ویڈیو: خواتین نے کرناٹک میں کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے والے ہندوتوا شدت پسندوں کو روکا
نئی دہلی، جنوری 1: دی نیوز منٹ نے رپورٹ کیا کہ کرناٹک کے توماکورو ضلع میں ایک دلت خاندان کے گھر میں خواتین کے ایک گروپ کی ہندوتوا شدت پسندوں کو روکنے کی ویڈیو بدھ کو سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔
بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں خواتین کو ان مردوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو مبینہ طور پر گھر میں گھس گئے تھے اور منگل کو کرسمس کی تقریبات کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ یہ واقعہ شام 7.30 بجے کے قریب توماکورو کے بیلیدیوالیا گاؤں میں پیش آیا۔
ان افراد کا تعلق ہندوتوا گروپ بجرنگ دل سے تھا۔ کنیگل پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر راجو پی نے دی نیوز منٹ کو بتایا کہ تنازعہ میں ملوث دونوں گروپوں کی طرف سے شکایت درج کرائی گئی تھی۔ تاہم ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
افسر نے کہا ’’ہمیں کال ملنے پر پولیس فوراً موقع پر پہنچ گئی اور ہم نے دونوں گروپوں سے بات کی۔ خاندان کرسمس کا جشن منا رہا تھا لیکن چند آدمی وہاں گئے اور اس میں خلل ڈالا۔ یہ صرف ایک بحث تھی اور کوئی تشدد نہیں ہوا تھا۔‘‘
Tumakuru. Women fight off Hindutva vigilantes who disrupted Christmas celebrations in Kunigal. The mob is asking the women why they are not wearing sindhoor like Hindus and why they are celebrating Christmas. Women respond saying they are Christian believers and wish to celebrate pic.twitter.com/Q9dR9muMaA
— Prajwal (@prajwalmanipal) December 30, 2021
مردوں نے مبینہ طور پر خواتین سے پوچھا کہ وہ کرسمس کیوں منا رہی ہیں اور شادی شدہ ہندو خواتین کی طرح ’’سندور‘‘ نہ لگانے کی وجہ کیا ہے۔ گروپ نے یہ بھی پوچھا کہ خاندان کے کچھ افراد نے عیسائیت کیوں اختیار کی۔
لیکن خواتین میں سے ایک نے مردوں سے کہا کہ وہ اس بات کا ثبوت فراہم کریں کہ کسی نے مذہب تبدیل کیا ہے۔
عورتوں میں سے ایک نے پوچھا ’’تم ہم سے سوال کرنے والے کون ہوتے ہو؟ میں ’منگل سوتر’ بھی اتار کر ایک طرف رکھ سکتی ہوں۔ ‘‘ اس کے بعد اس نے مردوں کو گھر سے ’’باہر نکلنے‘‘ کو کہا۔
یہ واقعہ ملک میں ہندوتوا شدت پسندوں کی طرف سے کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالنے کی متعدد رپورٹوں کے درمیان ہوا ہے۔
پچھلے ہفتے ہندوتوا گروپ کے ارکان نے کرناٹک کے منڈیا ضلع کے پانڈواپورہ قصبے کے ایک اسکول میں کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا تھا۔
اس مہینے کے شروع میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں جنوری اور نومبر کے درمیان کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 39 واقعات درج کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے دعائیہ اجتماعات کے دوران عیسائیوں پر پرتشدد حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ کرسچن فورم، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کی ایک اور حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ نے عیسائیوں پر سب سے زیادہ حملوں والی ریاستوں کی فہرست میں کرناٹک کو تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔
کرناٹک میں عیسائی برادری نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ریاست کے نئے انسداد تبدیلی مذہب بل میں انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس بل میں خواتین، نابالغوں اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر 10 سال قید کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی گئی ہے۔