کرناٹک: حکومت ان مصنفین کو تحفظ فراہم کرے گی جنھیں دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہیں

نئی دہلی، اگست 18: کرناٹک حکومت نے 15 سے زیادہ ایسے مصنفین اور ماہرین تعلیم کو تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جنھیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پرمیشور نے کہا کہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس آلوک موہن اور بنگلورو کے پولیس کمشنر بی دیانند کو مصنفین اور دانشوروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

ان مصنفین کو یہ دھمکی بھرے خطوط اس وقت پہنچنا شروع ہوئے جب ان میں سے 61 نے گذشتہ سال مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما بسواراج بومائی کو ایک کھلا خط لکھا تھا، جو اس وقت کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے، جس میں ریاست میں ’’بڑھتی ہوئی عدم رواداری‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس وقت، تعلیمی اداروں میں ریاستی حکومت کی طرف سے حجاب اور دیگر مذہبی لباس پر پابندی کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔

جن لوگوں نے کرناٹک حکومت سے سیکیورٹی مانگی ہے، ان میں ایس جی سدارامیا، وسندھرا بھوپتی، کم ویربھدرپا، پروفیسر مارولاسدپا اور بناجگیرے جے پرکاش شامل ہیں۔

دھکمی بھرے خطوط میں مصنفین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کارکن ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش جیسے نتائج کے شکار ہوں گے۔‘‘

کلبرگی، ایک ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ اور توہم پرستی مخالف کارکن، کو 30 اگست 2015 کو کرناٹک کے دھارواڑ ضلع میں ان کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہیں ہندوتوا کی سیاست کے خلاف اپنے سخت خیالات رکھنے والی صحافی لنکیش کو 5 ستمبر 2017 کو بندوق برداروں کے ذریعے بنگلورو میں ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔

بھوپتی نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اسے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سدارامیا اور رام چندرپا جیسے مصنفین کے ساتھ منسلک نہ کریں۔ واضح ہو کہ ان دونوں نے سابق بی جے پی حکومت کی طرف سے اسکول کی نصابی کتابوں کے ’’بھگوا کرن‘‘ کی مخالفت کی تھی۔

ویربھدرپا نے کہا تھا کہ انھیں ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ان پر ’’ہندو مخالف‘‘ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے اور ’’اپنے آخری رسومات کے لیے تیار رہنے‘‘ کی دھکمی دی گئی ہے۔

جمعہ کو پرمیشورا نے کہا کہ ریاستی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’’ہم گوری لنکیش اور پروفیسر کلبرگی کے قتل کو نہیں بھولے ہیں۔ میں نے پولیس افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ مصنفین کو تحفظ فراہم کریں۔ ہم ہفتہ کو ہونے والی میٹنگ کے دوران مصنفین سے تمام تفصیلات حاصل کریں گے۔‘‘

جے پرکاش نے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھیں جون 2022 سے اب تک ایسے 13 خطوط موصول ہوئے ہیں۔

جے پرکاش نے کہا کہ جب بھی ہم نصابی کتب پر نظر ثانی جیسے معاملات پر حکومت کے خلاف بیان دیتے ہیں تو ہمیں اس طرح کے خطوط ملتے ہیں۔

پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں مئی میں داونگیرے ضلع کے ہری ہرا سے پردیپ کے نام سے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا لیکن اس کے بعد بھی مصنفین کو خطوط موصول ہوتے رہے۔

اس کے بعد بھیجے گئے کچھ خطوط میں پولیس سے پردیپ کو رہا کرنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