ویرینٹ ‘ وبا ‘ ویکسین

کوئی علاج اس مرض کا اے چارہ گر ہے کہ نہیں

ڈاکٹر محمد رضوان،ناگپور

افراط و تفریط سے گریز،خوف واضطراب سے پرہیز اور سائنٹفک طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت
ساری دنیا میں ابھی عوام کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویرینٹ کی دہشت اور اس کے قہر کے اثرات سے ابھر ہی رہے تھے کہ جنوبی افریقہ سے اومیکرون ویرینٹ کی خبر آگئی۔ یہ خبر معمول پر لوٹتی بین الاقوامی زندگی پر گویا آفتِ ناگہانی کی طرح ٹوٹ پڑی اور ساری دنیا پر دیکھتے ہی دیکھتے پھر سے خوف، دہشت ، خطرات ،اندیشوں اور نقصانات کے بادل منڈلانے لگے۔
افواہوں، جھوٹی خبروں، غلط اور جھوٹی معلومات، نیم سائنسی جھوٹے تصورات کا بازار پھر سے گرم ہونے لگا۔ لیکن یہ بات سائنسی حلقوں کے لیے غیر متوقع نہیں تھی کیونکہ وائرس اور اس سے جڑی وباوں کی سائنس Epidemiologyکے بنیادی اصولوں کے مطابق کوروناوائرس کی وبا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے انسانوں کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہے اور یہ بھی کہ کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ آئیں گے اور ان سے نمٹنے کے لیے سب کو تیار رہنا ہوگا۔
کیا یہ ویرینٹ ہمیشہ آتے ہی رہیں گے! کیا ویکسین کا کوئی اثر ہوگا؟ کیا ویکسین لگوانا بیکار ہے؟ کیا ویکسین لگوانے اور نہیں لگوانے والے افراد یکساں طور پر ویرینٹ کا شکار ہوں گے اور مزید کتنے ویرینٹ آئیں گے؟ کیا لاک ڈاون ویرینٹ سے لڑنے کے لیے موثر ہتھیار ہے! کیا ماسک لگانا اب بھی فائدہ مند ہے؟ کیا ماسک لگانے سے اور لاک ڈاون سے ویرینٹ بننے کے عمل کو سست کیا جاسکتا ہے! کیا ویرینٹ ہمارے مزاحمتی نظام کو شکست دے سکتا ہے! ڈیلٹا ویرینٹ اور اومیکرون میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں یکساں طور پر خطرناک ہیں؟ کیا دونوں ویرینٹ میں موت کی شرح یکساں ہے؟ کیا دونوں ویرینٹ کاجسم وپھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچانے کا عمل یکساں ہے؟
کیا ویرینٹ کے ذریعے سے کورونا وائرس کی لہریں آتی رہیں گی! ان تمام سوالات کے جوابات ہم ذیل کی سطروں میں دینے کی کوشش کریں گے۔
ویرینٹ کیا ہیں!
