وزیراعظم اور امت شاہ پرہماچل پردیش کی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا الزام

پوجا کی اجازت دے کر ریٹائرڈ ہونے والے جج کی شکنتلا مشرا کی یونیورسٹی میں لوک پال کے عہدے پر تقرری

عرفان الٰہی ندوی

لکھنو کی قدیم ،تاریخی ٹیلے والی مسجد کو لکشمن ٹیلہ بتاکر پوجا کا مطالبہ۔ اجمیر کی درگاہ کو بھی متنازعہ بنانے کی سازش جاری
شمال کا حال
شمال میں موسم کے ساتھ سیاسی ماحول بھی کروٹ بدل رہا ہے۔ شمالی ہند میں موسم گرما کی آمد سے پہلے عام انتخابات کی آہٹ تیز ہو گئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے مارچ کے پہلے ہفتے میں ہلکی بارش کے ساتھ اولے گرنے اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے کی پیش گوئی کی تھی جو مارچ کے پہلے ہی دن سچ ثابت ہو گئی۔
لوک سبھا کے عام انتخابات کے مدنظر سیاسی پنڈت بھی سرگرم ہو گئے ہیں۔ ایک بار پھر مودی سرکار کے پرشور نعروں کے بیچ انڈیا گٹھ بندھن بھی کڑی ٹکر دینے کے دعوے کر رہا ہے لیکن گٹھ بندھن کی اصل دھری کانگریس پارٹی کے اندرونی مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی جا رہے ہیں۔ شمال کی پہاڑی ریاست ہماچل پردیش میں راجیہ سبھا انتخابات کے دوران کراس ووٹنگ کے بعد اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق فی الحال سکھوندر سکھو کی سرکار تو بچ گئی لیکن سابق وزیراعلی ویر بھدر سنگھ کی اہلیہ اور کانگریس کی ریاستی صدر پرتبھا سنگھ اور باغی دھڑے کے لیڈر وکرمادتیہ سنگھ کی ناراضگی برقرار ہے۔ کانگریس پارٹی نے وزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ریاستی اسمبلی کے اسپیکر نے کراس ووٹنگ کرنے والے چھ ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کر دی ہے۔
اتر پردیش میں بھی راجیہ سبھا انتخابات میں زبردست طریقے سے کراس ووٹنگ ہوئی۔ سماجوادی پارٹی کے آٹھ ارکان اسمبلی نے این ڈی اے امیدوار کے حق میں کراس ووٹنگ کی، ان میں اکثریت اعلی طبقے کے ارکان اسمبلی کی ہے۔ یو پی میں این ڈی اے کی حلیف جماعتوں میں بھی اقتدار کی حصہ داری کے معاملے میں رسہ کشی جاری ہے۔ آر ایل ڈی، اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی ایس بی ایس پی اور نشاد پارٹی لوک سبھا میں سیٹوں کے ساتھ ریاستی کابینہ میں اپنے نمائندوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اوم پرکاش راج بھر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہیں راج پاٹ نہ ملا تو اس سال ہولی نہیں منائیں گے۔
یو پی میں پیپر لیک کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پولیس بحالی منسوخ ہونے کے بعد آر او اے آر او امتحانات بھی رد کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ اسی درمیان یو پی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے دو پرچے لیک ہونے کی خبریں وائرل ہو گئی ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سرکار پر طنز کستے ہوئے کہا کہ یہ سرکار کسی کو نوکری دینا ہی نہیں چاہتی اس لیے بار بار پرچے لیک کروائے جا رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کو کانکنی کے ایک معاملے میں سی بی آئی کے ذریعے سمن کیے جانے کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اکھلیش یادو نے سمن کی تصدیق کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ سی بی آئی کی طرف سے کاغذ آیا ہے اور اس کا جواب بھی دے دیا گیا ہے تاہم انہوں نے جواب کی وضاحت کرنے کے بجائے مرکزی حکومت پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بی جی پی سب سے کمزور پارٹی ہے اور مرکزی ایجنسیاں بی جے پی سیل کی طرح کام کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ 2019 کے عام انتخابات سے قبل بھی انہیں نوٹس بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ پانچ سال تک معلومات کیوں نہیں مانگی گئیں؟ الیکشن سے پہلے ہی سمن کیوں بھیجا گیا ہے؟ تازہ اطلاعات کے مطابق سی بی آئی اکھلیش سے لکھنو میں ہی پوچھ تاچھ کر سکتی ہے اس کے لیے دوبارہ سمن جاری کیا جائے گا ۔
