے طور پر کرن رجیجو کی بلی دے کر عدلیہ کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی گئی۔ سابق وزیر قانون کرن رجیجو کی برخواستگی کے اگلے ہی دن اڈانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والی جزوی کلین چٹ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان کوئی سودے بازی ہوئی ہے ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ اڈانی-ہنڈن برگ معاملہ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل شدہ ماہرین کی کمیٹی کو 173 صفحات پر مشتمل سیبی کی تحقیقاتی رپورٹ میں اڈانی گروپ کی کوئی کوتاہی نظر ہی نہیں آئی؟ لیکن جب اقتدار عدلیہ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے لگے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
اڈانی معاملے کو سمجھنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی فطرت کو سمجھنا ہو گا کہ اس استحصالی نظریہ کا نصب العین صرف منافع خوری ہے۔ اپنے مقصدِ حقیقی کے حصول کی خاطر یہ کسی حرام و حلال اور جائزو ناجائز طریقہ کار میں تفریق کا قائل نہیں۔ اس کے اندر جب سیاسی عزائم جنم لیتے ہیں تو وہ دولت کے بل بوتے پرظلم و سفاکی کے ذریعہ عام لوگوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ تجارت کی غرض سے ہندوستان آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی اس کی ایک مثال ہے جس نے پورے ملک کو غلام بنا کر برطانوی سامراج کے حوالے کر دیا۔ بہت سارے لوگ اسے اگلے وقتوں کی بات کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں مگر آج بھی مختلف انداز میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کی مشہور صحافی نومی کلین نے عراق سے اپنی زمینی رپورٹنگ میں یہ پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح حملے کے صدمے کو غیر ملکی کارپوریشنز کے مفاد میں استعمال کیا گیا۔ جنگ کے ذریعہ کسی ملک کو تباہ کرنے کے بعد تعمیر نو کے نام پر ہونے والے معاشی استحصال کو انہوں نے "آفت سرمایہ داری” کے لقب سے نوازا ہے۔ یہ معاملہ صرف جنگ وجدال تک محدود نہیں ہے۔ سونامی اور کترینہ سیلاب جیسی آسمانی آفات کے بعد سری لنکا اور نیو اورلینز میں بھی یہی کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ استحصالی ذہنیت اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتی۔ کسی قدرتی آفت سے لوگ ایشیا میں تباہی سے دوچار ہوں یا امریکہ میں یہ دونوں سے بلا تفریق فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ کورونا کی وبا اس کی بدترین مثال ہے کہ جس میں ایک طرف تو عام آدمی دانے دانے کا محتاج ہوگیا اور دوسری جانب دولتمند لوگوں کے وارے نیارے ہوگئے۔
عوام کو سرمایہ دارانہ استحصال سے محفوظ رکھنے کی خاطر حکومت کو اس پر کڑی نگاہ رکھنی پڑتی اور بوقتِ ضرورت لگام بھی کسنی ہوتی ہے لیکن کرونی کیپٹلزم میں صورتحال بدل جاتی ہے۔ کرونی کے معنی یارِ غار یا لنگوٹی یار کے ہوتے ہیں۔ اس میں سرمایہ دار اور اقتدار ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت کرکے عوام کا استحصال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک روشن ترین مثال اڈانی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ اس کے رشتے جگ ظاہر ہیں۔ ملک کی عدلیہ نے بھی چونکہ اقتدار کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے اس لیے وہ بھی اڈانی جیسے سرمایہ داروں کا ہمنوا بنا ہے۔ ایسے میں سیبی جیسے سرکاری اداروں کی کیا مجال کے ان کے خلاف کوئی رپورٹ لکھیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے منوہر سپرے کی صدارت میں تشکیل شدہ کمیٹی نے اسٹاک مارکیٹ پر ہنڈن برگ رپورٹ کے اثرات کا جائزہ لیا۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ کے کام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ کمیٹی کے مطابق ہنڈن برگ رپورٹ کا اسٹاک مارکیٹ پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ پورے اسٹاک مارکیٹ سے متعلق تو تھی ہی نہیں۔ اس لیے اس پر اثرات کا جائزہ ہی بے معنی مشق ہے۔ اس تبصرے پر ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی کہاوت صادق آتی ہے۔