یہ بات اب عام طور پر معلوم ہو چکی ہے کہ وائرس ایک خورد بینی جاندار ہے جو خلیہ (Cell) کے باہر صرف ایک کیمیائی مادہ ہوتا ہے اور خلیہ کے اندر ایک جاندار کے طور پر کام کرنے لگتا ہے۔ جب خلیہ کے اندر وائرس کی افزائش ہوتی ہے تب وائرس خلیہ کی افزائشی مشینوں کا استعمال کرکے اپنے جینیاتی مادے (RNA-Replication Mutations Variant ) کی کاپی (نقل) تیار کرتا ہے اور اسی عمل کے دوران اس میں جینیاتی عمل (Mutation) واقع ہوجاتا ہے۔ پھر اگر یہ جینیاتی تبدیلی باقی رہ جاتی ہے تو نیا ویرینٹ بنتا ہے۔
اس طرح کے ہزاروں ویرینٹ بنتے رہتے ہیں اور فنا ہوتے رہتے ہیں ان میں سے جو ویرینٹ باقی رہ جاتے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو وائرس کی مختلف خاصیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مثلاً انفیکشن پیدا کرنے کی صلاحیت یا شدید بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہ تمام صلاحیتیں دراصل جین (Gene) کے ذریعے منضبط ہوتی ہیں۔ اس لیے جینیاتی کوڈ میں تبدیلی اور اس تبدیلی کی شرح دراصل ویرینٹ کی خاصیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اومیکرون بھی ایسا ہی ایک ویرینٹ ہے۔ اب تک کی تحقیقات نے درج ذیل نکات پر روشنی ڈالی ہے۔
1۔ اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ سے کم خطرناک ہے۔
2۔ یہ ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
3۔ پھیپھڑوں کے خلیات میں داخل ہونے کی صلاحیت ڈیلٹا ویرینٹ سے کم ہے۔
4۔ بیماری کی شدت کی شرح ڈیلٹا سے کافی کم ہے۔
5۔ ہاسپٹل میں داخلے کے شرح ڈیلٹا سے کافی کم ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کردینا مناسب ہوگا کہ مندرجہ بالا نکات کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور اس ضمن میں عوامی رویہ جیسا چاہے ہو سکتا ہے، نہیں! بلکہ عوامی رویہ اور حکومتوں کے ردعمل دونوں اعتبار سے وبا سے نبٹنے کے لیے اختیار کیے گئے راستے افراط وتفریط پر مبنی نہیں ہونا چاہئیں۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ ساری احتیاطی تدابیر جیسے ماسک یا جسمانی دوری کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ بھیڑ بھاڑ میں کوئی احتیاط نہ کی جائے اور ماقبل کورونا وائرس والے طرز زندگی کی طرف لَوٹا جائے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ مکمل لاک ڈاون نافذ کردیا جائے، اسکول کالج بند کردیے جائیں ، مکمل سختی کے ساتھ ہر جگہ اور ہر وقت ماسک کو لازم قرار دیا جائے۔ ان دونوں انتہاوں کے درمیان مناسب نسخہ اور متوازن سائنٹفک تحقیقات کی روشنی میں رسپانس کو طے کیا جائے۔ واضح رہے کہ کورونا کی ابتدا میں جو کچھ کیا جاسکتا تھا وہ ردعمل کی نفسیات ہی کی روشنی میں کیا جاسکتا تھا کیونکہ وبا نئی تھی ، وائرس نیا تھا، بیماری نئی تھی، علاج کے بارے میں احتیاط کے بارے میں واضح پیمانے نہیں تھے ۔ کس پیمانے کا کیا، کیسا اور کتنا موثر نتیجہ ہوگا کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اب کافی معلومات ہیں وائرس کے پھیلاو کا رویہ اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل ، بیماری سےموت کی شرح، صحت یابی کی شرح غرض بہت کچھ اس لحاظ سے اوپر بیان کی گئی دو انتہاوں کے درمیان والے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔
لیکن کیا ویرینٹ آتے رہیں گے ؟
ویرینٹ کے ظہور کا تعلق کئی عوامل سے ہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ وائرس والی وبائیں عام طور پر ایک دائری طرز Cyclical Patternsکو اپناتی ہیں۔ یعنی ایک خاص عرصے تک میزبان (Host) کے درمیان گردش کرتی رہتی ہیں اور پھر دو صورتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ 1۔ جب وائرس کے تمام میزبان (Host) (کوروناوائرس کے میزبان ہم بنی نوع انسان ہیں، سوائن فلووائرس کے میزبان سور (Pig) ہیں اور H1N1وائرس کے میزبان مرغ ہیں) وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں اور میزبان کی اس مزاحمت کی وجہ سے وائرس زندہ نہیں رہ پاتا۔
2۔ وائرس میں مختلف جینیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور آخر کار وہ کم خطرناک یا بے ضرر ہوجاتا ہے اور ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ پھر اکا دکا کیسس منظر عام پر آتے ہیں لیکن کوئی بڑی وبا پھیلانے میں وائرس ناکام ہوجاتا ہے۔
کیا ویکسین موثر ہے!