عام انتخابات سے قبل گڑے مردے اکھاڑنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے تہ خانے میں پوجا جاری رہے گی۔ ہائی کورٹ نے ضلع جج کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ تاہم مسلم فریق کو سپریم کورٹ میں عرضی منظور ہونے سے انصاف کی امید بندھی ہے۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے عبادت گاہ تحفظ قانون 1991 کے تحت الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ اسی دوران ریٹائرمنٹ سے ٹھیک ایک دن پہلے پوجا پاٹھ کی اجازت کا فیصلہ دینے والے ضلع جج کے سبکدوش ہونے کے بعد کا انتظام ہو گیا ہے۔ خبر ہے کہ لکھنؤ کی شکنتلا مشرا یونیورسٹی میں انہیں لوک پال کے عہدے پر تقرری مل گئی ہے۔ تہ خانے میں پوجا کی اجازت ملنے کے بعد کچھ لوگوں نے تہ خانے کے اوپر نماز پر پابندی لگانے کی بھی عرضی لگائی ہے۔
لکھنو کی قدیم اور تاریخی ٹیلے والی مسجد کو متنازعہ بنانے کی عرضی بھی عدالت میں منظور ہو گئی ہے۔ حالانکہ مسجد کے متولی سید فضل المنان نے عبادت گاہ تحفظ ایکٹ 1991 کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈیشنل جج کی عدالت میں اس کے خلاف نظر ثانی کی عرضی داخل کی تھی لیکن لکھنؤ ضلع جج نریندر کمار سوم نے ان کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کی عرضی کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ ہندو فریق اسے لکشمن ٹیلہ بتاتے ہوئے پوجا پاٹھ کی اجازت مانگ رہا ہے۔ اب مسجد نظامیہ اوپر کی عدالت سے رجوع کرنے پر غور و فکر کر رہا ہے۔ ادھر اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں ایک ہندو تنظیم نے ضلع انتظامیہ کو میمورنڈم دیا ہے۔ اس پر درگاہ کے خدام نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اس تنظیم کے خلاف درگاہ تھانے میں مقدمہ درج کرا دیا ہے۔
راجستھان کے ضلع کوٹا سے بھی ایک دلچسپ خبر سامنے آئی ہے کہ وہاں کھجوری اوڈپور کے اسکول کے تین مسلم ٹیچروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ برخاست شدہ ٹیچروں کی حمایت میں اترنے والے طلبا کا ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہا ہے۔ طلبا اساتذہ کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق اساتذہ کو مذہب تبدیل کروانے کےالزام میں معطل کیا گیا ہے، لیکن اسکول انتظامیہ نے اس الزام کو غلط بتایا ہے۔ ان کے مطابق ایک لڑکی کے اندراج میں مذہب کی غلط انٹری سے تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، جانچ کے بعد معاملہ واضح ہو جائے گا ۔
آخر میں شمالی ہند کے دو بزرگ ترین سیاسی رہنماؤں کے انتقال پر ملال کی خبر نے پوری ملت کو غمزدہ کر دیا ہے۔ سنبھل پارلیمانی حلقے کی نمائندگی کرنے والے سب سے بزرگ پارلیمنٹیرین شفیق الرحمن برق کا 93 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اتراکھنڈ کے سابق گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی نے بھی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا، ان کی عمر 83 سال تھی، انہیں رام پور کی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو منظوری دینے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے انتقال پر سیاسی سماجی اور ملی حلقوں میں تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ حال احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024