اداریہ

تبدیلی مذہب اور تبلیغ مذہب آئینی حق

بامبے ہائی کورٹ کی گوا بنچ کے ذریعے 20 مئی کو دیے گئے ایک فیصلے کو نہایت اہم، بروقت اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بامبے ہائی کورٹ نے تبلیغ مذہب کے متعلق دور رس نتائج کا حامل ایک اہم فیصلہ سنایا جس کے تحت ایک عیسائی جوڑے کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مذہبی تبلیغ کے اجتماع پر شمالی گوا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے عائد پابندی کو منسوخ کر دیا گیا۔ جسٹس مہیش سوناک اور والمیکی مینیزیس پر مشتمل بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ضابط فوجداری کی دفعات کے ذریعے کسی فرد کو اپنی نجی جائیداد پر مذہبی سرگرمیوں کی انجام دہی سے روکنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گوا کے ایک عیسائی جوڑے کو ضابط فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت مذہبی اجتماع کے انعقاد سے روک دیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اس اجتماع کے ذریعے زبردستی لوگوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔ ڈی سوزا نامی خاتون نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے عائد کردہ امتناع کے خلاف عدالت میں اپیل کی۔ انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ وہ اور ان کے شوہر پچھلے 23 برسوں سے اپنے اس ادارے میں مذہبی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے آئین کی دفعہ 25 (ضمیر کی آزادی اور کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی کا حق) اور دفعہ 26 (مذہبی اور فلاحی مقاصد کے تحت اداروں کے قیام اور انصرام کا حق) کے تحت اپنے مذہب و عقائد کی تبلیغ کے لیے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ چنانچہ جمعہ کے روز دیے گئے فیصلے میں عدالت نے اپیل کنندہ کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے امتناع کے سرکاری حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین نے ہر شہری کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آزادی سے کسی بھی مذہب کو قبول کرسکتے ہیں، اس پر عمل کر سکتے ہیں اور اس کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں، حکومت کو یا کسی اور کو اس سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
جب کہ موجودہ حکمرانوں کی عین خواہش اور ارادہ ہے کہ ملک میں ہر قسم کی مذہبی آزادی ختم ہوجائے۔ لوگ نہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے مذہب کو قبول کریں اور نہ کسی کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی سے استفادہ کرنے دیا جائے۔ مختلف ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر امتناع کے قوانین بھی اسی کی ایک شکل ہے، اگرچہ جبراً یا لالچ کے ذریعے کسی فرد کا مذہب تبدیل کروانا غلط ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والے کسی بھی شخص کے متعلق یہ سمجھ لینا کہ اس نے کسی کے دباو میں یا لالچ میں اپنا مذہب تبدیل کیا ہے، شرف انسانیت کی تذلیل ہے۔
انسان اس کائنات کی ایک ذی شعور مخلوق ہے۔ قدرت نے اسے سوچنے، سمجھنے غور وفکر کرنے اور رد و قبول کی آزادی اور صلاحیتیں بخشی ہیں۔ وہ مختلف چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے اور ان سے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ اپنے غور وفکر اور فہم کے مطابق وہ مختلف نظریات، افکار اور آرا کو قبول و مسترد کرتا رہتا ہے۔ صحیح رائے تک پہنچنے کے لیے وہ مختلف لوگوں سے الگ الگ خیالات کو سنتا بھی ہے اور ان سے تبادلہ خیالات بھی کرتا ہے۔ پھر جس رائے اور فکر کو وہ صحیح سمجھتا ہے اسے دوسروں کے سامنے پیش بھی کرتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس پر غور وفکر کریں اور درست سمجھیں تو اسے تسلیم کریں۔ مختلف امور کے سلسلے میں یہی ایک معقول اور علمی رویہ ہے جسے دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی رویے کے سبب انسان نے علم و تحقیق کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اس معاملے میں نہ تو کسی کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ زبردستی اپنی رائے کسی دوسرے پر مسلط کرے اور نہ ہی کسی کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ کسی کو اپنی مرضی سے کسی رائے کو قبول کرنے سے روکے۔ دنیا کے مختلف معاملات کے متعلق جب یہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر مذہب کے معاملے میں اس علمی اور سائنٹفک رویے کو کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہب کے متعلق بھی کھلے ذہن و دل کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ماحول پروان چڑھنا چاہیے۔ لوگ دلائل کی بنیاد پر بحث و گفتگو کریں، ایک دوسرے کے دلائل پر غور و فکر کریں اور جس کو جو مذہب و عقیدہ درست لگے اسے اس بات کی پوری آزادی حاصل ہو کہ وہ اس مذہب کو قبول کرلے۔ چنانچہ بھارت کے آئین کی مختلف دفعات میں اسی سائنٹفک رویے کو شامل رکھا گیا ہے۔ اس آزادی پر پابندی عائد کرنا انتہائی غیر سائنٹفک رویہ ہے بلکہ عقل و شعور رکھنے والے انسانوں کی تذلیل ہے۔ عوام میں اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
بامبے ہائی کورٹ کی گوا بنچ کے اس فیصلے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومتوں اور انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے غیر آئینی اقدامات کے خلاف عوام میں شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ پوری شدت کے ساتھ قانونی لڑائی بھی لڑنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کو غیر آئینی اقدامات اور فیصلوں سے باز رکھا جا سکے۔ قانون کا بروقت اور درست استعمال ہر شہری کا ایک اہم جمہوری ہتھیار ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ووٹ کا استعمال ہے۔ اس فیصلے نے بتا دیا کہ حکومت، انتظامیہ اور پولیس وغیرہ کی شرارتوں کے نتیجے میں ذہنی توازن کھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پر امن اور تعمیری ذرائع کا استعمال آج بھی کتنا کارگر ثابت ہو رہا ہے۔