اوپردی گئی دونوں صورتوں میں پہلی صورت کے ظہور کے دو راستے ہیں 1۔ گروہی مزاحمت پیدا ہوجائے یعنی 70تا80فیصد افراد کو وائرس اپنا شکار بنالے، ان میں سے جوکمزور ہوں گے وہ مرجائیں گے اور صحت مند ہونے والوں میں مجموعی اعتبار سے گروہی مزاحمت پیدا ہوجائے۔
2۔ ویکسین کے ذریعے مزاحمت پیدا کی جائے۔ ہمارے نزدیک دوسری صورتحال کے لیے کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ویکسین کے دونوں ڈوز انسانی آبادی کے بڑے حصے کو دیے جائیں تاکہ وائرس کے لیے میزبان کا حصول مشکل ترین بلکہ ناممکن ہوجائے۔
یہ بات اب مختلف تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ ویکسین ویرینٹ سے بھی ایک خاص درجہ کی حفاظت دیتی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ویکسین کے ذریعے حفاظت دینے کا صحیح مطلب کیا ہے۔ ویرینٹ چاہے ڈیلٹا ہو یا اومیکرون ویکسین لگوانے کے بعد
1۔ بیماری کی شدت پیدا نہیں ہوگی
2۔ ہاسپٹل میں داخلے کی نوبت نہیں آئےگی
3۔ کورونا وائرس کے ذریعے پیدا ہونےوالی بیماری سے موت کا اندیشہ صفر ہوگا۔ واضح رہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد میں کورونا وائرس کے ویرینٹ اومیکرون یا مزید نئے آنے والے ویرینٹ سے انفیکشن تو ہوسکتا ہے لیکن یہ انفیکشن شدید بیماری پیدا نہیں کرے گا۔ مزید یہ کہ ہاسپٹل کی نوبت نہیں آئے گی۔ دوسرے اب تحقیقات سے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ویکسین لگوانے والے اور نہ لگوانے والے افراد میں انفیکشن کی شرح میں بہت بڑا فرق ہے اور ویکسین لگوانے والے افراد انفیکشن سے زیادہ محفوظ ہیں۔
البتہ اب ویکسین کی بحث میں ایک نیا پہلو اور داخل ہوگیا ہے وہ یہ کہ ویکسین کے ذریعہ پیدا ہونے والی مزاحمت حفاظت کا دوارنیہ کتنا ہے۔ یعنی ویکسین لگوانے کے بعد کتنے عرصے تک باڈیز جسم میں برقرار رہیں گی تو اس ضمن میں تحقیقات مختلف دوارنیوں کی جانب اشارہ کررہی ہیں۔ بعض کے مطابق تو ڈیڑھ سال بعض کے مطابق 6تا 15مہینے اور کم از کم ایک تحقیق کے مطابق عمربھر۔ لیکن معتدل نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ وائرس نیا ہے۔ ویکسین بھی نئی ہے اور صرف تقریباً دو سال کا وقت ہی گزرا ہے۔ بڑی تحقیقات کے لیےSubjects یعنی افراد مہیا نہیں ہیں۔ اینٹی باڈیز کو معلوم کرنے کے طریقے کے اپنے حدود ہیں مگر مزاحمتی سائنس Vaccinology یا Immunology کی رو سے دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ویکسین کے ذریعے وائرس سے حفاظت پیدا ہونے کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن کیا پھر Booster Vaccineلینا چاہیے یہ ایک ہمہ جہتی سوال ہے۔ یعنی اس سوال کے جواب میں کئی پہلووں کو دیکھنا ہوگا۔ مختصراً یہ سمجھنا چاہیے کہ پہلے تو تمام بھارتی عوام کم از کم دو ڈوز کی سطح تک پہنچ جائیں پھر اس کے بعد بوسٹر ڈوز کے بارے میں سوچا جائے۔ جب تک تحقیقات سے دو ٹوک طور پر یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ویکسین کے ذریعے کورونا وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بہت مختصر عرصے ہی کے لیے باقی رہتی ہیں، تب تک اس موضوع پربحث بیکار ہے ہاں، البتہ ڈاکٹرس اور فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرس کو اختیاری بوسٹر ڈوز کا حق ملنا چاہیے۔
