بغاوت کے قانون کو التواء میں رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ناخوش تھا: کرن رجیجو

نئی دہلی، نومبر 5: انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے جمعہ کو کہا کہ وہ بغاوت کے قانون کو التواء میں رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ رجیجو نے کہا کہ حکومت کے ذریعے یہ کہنے کہ باوجود کہ وہ اس قانون میں تبدیلیاں کر رہی ہے، عدالت نے ایسا فیصلہ لیا۔

انڈیا ٹوڈے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کرن رجیجو نے کہا ’’جب ہم [حکومت] پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم [بغاوت کے قانون] کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ کہ ہم بہتر دفعات کے ساتھ واپس آئیں گے، اس کے باوجود اگر عدالت سے ایسا فیصلہ آتا ہے، تو یقیناً یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘‘

11 مئی کو سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کو روک دیا تھا اور ریاستی حکومتوں اور مرکز سے درخواست کی تھی کہ جب تک اس کی دوبارہ جانچ نہیں ہو جاتی، اس قانون کے تحت کوئی نیا مقدمہ درج نہ کریں۔

اس وقت مرکز نے عدالت سے کہا تھا کہ وہ اس قانون کی دوبارہ جانچ کرے گا اور ججوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے کو اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک وہ ایسا نہیں کرتا۔

فیصلے کے بعد رجیجو نے کہا تھا کہ جہاں حکومت عدالت اور اس کی آزادی کا احترام کرتی ہے، وہیں ایک ’’لکشمن ریکھا‘‘ یا حد بھی ہے، جس کا ریاست کے تمام اداروں کو احترام کرنا چاہیے۔

جمعہ کو رجیجو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عدلیہ کو ایگزیکیٹو کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا ’’اگر عدلیہ یہ فیصلہ کرنا شروع کر دے کہ اگر سروس رولز میں شامل ہو جائیں تو سڑکیں کہاں بنائی جائیں تو حکومت کس کام کے لیے ہے؟ کیا میں کبھی عدلیہ کے کام میں دخل دیتا ہوں؟ نہیں، میں عدلیہ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے میں مدد کرتا ہوں۔‘‘

انڈیا ٹوڈے کے مطابق وزیر قانون نے یہ بھی اعادہ کیا کہ وہ ججوں کی تقرری کے کالجیم نظام سے مطمئن نہیں ہیں اور دعویٰ کیا کہ بہت سے جج ان سے متفق ہیں۔

رجیجو نے ٹیلی ویژن چینل کو بتایا ’’وہ [ججز] کسی خاص جج کے بارے میں اپنی سمجھ کی بنیاد پر ناموں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ کنسلٹی ججوں سے بھی بات کرتے ہیں جو نام تجویز کرتے ہیں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’ایک مشیر جج صرف ان لوگوں کی سفارش کرے گا جنھیں وہ جانتا ہے۔ وہ کسی ایسے شخص کی سفارش نہیں کریں گے جسے وہ نہ جانتے ہوں چاہے وہ شخص سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے اہل اور فٹ ہو۔‘‘