اوقاف میں بدعنوانیاں، عوام استفادے سے محروم

مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جائیدادیں وقف : جگہ جگہ اوقاف پر سرکاری و ناجائز قبضوں میں اضافہ

بعض مقامات پر حکومت بھی ملوث ۔ لوک سبھا میں پیش کردہ اعداد وشمار ریاستی وقف بورڈ سے مختلف

ایکسلوزیو

افروز عالم ساحل، دلی

وعدہ وقف جائیدادوں کو ناجائز قبضوں سے بچانے کا تھا لیکن موجودہ حکومت میں اس وعدے کے برعکس وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں سے متعلق خود حکومت کے اعداد و شمار چونکادینے والے ہیں۔ حکومت کی اس ادا پر آپ قربان جائیے کہ وہ خود وقف کے جن جائیدادوں پر قبضہ کئے بیٹھی ہے اسے وہ قبضہ ہی نہیں مانتی۔

گزشتہ سال 12 دسمبر 2019 کو رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے لوک سبھا میں وقف سے متعلق کچھ سوالوں کے جواب مانگے۔ اس میں ایک سوال وقف جائیدادوں پر نا جائز قبضوں سے متعلق بھی تھا۔ تحریری جواب میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے سنٹرل وقف کونسل سے حاصل کردہ ایک فہرست سونپی۔ اس فہرست میں 24 وقف اسٹیٹ بورڈوں کے ناجائز قبضوں کے مسائل سے وابستہ وقف جائیدادوں کے اعداد و شمار ہیں۔لوک سبھا میں پیش کردہ یہ فہرست بتاتی ہے کہ 24 وقف اسٹیٹ بورڈوں میں کل 16,931 جائیدادیں ناجائز قبضوں کے مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جس سنٹرل وقف کونسل کی حاصل کردہ اطلاعات سے اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ناجائز قبضوں والی وقف جائیدادوں کے اعدادوشمار بتائے ہیں ان میں بڑی چالاکی سے سرکاری قبضوں والی وقف جائیدادوں کے اعداد و شمار کو غائب کردیا گیا ہے۔ وہیں آندھرا پردیش کی چونکا دینے والی جانکاری بھی اس فہرست سے غائب ہے۔

وقف جائیدادوں پر سرکاری قبضے بڑھے

واضح رہے کہ سال 2016 کے نومبر کے مہینے میں پٹنہ کے سماجی کارکن علی عابد کو سنٹرل وقف کونسل سے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ملی جانکاری کے مطابق ملک میں 18,193 وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ ہے۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ سنٹرل وقف کونسل سے ملی یہ جانکاری یہ بھی بتاتی ہے کہ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں میں سرکار یا اس کی ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ وقف کونسل کے اعداد وشمار کے مطابق 1062جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ سرکار یا ان سے وابستہ ایجنسیوں کا ہے۔

20 جولائی 2020 کو سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت ملی انفارمیشن کے مطابق ملک میں 18,259 وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ ہے۔

وہیں یہ جانکاری چونکانے والی ہے کہ سال 2016 کے بعد وقف جائیدادوں پر حکومتوں کے ناجائز قبضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں سال 2016 میں حکومت یا اس سے منسلک ایجنسیوں کا 1062جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ تھا وہیں آج سنٹرل وقف کونسل کے مطابق سال 2020 کے جولائی تک 1342 جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین سرکاری محکموں یاایجنسیوں کے قبضے میں ہے۔

غور طلب امر ہے کہ ان اعداد وشمار میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔

گجرات وقف میں بدعنوانی کے کئی معاملے

واضح رہے کہ ناجائز قبضوں کے معاملوں میں گجرات وقف بورڈ پر ہمیشہ سے سوال کھڑے ہوتے آئے ہیں۔ نومبر 2016 میں آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل شدہ دستاویز کے مطابق وقف ایکٹ 1995 کے تحت سروے کے آغاز سے پہلے گجرات میں رجسٹرڈ وقف کی تعداد 13,521 تھی لیکن وقف ایکٹ 1995 کے تحت سروے میں یہاں رجسٹرڈ وقف کی تعداد 12,000 پائی گئی۔ بقیہ 1,521 وقف جائیدادوں کو آسمان کھا گئی یا زمین نگل گیا کوئی نہیں جانتا۔ حالانکہ یہ اعداد وشمار نومبر 2016 تک کے ہی ہیں، نئے اعداد وشمار حکومت گجرات نے ابھی نہیں دیے ہیں۔

گجرات میں وقف بورڈ کی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں وقف جائیدادوں میں بدعنوانی کے کئی معاملے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ (اس پر تفصیلی گفتگو اس سیریز کی اگلی کہانی میں جائے گی) یہی نہیں، وقف بورڈ کی نئی باڈی کے تعلق سے بھی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ الزام ہے کہ گجرات وقف بورڈ کی یہ باڈی وقف کے آئین کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں بنائی گئی ہے۔ وقف کی باڈی کے انتخابات پر بھی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس معاملے کو اٹھانے والوں کا مطالبہ ہے کہ وقف باڈی کا دوبارہ الیکشن کرایا جائے جس میں ایسے افراد منتخب ہو کر آئیں جنہیں شریعت اور اوقاف کا علم ہو، اور اس کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ واضح رہے کہ اپریل 2018 میں گجرات وقف بورڈ میں نئی باڈی کا انتخاب کیا گیا۔ بورڈ میں شامل 10 نئے ممبران میں کانگریس کے سینئر لیڈر و راجیہ سبھا ممبر احمد پٹیل کا نام بھی شامل ہے۔ گجرات وقف بورڈ کی بدحالی کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ سال 2012 سے بورڈ کی ویب سائٹ بھی کبھی اپڈیٹ نہیں ہوئی ہے۔