بوسٹر ڈوز کے علاوہ بچوں کی ٹیکہ کاری اب بحث کا ایک نیا زاویہ ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ بچوں میں ٹیکہ کاری کا عمل نیا نہیں ہے۔ مختلف بیماریوں کے لیے بعض ملکوں میں پانچ بعض میں 13اور بعض میں 22ٹیکے بچوں کو دیے جاتے ہیں چنانچہ بچوں میں ٹیکہ کاری کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ ٹیکہ کاری 80تا 100سالوں سے جاری ہے اور اس میں بعض ٹیکہ 40تا 50سال پرانے ہیں لیکن کیا کورونا وائرس کے لیے بھی بچوں میں ٹیکہ کاری ہونا چاہیے۔
اس ضمن میں درج ذیل باتیں ذہن میں رہنی چاہیں۔
1۔ کورونا وائرس سے بچوں میں موت کی شرح صفر ہے۔
2۔ کورونا وائرس کے لیے تیار کردہ ویکسن صرف بالغ افراد میں ٹیسٹ کی گئی ہے۔
3۔ کورونا وائرس کے لیےMRNA پلیٹ فارم والی ویکسین اور دیگر ویکسین بالکل نئی ہیں۔
4۔ یہ بات اب تقریباً ثابت ہوچکی ہے کہ بچے کورونا وائرس سے ویسے متاثر نہیں ہوتے جیسے بڑے متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ وائرس کے پھیلانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ غیر علامتی (Asymptomatic) ہوتے ہیں۔
5۔ کئی ملکوں نے بچوں کے ٹیکہ کاری کے عمل کو مکمل کرلیا ہے
6۔ بچوں میں ٹیکہ کاری کے بغیر وائرس کے میزبان کی موجودگی ہمیشہ رہے گی جس کی وجہ سے نئے ویرینٹ بنیں گے اور وائرس کی لہریں آتی رہیں گی۔
اس مضمون میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کورونا وائرس کے بچوں میں ٹیکہ کاری کے عنوان سے تائیدی اور اختلافی بحثوں کا جائزہ لیا جائے لیکن اس ضمن میں ہمارا خیال ہے کہ:
1۔ بچوں میں ٹیکہ کاری ضروری ہے لیکن اسے لازمی نہ کیا جائے بلکہ عوام میں شعور کی بیداری کے لیے موثر کوششوں کو اور تیز کیا جائے۔
2۔ ان ممالک کے ڈیٹا کو عوام میں عام کیا جائے جو بچوں کی ٹیکہ کاری مکمل کرچکے ہوں اور یہ بتایا جائے کہ ان ممالک میں بچے ٹیکہ کاری کے بعد مکمل طور پر محفوظ ہیں اور کوئی ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) یا ری ایکشن نہیں آیا ہے۔
۔ نئے پلیٹ فارم پر مبنی کورونا ویکسین جیسے MRNA ویکسین جو بالکل نئی ہیں ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ ان کے لمبے عرصے میں ہونے والے اثرات پر ابھی خالص سائنسی ڈیٹا موجود نہیں ہے ۔ بڑے sample size کے سروے نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے مضر اثرات پر لمبے عرصے تک کا سائنسی جائزہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے MRNA ویکسین کے بجائے ان ویکسینس کو استعمال کیا جائے جو لمبے عرصے سے مزاحمتی سائنس میں جاری اصولوں کا لحاظ کرکے بنائی گئی ہیں۔ جیسے بھارت میں بنی کو ویکسین۔
اس بات کو دوبارہ زور دے کر کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ MRNA ویکسین اصولی اعتبار سے صحیح ہیں لیکن مزاحمتی سائنس اور Vaccinology میں صرف اصول کے اعتبار سے درست ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ میدان میں یعنی عوام الناس میں یا ٹارگٹ گروپ میں ایک لمبے عرصے تک ویکسین کے کیا اثرات رہے ہیں اس کا ڈیٹا ضروری ہوتا ہے۔
یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس حساب سے دیکھا جائے تو کووڈ-19 کی دوسری ویکسین کے لیے بھی لمبے عرصے کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ MRNA بالکل نیا پلیٹ فارم اور اصول ہے جبکہ کووڈ-19 کی دوسری ویکسین سے کووی شیلڈ یا کوویکسین یا دیگر، یہ سب دوسرے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے بنائی گئی ہیں۔ یہ پلیٹ فارم پچھلے 70تا 80سالوں سے استعمال شدہ ہے اور اس کے ذریعے اوراصولوں پر بنائی گئی ویکسین پر 70تا 80سالوں کا ڈیٹا موجود ہے اس لیے ان پلیٹ فارمس پر بنی کووڈ ویکسین بھی محفوظ ہیں۔
4۔ بچوں میں کوویڈ-19کی ویکسین کے سلسلے میں جاری سازشی نظریات کا نوٹس لینا چاہیے اور عوام میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے رجحان کو پروان چڑھانے کے لیے موثر قدم اٹھانے چاہئیں۔
5۔ اس ضمن میں رابرٹ میلون کے ویڈیو کا حوالہ دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو سازشی نظریات کے ماننے والے افراد بہت پھیلارہے ہیں۔ اگر بہ غور سنا جائے تو اس ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں کہ دوسری تمام ویکسین ٹھیک ہیں، انہوں نے خود ویکسین لی ہے لیکن وہ MRNA پلیٹ فارم والی ویکسین کے سخت خلاف ہیں۔ MRNA پلیٹ فارم پر بنی ویکسین بہت خطرناک یا مہلک ہے اور بچوں کے مختلف اعضا پر اثر انداز ہوتی ہے اور لمبے عرصے کے لیے خطرناک اثرات پیدا کرسکتی ہے یا کرے گی۔ ان صاحب کے علاوہ دوسرے تمام وائرولوجسٹ اور سائنسداں اصولی طور پر MRNA ویکسین کو درست مانتے ہیں اوراس کے سیفٹی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہیں، ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر نئی ٹکنالوجی پر بنی ویکسین کے سلسلے میں یہی ساری سازشی تھیوریز دہرائی جاتی ہیں اور ان کاانداز ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے:
1۔ کوئی ایک سائنسداں یا محقق جو اپنی فیلڈ کے ماہرین کے درمیان مشکوک یا متنازعہ ہوجاتا ہے اسکے آدھے ادھورے یا بعض صورتوں میں مکمل بیان کو پھیلانا، اسکے مقابلہ میں دیگرسائنسدانوں کو جو بڑی تعداد میں ہوتے ہیں اور کسی موضوع پر ان کا اتفاق رائے ہوتا ہے،انہیں غلط ٹھہرانا،اس اکثریت کو دواوں کی کمپنی کا ایجنٹ یا ایک عالمی سازشی گروپ کا حصہ بتانا ۔
2۔ نیم سائنسی معلومات کا استعمال کرنا جن میں صحیح معلومات سے غلط یا اپنے من پسند نتائج اخذ کرنا۔
3۔ سیفٹی ڈیٹا کی اپنے سازشی نقطہ نظر کے مطابق تشریح و توجیہ کرنا۔
4۔ سائڈ ایفیکٹ یا ری ایکشن کے اکا دکا واقعات کو خوب بڑھاچڑھا کر پیش کرنا اور اس حقیقت کو چھپانا کہ ایلوپیتھی نظام علاج میں ضمنی اثرات ایک معلوم اور تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
5۔ تمام موجودہ حقائق کو سازشی گروپ کی بالادستی کی وجہ سے گڑھے ہوئے حقائق (manufactured facts) کے درجے میں رکھنا۔
6۔ عوام کے ذہنی مشاکلہ میں موجود تصدیق کے فطری رجحان (Confirmation Bias) کا استحصال کرنا۔
