زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

یوم اقلیتی حقوق کے حوالے سے نوجوانوں کی رائیں

اب میری پہچان ’انڈین‘ نہیں، ’انڈین مسلم‘ ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔

ہر چند کہ نظری طور پر ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں، جو کسی بھی سیکولر ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم شہریوں کو برابری ودیعت کرنے والے تمام حقوق فی زمانہ خطرے میں ہیں۔ مجھے اسکول کے زمانے کا وہ احساس اب بھی یاد آتا ہے جب میں ملک کے سیکولر کیریکٹر پر فخر محسوس کیا کرتی تھی۔ جب میرے استاد بھارت کے سیکولر اور جمہوری ریاست ہونے کی اور قانون کے سامنے سب کی برابری کی بات کرتے تھےتو مجھے ملک کے آئین کی دفعات 14-18 سے حاصل حقوق پر بہت ناز تھا۔ گویا میں دنیا کے سب سے بہترین جمہوری ملک میں رہتی ہوں۔ لیکن 2014 کے بعد سے حالات بدل گئے ہیں۔ ہم’ہم‘ سے ’وہ‘ میں بدل دیے گئے، اب میری پہچان ’انڈین‘ نہیں، ’انڈین مسلم‘ ہوکر رہ گئی ہے۔ اب میں صرف ایک بھارتی مسلمان ہوں۔ میری ریاست سے پہلے میری شناخت میری مذہب ہے۔ جہاں ہمارے لیڈروں کے پیش نظر موسمیاتی تبدیلی، ملک کی ترقی، نوجوانوں کے روزگار اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہونی چاہیے، وہاں مذہب کی بنیاد پر یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک نہ صرف برتا جا رہا ہے بلکہ اسے حق بجانب بھی ٹھہرایا جارہا ہے۔ ملک کو ہندو مسلمان میں تقسیم کیا جار ہا ہے، اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت ایسے سیاستدانوں اور رہنماؤں سے متفق ہے۔ باوجود اس کے میرے آئین کے وعدے کے مطابق برابر ی کے حق کی امید ہمیشہ روشن رہے گی۔ ان حالات میں ہمیں ملک کے آئین کو بچانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینی ہوگی۔

—الماس نسیم
طالبہ، اے جے کے ماس کمیونیکیشن ریسرچ سنٹر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی

آگے حالات مزید خراب ہونے والے ہیں۔۔۔

کہنے کو تو بھارت تنوع میں اتحاد کا ملک ہے، لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ محض دل کو بہلانے والی بات ہے۔ ابھی حال ہی میں، راجستھان میں ایک مسلم پولیس اہل کار کو داڑھی رکھنے سے روک دیا جاتاہے، اترپردیش میں ایک مسلمان پرنسپل کو صرف اس لیے معطل کردیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کی لکھی اردو نظم بچوں سے پڑھوا دی۔ فارسی کے بعد اب اردو کو بھی بیرونی زبان قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہزاروں ایسے واقعات دیکھنے کو مل جائیں گے اور یہ سب حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب صرف مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، بلکہ ہمارے ملک میں دیگر اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے منصوبوں اور سہولیات کے فوائد صحیح وقت پر دستیاب نہیں ہیں۔ اوپر سے وہ ادارے جسے مسلمانوں نے قائم کیا ہے، وہاں بھی مداخلت کی جا رہی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار چھیننے کی کوشش اسی کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود، 18 دسمبر کو یہ لوگ بھارت میں اقلیتی حقوق کا دن مناتے ہیں۔ اس موقع پر اقلیتی کمیشن سمیت مختلف تنظیمیں مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں۔ یہ دن اقلیتوں کو آگے لانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے منایا جاتا ہے۔ لیکن ملک میں اقلیتیں ہی محفوظ نہیں ہیں۔ ہر وقت ڈر کے سائے میں جی رہی ہیں۔ پھر اس جشن کا کیا مطلب ؟ ضرورت ہے کہ اقلیتوں کی رہنمائی کرنے والے تمام ملی و سماجی لیڈر اس موقع پر ایک پلیٹ فارم پر آکر آگے کی حکمت عملی پر غور کریں، بصورت دیگر، آگے حالات مزید خراب ہونے والے ہیں۔

—محمد عمر اشرف، ایڈیٹر، ہیریٹیج ٹائمس

کیونکہ نیت میں کھوٹ جگ ظاہر ہے۔۔۔

برصغیر میں اکثریتی طبقے اور ان کے تعاون سے بنی حکومتیں اپنے جمہوریت پسند ہونے کا بلند بانگ دعویٰ تو بہت کرتی ہیں، تاہم غور کیجیے تو برصغیر کے تینوں ملکوں میں اقلیتی طبقہ خود کو اجنبی لوگوں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ عالمی یوم اقلیتی حقوق پر سرکاری سطح پر کافی شور شرابہ ہوتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے گویا اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت میں اقلیتی طبقوں کے ساتھ سرکاری سطح پر جو ظلم ڈھائے گئے ہیں، ان کی نظیر کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی سرکاری سطح پر دوہرا معیار جاری رہا۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لیے عدالتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہی حال پڑوسی ملک پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں کا رہا۔ میری رائے میں برصغیر کو متمدن ہونے میں ابھی پچاس برس کا وقت درکار ہے، جب وہ اپنی اقلیتوں کو بھی اپنی طرح ہی کا انسان سمجھ سکیں گے۔ اور عدالتیں حقوق کی پامالی کرنے والوں کو خاطرخواہ سزا دے سکیں۔ ایسے میں برصغیر میں یوم اقلیتی حقوق کا مانایا جانا محض ایک سرکاری شوشہ ہے، اور سرکاری عملہ اور ان کے حواریوں کے لیے پیٹھ تھپتھپانے کا ایک موقع ہے۔ اس شوشےسے اقلیتوں کا کچھ بھلا ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے، کیونکہ نیت میں کھوٹ جگ ظاہر ہے۔

—علی محمد معاذ، ایڈوکیٹ