حیدرآباد کی 82 فیصد وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے

اپنی ریاست کی وقف جائیدادوں پر ہوئے ناجائز قبضوں کی جانکاری مہیا نہ کرانے والوں میں تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کا نام بھی شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر اس کے متعلق جانکاری موجود ہے۔تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود جانکاری بتاتی ہے کہ تلنگانہ میں رجسٹرڈ وقف کی تعداد 33,929 ہے جو 77,538.07 ایکڑ زمین پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں 57,423.91 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔ اسی سال مارچ 2020 میں ریاستی اسمبلی میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے فلور لیڈر اکبرالدین اویسی نے تلنگانہ وقف بورڈ میں دھاندلیوں کی جانچ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے ذریعہ یا پھر سی بی ائی یا سی ائی ڈی کے ذریعہ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ حیدرآباد کی 82 فیصد وقف جائیدادیں لینڈ گرابرس کے قبضے میں ہیں۔

اتر پردیش میں حکومت کے ذریعہ سی بی آئی جانچ کی سفارش

سنٹرل وقف کونسل کے ذریعے آر ٹی آئی سے حاصل انفارمیشن میں اتر پردیش شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔ نومبر 2016 میں آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل دستاویز بتاتے ہیں کہ وقف ایکٹ 1995 کے سروے کے تحت اس وقف بورڈ میں رجسٹرڈ وقف کی تعداد 8,000 ہے۔ لیکن اس کی ویب سائٹ پر 6186 وقف جائیدادوں کی ہی جانکاری موجود ہے۔ حالانکہ ویب سائٹ پر لکھی جانکاری کے مطابق اپڈیشن کا کام ابھی جاری ہے۔

واضح رہے کہ اتر پردیش شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی تھے۔ 18 مئی 2020 کو ان کی میعاد پوری ہوچکی ہے۔ صوبے کے اقلیتی وزیر مملکت محسن رضا نے گزشتہ دنوں ایک پریس بیان جاری کر بتایا کہ اتر پردیش حکومت نے ریاست کے شیعہ اور سنی وقف بورڈ میں غلط تقرریوں، ترقیوں اور مختلف عہدوں پر خدمات میں توسیع کی شکایات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ مجھے خاص طور پر شیعہ وقف بورڈ میں کئی شکایتیں ملی ہیں۔ اس سے قبل اتر پردیش حکومت نے شیعہ وقف اور سنی وقف بورڈ کے ذریعہ غیرقانونی خرید و فروخت اور غیر منتقلی جائیدادوں کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی جانچ کی سفارش کر چکی ہے۔

آندھرا پردیش میں سرکار ہی بنی وقف لینڈ گرابر

نومبر 2016 میں سنٹرل وقف کونسل کے ذریعے آر ٹی آئی سے حاصل دستاویز کے مطابق یہاں 67973.87 ایکڑ وقف کی زمین ہے۔ لیکن 20 جولائی 2020 کو سنٹرل وقف کونسل سے آرٹی آئی کے تحت ملی جانکاری بتاتی ہے کہ یہاں 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ ہے۔ اور یہ قبضہ کسی شخص یا پرائیویٹ ادارے نے نہیں، بلکہ خود یہاں کی حکومت نے کیا ہے۔ یعنی ان زمینوں پر کسی سرکاری محکمہ یا ایجنسی کا ناجائز قبضہ ہے۔ شاید اسی لئے لوک سبھا میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے جو فہرست دی ہے اس میں آندھرا پردیش کے ناجائز قبضوں کو چھپا لیا گیا ہے۔

تو کیا تمل ناڈو میں ہٹ گیا ناجائز قبضہ؟

سنٹرل وقف کونسل کے ذریعے آر ٹی آئی سے حاصل دستاویز اس کے خود کے انفارمیشن پر ہی سوال کھڑے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ نومبر 2016 میں سنٹرل وقف کونسل کے ذریعے آر ٹی آئی سے حاصل دستاویز بتاتے ہیں کہ تمل ناڈو میں 1335 وقف جائیدادوں پر کسی شخص یا کسی پرائیویٹ ادارے کا اور 7 وقف جائیدادوں پر سرکار یا سرکاری ایجنسیوں کا قبضہ ہے، یعنی یہاں 1,342 وقف جائیدادیں ناجائز قبضوں میں ہیں۔ وہیں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے 12 دسمبر 2019 کو لوک سبھا میں بتایا کہ تمل ناڈو میں 1335 وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضہ ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اس میں سرکاری محکمہ یا ایجنسیوں کے ذریعہ کئے گئے قبضوں کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔

20 جولائی 2020 کو سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق تمل ناڈو میں اب 1,213 وقف جائیداد ہی ناجائز قبضوں میں ہیں۔ اس میں 5 وقف جائیدادوں پر سرکار یا سرکاری ایجنسیوں کے قبضے کا اعداد و شمار بھی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہاں 12 دسمبر 2019 کے بعد 129 وقف جائیدادوں پر سے ناجائز قبضہ ہٹا لیا گیا ہے یا پھر وقف کونسل نے غلط جانکاری دی ہے؟


صاحب مضمون معروف نوجوان صحافی ہیں۔ تاریخ اور ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق آپ کی دلچسپی کے اہم میدان ہیں۔ رابطہ ٹوئٹر @afrozsahil