7۔ حکومتوں، صحت سے متعلق تحقیق کرنے والے اداروں، صحت عامہ کے نظام اور اس سے جڑے اداروں پر مکمل غیر یقینی کی کیفیت بنائے رکھنا اور اس کے لیے ماحول سازی کرنا اور ان پر سے عوام کے یقین کو متزلزل کرنے کی شعوری کوشش کرنا۔ (یہاں یہ بات واضح رہے کہ حکومت اور یہ ادارے بھی بعض اوقات ایسے اقدمات کر گزرتے ہیں جو ان پر عوام کے یقین اور اعتماد کو کم یا ختم کردیتے ہیں)
ٹیکہ کاری، اومیکرون ویرینٹ کورونا وبا اور اس سے جڑے تمام اقدامات میں نکتہ نمبر 7 انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ مثلاً وبا کے پھیلاو کو لے کر حکومتوں کے لاک ڈاون کے اقدامات۔
ابتداء میں جب کووڈ-19کے سلسلے میں مکمل تالہ بندی (lock down ) کا تصور متعارف ہوا تو عوام انتہائی مشکلات میں پھنس گئے۔معاشی و سماجی نظام درہم برہم ہوگئے، شدید قسم کے معاشی بحران نے جنم لیا، ساری دنیا کے بیشتر ممالک کی GDP بری طرح متاثر ہوگئی۔ غرض ایک ماقبل اور مابعد کووڈ دنیا کے ظہور کی تھیوریاں وجود میں آگئیں۔ بعد کے دور میں یہ باقاعدہ ایک تحقیق کا موضوع بن گیا لیکن تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ تالہ بندی سے وائرس کے پھیلاو کو مکمل طور پر روکا نہیں جاسکتا بلکہ محض اس سے پھیلاو کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے تاکہ وبا سے نمٹنے کے لیے درکار ضروری طبی سہولیات مہیا کرانے کے لیے جو وقت درکار ہوتا ہے وہ مل جائے۔
اسی طرح تالہ بندی تدریجاً ہونی چاہیے یہ بھی تحقیقات سے ثابت ہوا اور تالہ بندی Localized ہونی چاہیے، یعنی جہاں پر وائرس سے متاثر افراد بہت زیادہ ہوں وہاں پر تالہ بندی نافذ کی جائے اور بقیہ مقامات کو کھلا رکھا جائے۔
لیکن عملاً صورتحال سائنسی تحقیقات میں بتائے گئے حقائق سے بالکل متضاد نظر آتی ہیں۔
اومیکرون کی خبر سنتے ہی جنوبی افریقہ سے سارے ہوائی رابطے منقطع کردیے گئے۔ ملکوں اور ریاستوں نے محدود تالہ بندی کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ اس سے بہت برا معاشی اثر ملکوں پر ہونے لگا حالانکہ پہلی اور دوسری لہر کے دوران سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس طرح سے ہوائی ناکہ بندی کا کوئی بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ دور رس معاشی اثرات ہوسکتے ہیں۔
یقیناً زمینی سطح پر سائنسی تحقیقات کو نافذ کرنے میں بے انتہا دشواریاں ہیں مثلاً عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا، عوام میں شعور کی کمی ہوتی ہے، ہر شخص کو قوانین کا پابند نہیں بنایا جاسکتا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی مشینری اور حکومتی افسروں کا غیر پیشہ ور ہونا، اپنے میدانوں میں درکار مہارت کا فقدان، سنجیدہ اور باشعور رویہ کا فقدان یہ سب عوامل بھی بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ کل ملا کر یہ ایک ایسی صورتحال کو جنم دیتے ہیں جس میں عوام اپنی حکومت کا، سائنسی اداروں کی تحقیق کا، سائنسدانوں کا اعتبار نہیں کرتے۔ سازشی تھیوریاں تیزی سے مقبول ہوتی ہیں اور عوام میں غیر ذمہ دارانہ رویوں کو جنم دیتی ہیں وبا سے نمٹنا مشکل تر ہوجاتا ہے اور ایک دائروی منفعت جنم لیتی ہے جس کے ہوتے ہوئے بے اعتمادی کی فضا بنتی ہے اور غیر ذمہ دارانہ رویوں سے وبا یا بیماری کا مزید پھیلاو ہوتا ہے اور پھر وبا کے انتظام اور روک تھام میں مزید بد نظمی ہوتی ہے اور اس بد نظمی سے سائنسی اداروں پر مزید بے اعتمادی بڑھتی ہے۔
