
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے جہاں معصوم فلسطینیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے، وہیں عالمی سطح پر امن اور انصاف کے اداروں کی مکمل ناکامی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف فلسطینیوں کے لیے المیہ ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔
گزشتہ چھ سو دنوں سے غزہ میں جاری اسرائیلی ظلم و بربریت اور نسل کشی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اسرائیلی افواج نے بچوں، خواتین اور ہسپتالوں پر جس بے رحمانہ انداز سے بمباری کی ہے، وہ تاریخ کے بدترین جرائم میں سے ایک ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوتی گلیاں اور زخمی خواتین کی درد ناک چیخیں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
اس خوف ناک منظر نامے میں غزہ کے عوام نے اسرائیلی بربریت کا جو مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین بھی ہے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ شدید ترین مشکلات، بمباری، محاصرے اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود فلسطینی عوام کا عزم اور استقامت قابلِ فخر ہے۔ دنیا بھر میں انصاف پسند انسانوں کے دل غزہ کی عوام کی بے مثال ہمت اور حوصلے کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اس معاملے میں عرب ممالک کا کردار بہت ہی مایوس کن رہا ہے، جنہوں نے ملت اسلامیہ اور انسانیت کے بنیادی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنے معاشی مفادات کو فوقیت دی۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہونے والے بھاری تجارتی معاہدے بھی اس افسوس ناک رجحان کا واضح ثبوت ہیں۔ سعودی عرب میں ہونے والی یہ تجارتی کارروائیاں فلسطینیوں کے مصائب کو پوری طرح نظر انداز کرنے اور امریکی سرپرستی میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہیں۔ عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے میں جس عجلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اس نے فلسطینی عوام کی قربانیوں کو بے توقیر کرنے کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کو شرمندہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب سمیت متعدد عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کی جانب پیش رفت اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اقتصادی اور تجارتی فوائد کے سامنے انسانی حقوق اور اسلامی وحدت بے معنی ہوگئے ہیں۔
عالمی اداروں، خاص طور پر اقوام متحدہ کی مکمل ناکامی اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب اسرائیل کی جانب سے کھلی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مؤثر اقدامات کے بجائے صرف بیان بازی اور بے معنی قراردادوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی جانیں لینے، ان کے گھروں کو مسمار کرنے اور غزہ کو جیل میں تبدیل کرنے والے اسرائیلی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی بے بسی خود اس کے وجود پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی رائے عامہ جس طرح سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں نظر آئی، وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ دنیا میں عوام کی اکثریت آج بھی انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں کو اہمیت دیتی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان مظاہروں کے باوجود دنیا کی بیشتر حکومتیں اسرائیل کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے جرائم پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، جس سے ظالموں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے۔
بھارت کی دیرینہ فلسطین نواز پالیسی میں حالیہ برسوں میں ہونے والی واضح تبدیلی بھی قابلِ افسوس ہے۔ اسرائیل کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے معاشی اور دفاعی تعلقات نے فلسطینیوں کے ساتھ بھارت کے تاریخی رشتے کو سخت مجروح کیا ہے۔ یہ صورت حال بھارت کے لیے ایک اخلاقی شکست بھی ہے کیونکہ ہندوستان کا تاریخی موقف مظلوم اقوام کے حق میں رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی اسرائیل نواز پالیسیاں نہ صرف اخلاقی بلکہ سفارتی لحاظ سے بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے، مسلم ممالک اور دیگر بڑی قوتیں اسرائیل کو غزہ کے بے قصور و بے بس عوام پر ظلم سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ اقتصادی اور تجارتی مفادات سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کریں۔ اسرائیل کی جارحیت روکنے کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ تاریخ اس مجرمانہ خاموشی اور بے عملی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
عید الاضحیٰ کا پیغام
عید الاضحیٰ کی مبارک ساعتیں ہمیں ایک بار پھر نصیب ہوئی ہیں۔ اس پُر مسرت موقع پر ہم اپنے تمام قارئین کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے، جس کا بنیادی پیغام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی محبوب ترین شے تک کو قربان کرنے کا عزم اور ارادہ ہے۔
عید الاضحیٰ محض جانور کی قربانی کا نام نہیں بلکہ اس کا اصل پیغام ایثار و قربانی، صبر اور رب کائنات کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔ موجودہ ملکی اور عالمی حالات میں جہاں انسانیت متعدد چیلنجوں سے دو چار ہے، اس پیغام کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عید کی خوشیوں میں اپنے ارد گرد پائے جانے والے ضرورت مندوں اور پریشان حال لوگوں کو نہ بھولیں اور ان کے ساتھ ایثار اور محبت کا برتاؤ کریں۔
قربانی کا جذبہ ہمیں اپنی ذات سے بلند ہو کر اجتماعی فلاح اور خیر خواہی کے لیے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب کہ دنیا بھر میں نفرت و بے زاری، ظلم و نا انصافی اور عدم مساوات عام ہے، ہمیں اس عید کے پیغام کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمیں غزہ کے مجبور و مقہور اور دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے جو عرصہ دراز سے ظلم اور جبر کا شکار ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر بے حد رحم و کرم فرمائے ان کی مصیبتوں کو دور کرے اور انہیں امن و سلامتی عطا کرے۔ اور ہم سب کو اس عید کی حقیقی روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