ہنڈن برگ کی رپورٹ اڈانی حصص کے بارے میں تھی۔ اس رپورٹ نے مذکورہ گروپ کے مالی حیثیت کو دنیا میں تین سے تینتیس نمبر پہنچا دیا۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ کوئی خاص اثر نہیں تھا تو اسے ہٹ دھرمی کے سوا کیا کہا جائے؟ رپورٹ میں اڈانی گروپ کے اندر بہتری کا ذکر ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہوتا تو دنیا بھر کے سرمایہ داروں کی فہرست میں وہ دوسرے یا پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہوتا لیکن ایسا تو نہیں ہوا۔ اس لیے یہ سراسر کذب بیانی ہے۔ سرکار کی خوشنودی کے لیے اس طرح کا نامعقول بیان سپریم کورٹ کی رپورٹ سمیت کوئی بھی دے سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ مذکورہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اڈانی گروپ نے سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کے لیے فوری طور پر کئی اقدامات کیے اور اس کا اثر بھی ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ پہلے اگر کوئی خاطر خواہ اثر ہوا ہی نہ ہو تو اس کو زائل کرنے کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ اسے نظر انداز کردیا جاتا۔ ہنڈن برگ رپورٹ کے سبب اڈانی گروپ کو اپنے 20,000 کروڑ روپے کے ایف پی او یعنی فالو اپ پبلک آفر کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ گوتم اڈانی نے اعلان کیا تھا کہ کمپنی نے اسٹاک مارکیٹ میں زبردست ہلچل اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے پیش نظر سرمایہ کاروں کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ایف پی او سے وصول کی گئی رقم سرمایہ کاروں کو واپس کرکے اس سے متعلق لین دین بند کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی کمیٹی نے تسلیم کیا کہ سیبی کی تحقیقات جاری ہیں اور اس نے مزید وقت مانگا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ حتمی رپورٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اب تک کی تحقیقات میں اڈانی گروپ کے خلاف کوئی کیس بنتا نظر نہیں آ رہا ہے؟ کہیں یہ آگے چل کر کسی ناانصافی کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ماحول سازی کی ناپاک کوشش تو نہیں ہے؟ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آگے بھی اگر یہی سرکار رہے اور اڈانی گروپ کے سر پر اس کا آشیرواد موجود ہو تو سیبی کی مجال نہیں کہ وہ اڈانی کی بدعنوانی پر انگشت نمائی کرسکے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ کی کمیٹی میں بھی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ کسی ناقص رپورٹ کو کمیٹی کے منہ پر دے مارے۔ اس قضیہ کا سب سے تشویشناک پہلو اڈانی سے منسلک 13 غیر ملکی اداروں کا ہے جو مشکوک انداز میں اس کی ڈوبتی ناو کو پار لگا دیتے ہیں۔ فی الحال یہ کہا جارہا ہے کہ ان بے نامی کمپنیوں کی معلومات ہنوز موصول نہیں ہوئی ہیں۔ یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ 2018 کے اندر قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے سیبی کو بیرون ملک سے معلومات اکٹھا کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی حکومت نے آئین میں تبدیلی کرکے بدعنوان لوگوں کو پکڑنے کا کام آسان بنانے کے بجائے مشکل کیوں بنا دیا؟ کیا یہ حرکت نادانستہ طور پر ہوگئی یا اڈانی جیسے خیر خواہان کو بچانے کے لیے جان بوجھ کر کی گئی؟ یہ کون سی دیش بھکتی ہے کہ جس میں ملک لوٹنے والے سرمایہ داروں کی آسانی کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے؟ عصر حاضر میں ملٹن فریڈمین نے آزاد منڈی کے معاشی انقلاب کا جو نہایت مقبول فلسفہ پیش کیا تھا نومی کلین نامی امریکی صحافی نے معاشی "شاک ٹریٹمنٹ” یا اقتصادی جھٹکے کا نظریہ پیش کر کے اس کی تائید کی ہے۔ وطن عزیز میں اڈانی کے حوالے سے ان جھٹکوں کو محسوس کیا جا رہا ہے اور حکومتِ وقت سرمایہ داروں کو تحفظ و تعاون فراہم کر رہی ہے۔