کووڈ-19وبا اور اب اومیکرون کے دوران اس دائروی منفعت کا واضح مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ چنانچہ اومیکرون کا بگل بجتے ہی بہت ساری ریاستوں نے لاک ڈاون لگوادیے۔ ڈیڑھ سال بعد کھلنے والے اسکول بند کرادیے گئے حالانکہ یونیسیف کے چیف نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگرتالہ بندی کرنی ہی پڑے تو اسکولس اور کالج سب سے آخر میں بند کیے جائیں۔
اب جبکہ کووڈ-19 اور اس کے ویرینٹ کے متعلق ابتدائی ڈیٹا آنا شروع ہوگیا ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ردعمل کے بجائے ’ریسپانس‘ کی طرف تیز رفتار پیش قدمی کی جائے۔
مکمل تالہ بندی، مکمل ہوائی ناکہ بندی، یا نقل وحرکت پر یکسر پابندی وغیرہ جیسے اقدامات کے منفی اثرات زیادہ اور مثبت نتائج بہت کم ہیں۔
یہ بات اب تقریباً تسلیم شدہ ہے کہ ان تمام اقدامات سے لمبے عرصے میں معاشی، سماجی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے جو کافی دیرپا ثابت ہوں گے تو سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات کے تحت فریم ورک تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
1۔ ویرینٹ کا بننا ایک فطری عمل ہے۔ جب تک وائرس کو وافر مقدار میں میزبان ملتے رہیں گے یہ جاری و ساری رہے گا اس لیے میزبانوں کی دستیابی کو کم یا ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔
2۔ ٹیکہ کاری کے عمل کو تیز تر کیا جائے۔ سازشی نظریات کی بدولت ٹیکہ لینے میں ہچکچاہٹ روکنے کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جائیں۔
3۔ ٹیکہ لینے میں ہچکچاہٹ کے تمام پہلوؤں پر ملکی تناظر میں تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ سوشل انجینئرنگ کے مقامی ٹولس کو ارتقاء دیا جائے۔
4۔ بچوں کی ٹیکہ کاری کو نسبتاً اختیاری رکھا جائے عوام میں شعور پیدا کیا جائے اور بچوں کی ٹیکہ کاری کے سلسلے میں شفافیت (Transparency) کو لازم کیا جائے۔
5۔ MRNA ویکسین کے سلسلے میں محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔ بطور خاص بچوں میں انہی ویکسین کو استعمال کیا جائے جو لمبے عرصے سے چلے آرہے ویکسین پلیٹ فارم پر بنی ہوں۔
6۔ ماسک اور جسمانی دوری کے تعلق سے عوام میں ایک طرح کی بیزاری (Pandemic Fatigue) آچکی ہے اس ضمن میں نسبتاً لچکدار رویہ اختیار کیا جائے۔ قانونی لاعلمی کا غیر ضروری استعمال اور ’’فائن بہ شکل پیسہ‘‘ کے قانون کے بجائے ماسک اور سماجی دوری کے قوانین کی پابندی نہ کرنے والے افراد کے سلسلے میں تلافی کے فطری طریقے سوچے جائیں جیسے سماجی خدمت، ناخواندہ افراد کو پڑھانے کا ذمہ یا اسی طرح کے دیگر طریقے۔