عالمی معیشت کے تناظر میں یہ کوئی غیر متوقع صورتحال نہیں ہے۔ سن 2004 میں جان پرکنز کی ایک نیم سوانحی کتاب Confessions of an Economic Hit Man کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب پرکنز کے انجینئرنگ کنسلٹنگ فرم Chas کے اندر اپنی ملازمت کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ پرکنز کا دعویٰ ہے کہ NSA نے بوسٹن میں ٹی مین نامی فرم کے ذریعے ان کی خدمات حاصل کرنے کا اہتمام کیا تھا اور ایک پراسرار کاروباری خاتون کلاڈائن کے ذریعہ ورغلا کر انہیں ایک "معاشی ہٹ مین” بنانے کی تربیت دی تھی۔ اکنامک ہٹ مین (EHMs) دنیا بھر کے ممالک کو کھربوں ڈالر کا دھوکا دینے کی خاطر بہت زیادہ معاوضہ لینے والے پیشہ ورلوگ ہوتے ہیں۔ وہ ورلڈ بینک، یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (USAID) اور دیگر غیر ملکی "امدادی” تنظیموں کی رقومات سے کرہ ارض کے قدرتی وسائل کو کنٹرول کرنے والے بڑے بڑے تجارتی اداروں اور چند امیر خاندانوں کی جیب بھرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر وہ جعلی مالیاتی رپورٹوں، دھاندلی زدہ انتخابات، ادائیگیاں، بھتہ خوری، جنسی تعلقات اور قتل و غارتگری کا سہارا لیتے ہیں۔ اقتدار کے پرانے کھیل نے عالمگیریت کے اس دور میں نئی اور خوفناک جہتیں اختیار کرلی ہیں۔ اڈانی بھی مودی کے اکنامک ہٹ مین ہیں ان کی مدد سے مودی سرکار ملک کے اندر وہی سب کرتی ہے جو امریکہ بہادر اپنی کمپنیوں کے ذریعہ دنیا بھر میں کرتا ہے۔ اس ہدف کی خاطر مذکورہ بالا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور سیبی کی رپورٹ اسی کا حصہ ہے۔
جان پرکنز لکھتے ہیں کہ چاس ٹی مین میں ان کا بنیادی کردار پسماندہ ممالک کے رہنماؤں کو بڑے تعمیراتی اور انجینئرنگ منصوبوں کے لیے خاطر خواہ ترقیاتی قرضے قبول کرنے پر راضی کر کے امریکی کنٹرول کے نظام میں پھنسانا تھا۔ یعنی غریب ممالک کے رہنماؤں کو قرض کے جال میں پھانس کر امریکی کمپنیوں سے معاہدہ کروانا، اس کے توسط سے امریکی سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا اور امریکی کمپنیوں کے لیے قدرتی وسائل تک رسائی فراہم کرنا تھا۔ اڈانی کے لیے موجودہ سرکار وسائل و تحفظ دونوں فراہم کرکے اپنا اقتدار مستحکم کر رہی ہے۔ یہ کتاب امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ عالمی بنک کے پیش کردہ اس تصور کی بیخ کنی کرتی ہے کہ "تمام اقتصادی ترقی سے بنی نوع انسان کو فائدہ ہوتا ہے، اور یہ کہ جتنی زیادہ ترقی ہوگی، اتنے ہی زیادہ وسیع فوائد ہوں گے” پرکنز کے مطابق بیشتر معاملات میں ایک بڑی آبادی کے مفادات کی قیمت پر چند لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت بڑے امریکی ادارے سستی مزدوری کا استحصال کرتے ہیں، اور تیل کمپنیاں مقامی ماحول کو تباہ و برباد کردیتی ہیں۔ یہی کام ملک میں اڈانی و امبانی کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں بھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر عوام شدید معاشی تفاوت کا شکار ہیں۔ عالمی غربت اور معاشی ناانصافی کا مطالعہ کرنے والی معروف تنظیم آکسفیم کی امسال جنوری میں شائع ہونے والی رپورتاژ اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ امریکہ بہادر جو کھیل دنیا بھر میں غیروں کے ساتھ کھیلتا ہے وہی سب مودی سرکار اپنے شہریوں کے ساتھ کر رہی ہے اس لیے ملک میں امیر و غریب کے درمیان کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ بنام ’سروائیول آف دی ریچسٹ: دی انڈیا اسٹوری‘ کے مطابق 2020 میں ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد 102 تھی جو سال 2022 میں 166 ہو گئی۔ہندوستان کے 100 امیر ترین لوگوں کی دولت تقریباً 54 لاکھ 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ کورونا کی وباء کے دوران بڑے تاجروں نے خوب دولت بڑھائی۔اس معاشی عدم مساوات کی ایک وجہ ٹیکس کے نظام میں وہ خامی ہے جس کے سبب امیروں کے مقابلے میں غریب زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پچھلے سال غذائی اور غیر غذائی اشیا سے 64.3 فی صد ٹیکس غریب اور متوسط طبقے کے ذریعہ جمع کیا گیا۔ بھارت میں انکم ٹیکس کی شرح تو آمدنی پر مبنی ہے مگر بالواسطہ ٹیکس تمام افراد کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (ویاٹ) کے تحت غریبوں کو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی شکل میں دینا پڑتا ہے جو عدم مساوات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ پانچ کلو اناج تقسیم کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے چھوٹی چھوٹی اشیا مثلاً ماچس، موم بتی، دودھ، بسکٹ وغیرہ پر ٹیکس بڑھا دیا حتی کہ روٹی کو تک نہیں بخشا اور اس پر بھی 18 فی صد ٹیکس عائد کردیا۔ آکسفیم کے مطابق 64 فیصد جی ایس ٹی ملک کے 50 فیصد غریب لوگ ادا کر رہے ہیں جبکہ ارب پتیوں کے خزانے سے صرف 10 فیصد جی ایس ٹی آتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق غریبوں کو امیروں کے مقابلے میں چھ فی صد زیادہ بالواسطہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے امیروں پر مہربانی کر کے سال 2020-21 میں ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کی ٹیکس چھوٹ دے دی۔ ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کو ملنے والی یہ ٹیکس چھوٹ منریگا کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ گوتم اڈانی نے سال 2017 سے سال 2021 تک کمائے گئے ناقابل یقین منافع پر ایک دفعہ ٹیکس لگایا گیا ہوتا تو پورے ملک کے پرائمری اسکولوں کی تعلیم ملک میں تقریباً 50 لاکھ اساتذہ کو ایک سال کی تنخواہ دی جا سکتی تھی لیکن یہ حکومت تو چاہتی ہے کہ غریب بچے تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کے پاس روزگار مانگنے کے لیے نہ آئیں چاہے انہیں پچھلے سال کے 9,140 بے روزگاروں کی مانند خود کشی کیوں نہ کرنی پڑے ۔
عدالتِ عظمیٰ کی رپورٹ میں موجودہ بحران کے لیے کئی سال محنت کرکے اڈانی کی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے ادارے ہنڈن برگ کو ہی الٹا قصور وار ٹھہرا کر اڈانی کو بالکل پاک صاف بتایا گیا ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں سیبی کو اڈانی کی طرف سے کوئی گڑبڑی نہیں دکھائی دی اور نہ یہ پایا گیا کہ حصص کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے مصنوعی تجارت یا کوئی اور بددیانتی کا سہارا لیا گیا۔رپورٹ کہتی ہے کہ اس کے باوجود ہنڈن برگ جیسی کچھ تنظیموں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے شارٹ پوزیشن لی اور بعد میں منافع کمایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسٹاک مارکیٹ کے موجودہ ریگولیٹری نظام میں کوئی جھول نہیں ہے تو وہ لوگ اس کا فائدہ اٹھانے میں کیوں کر کامیاب ہوگئے؟ رپورٹ کہتی ہے کہ سیبی کو حاصل بے شمار اختیارات کے باوجود اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔یعنی سیبی جیسے صحتمند ادارے کو بھی دوا دارو درکار ہے۔ کرن رجیجو جیسے ناکارہ اور بدزبان وزیر کی قربانی کے عوض مودی سرکار کا عدالتِ عظمیٰ سے اڈانی کو چھڑا لینا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار گاندھی جی کو چتور بنیا کہا تھا حالانکہ ان کی اس چتورائی (مکاری) کے آگے چانکیہ بھی فیل ہے۔ اس لیے اڈانی کے مرگھٹ پر کرن رجیجو کی بلی چڑھانے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023