7۔ ماسک اور جسمانی دوری کے سلسلے میں اب تقریباً تحقیقات سے یہ پتہ چل گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ان کے استعمال کرنے سے بہت سارے فائدے ہیں اور یہ فائدے بڑی تحقیقات سے بھی سامنے آچکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ماسک اور جسمانی دوری کے جو نقصانات گنوائے جاتے ہیں وہ نقصانات تحقیقات سے ثابت نہیں کیے جاسکے ہیں، اس لیے وبا کے مکمل خاتمے تک ماسک اور جسمانی دوری کو شعوری طور پر اور خود حرکی (Self Motivation) کے زیر اثر عمل میں لانا چاہیے۔ اس ضمن میں حکومت اور عوامی تنظیموں کو مل کر اس کا بیڑا اٹھانا چاہیے لیکن دونوں متشدد رویوں کی انتہاؤں سے پرہیز ہونا چاہیے۔
8۔ عوامی سطح پر اس بات کو مزید مشہور کرنا چاہیے کہ ویرینٹ آتے رہیں گے ان سے خوف کھانے کے بجائے ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو عوام میں نفوذ کروانا چاہیے کہ یہ ویرینٹ تشویش کی وجہ ہی رہیں اور اس سے آگے بڑھ کر خوف کی وجہ نہ بنیں۔ یہ بات عوام اور حکومت دونوں اپنے رویوں سے ثابت کریں کہ حکومتیں سیاسی مفادات کے لیے وبا کے سلسلے میں خوف اور سراسیمگی کو پھیلنے نہیں دیں گی۔ اسی طرح عوام نہ تو خوف زدہ ہوں اور نہ ہی خوف پھیلانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس ضمن میں موثر نظام تشکیل دیا جانا چاہیے۔
9۔ ویرینٹ اور وبا کے سلسلے میں غیر ضروری تناو، غیر ضروری اضطراب اور غیر ضروری معلومات سے پرہیز لازم ہے۔ تناو سے مزاحمتی نظام متاثر ہوتا ہے یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ اسی طرح سے غیر ضروری اور غلط اطلاعات سے اضطراب جنم لیتا ہے یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے، اس لیے ہر دو سے پرہیز لازم ہے۔ وبا کے اختتام کا انتظار کرنے کے بجائے وبا کے ساتھ زندہ رہنے والے رویہ کی طرف توجہ دی جائے۔
10۔ ثابت شدہ سائنسی حقائق کے خلاف سازشی نظریات پھیلانے والے ادارے اور افراد سے عوام ہوشیار رہیں۔ حکومتیں ان کا نوٹس لیں اور مناسب کارروائی کریں۔ عوام میں سازشی نظریات کے نفوذ کے عوامل پر تحقیق ہو اور ان کی روک تھام کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جائیں۔
اختتامیہ
وبائیں انسانی تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہیں۔ جدید دور میں معلومات کے انفجار اور دنیا کے عالمی گاوں بن جانے کی وجہ سے ان کے اثرات ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہو چکے ہیں لیکن بنیادی بات وہی ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے کہ وبائیں آتی ہیں نقصان پہنچاتی ہیں نئے امور، نئے انتظام، نئے ادارے، نئے نظام تشکیل دیتی ہیں اور تہذیب انسانی کے افق سے دھیرے دھیرے غائب ہوجاتی ہیں اور اپنے پیچھے بنی نوع انسانی کے ردعمل کو تاریخ نویسوں اور تاریخ دانوں کے لیے چھوڑ جاتی ہیں، اس سوال کے ساتھ کہ ہم کس عقلی رویے کے ساتھ کھڑے ہیں!
(مضمون نگار ڈیپارٹمنٹ آف مالیکیولر بیالوجی اینڈ جینیٹک انجینرنگ آرٹی ایم ناگپور یونیورسٹی مہاراشٹرا سے منسلک ہیں)
***

 

***

 مکمل تالہ بندی، مکمل ہوائی ناکہ بندی، یا نقل وحرکت پر یکسر پابندی وغیرہ جیسے اقدامات کے منفی اثرات زیادہ اور مثبت نتائج بہت کم ہیں۔۔ ویرینٹ کا بننا ایک فطری عمل ہے۔ جب تک وائرس کو وافر مقدار میں میزبان ملتے رہیں گے یہ جاری و ساری رہے گا اس لیے میزبانوں کی دستیابی کو کم یا ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022