اترپردیش میں ریزرویشن تحریک بحران سے دوچار

پسماندگی کے خاتمہ اور بیس فیصد مسلم آبادی کو بااثر بننے کے لیے منظم و طویل مدتی جدو جہد درکار

مشتاق عامر ، پریاگ راج ( الہ آباد )

یو پی میں جس طرح مسلم مخالف فرقہ پرست سیاسی قوتیں دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے مسلم ریزرویشن کا مطالبہ بظاہر ایک غیر دانشمندانہ قدم لگ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنے جمہوری اور آئینی حقوق سے دستبرداری اختیار کر لیں۔
اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بیس فی صد ہے ۔اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود مسلمان بعض دوسری ریاستوں کے مقابلے میں ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ سرکاری اور تعلیمی شعبہ جات میں مسلمانوں کے گرتے ہوئے تناسب اور معاشی بدحالی نے ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کو کئی سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد سے ہی یو پی میں سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب میں کمی آتی گئی۔ اعلیٰ و متوسط طبقے کے بیشتر خاندانوں کی پاکستان ہجرت وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کا سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی زوال ہونا شروع ہو گیا۔ تقسیم کے بعد یو پی میں دو دہائیوں تک سیاسی خلاء موجود رہا۔ 1967ء میں تشکیل پانے والی ریاست کی پہلی مسلم سیاسی جماعت مسلم مجلس نے سیاسی حقوق کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی۔ مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی ریاست کے پہلے سیاست داں ہیں جنہوں نے بڑی جرات کے ساتھ عوامی سطح پر مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانا شروع کیا۔ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ ملک کی تقسیم کا سب سے زیادہ اثر یو پی کے مسلمانوں پر پڑا ہے۔ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا فارمولا پیش کیا۔ 1971ء میں ڈاکٹر فریدی نے ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب کے اعداد و شمار کافی محنتوں سے جمع کیے۔ ان اعدادو شمار کو انہوں نے حکومت اور قومی پریس کے سامنے پیش کیا۔ ڈاکٹر فریدی کا موقف تھا کہ دستور ہند میں کمزور اور پس ماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کا بندو بست موجود ہے لہٰذا وہ تمام طبقات کو جو تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہیں، اس زمرے میں آنا چاہیے۔ ڈاکٹر فریدی کا کہنا تھا کہ چونکہ اس وقت یو پی کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہیں ایک خاص مدت کے لیے جب تک وہ سماج کے دوسرے طبقات کے مساوی نہ پہنچ جائیں اس زمرے میں شامل ہو جائیں تاکہ ان کی پسماندگی دور ہو سکے۔ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی پورے مسلم طبقے کو پسماندہ تصور تھے اور اسی بنیاد پر ملازمتوں میں نمائندگی کے خواہاں تھے۔ مسلم نمائندگی کے یہ مہم پورے یو پی میں چلائی گئی لیکن 19 مئی 1974ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ڈاکٹر فریدی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ اس وقت مسلم مجلس میں قیادت کے لیے دوسری صف موجود نہ تھی۔ڈاکٹر فریدی کی وفات کے ساتھ ہی مسلم مجلس زوال پزیر ہو گئی اور مسلم نمائندگی کی یہ تحریک بھی پس منظر میں چلی گئی۔ کافی عرصے بعد نوے کی دہائی میں تشکیل پانے والی آل انڈیا مسلم فورم نے ایک بار پھر مسلم ریزرویشن کا مسئلہ اٹھایا۔ مسلم فورم ایک نیم سیاسی جماعت تھی جو مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کے افراد پر مشتمل تھی۔ مسلم فورم کے سربراہ نہال الدین احمد تنظیم کے میٹنگوں میں تعلیمی اور معاشی بنیاد پر مسلمانوں کے ریزرویشن کا مطالبہ کرتے رہے لیکن مسلم فورم کی زیادہ ترسرگرمیاں لکھنؤ تک محدود تھیں۔ اس کے باوجود مسلم فورم یو پی کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل باشعور طبقے تک پہنچانے میں کامیاب رہی۔ فورم کے زیادہ تر جلسے سیمینار اور دانشوارنہ مباحثوں تک محدود رہے۔ چند برسوں بعد اس تنظیم نے بھی دم توڑ دیا۔ اب صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے۔ نومبر 2006ء میں کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت نے ملک کی مسلم کمیونٹی کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا پتہ لگانے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی۔ اسے عرف عام میں سچر کمیٹی کہا گیا۔ اس کمیٹی کے دیگر اراکین میں سید حامد، ڈاکٹر ٹی کے اومن، ایم اے باسط، ڈاکٹر راکیش بسنت، ڈاکٹر اختر مجید اور ڈاکٹر ابو صالح شریف شامل کیے گئے۔ جسٹس سچر کمیٹی نے ملک کے مسلمانوں کی مجموعی حالت پر حکومت کے سامنے ایک ضخیم رپورٹ پیش کی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی حالت پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا اور ان کی حالت دلتوں سے بھی بدتر بتائی۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ’’تقریباً تمام محکموں میں مسلمانوں کی حصہ داری بہت کم ہے جس سے ہندوستانی سماج اور نظام مملکت پر انجام کار مخالف اثرات پڑ سکتے ہیں۔ حاشیہ پر کھڑے کیے گئے ان بے اختیار لوگوں کی یا تو تعداد کم ہے جو عمومی طریقہ حکمرانی (Course of Governence میں موجودگی درج کرانے کی راہ میں حائل ہو رہی ہے یا پھر وہ سیاسی اعتبار سے با اختیار نہیں ہیں۔ ایک جمہوری نظام سیاست میں جو بالعموم ہمہ گیر حق رائے دہی پر مبنی ہوتا ہے، تعداد کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں اقلیتیں موثر نمائندگی اور سیاسی اہمیت سے محروم ہیں۔ ان واقعات و حالات کو بدلنے یا ان پر اثر انداز ہونے کے لیے جو ترقیاتی عمل ہیں ان کی با معنی اور فعال حصہ داری کوآسان اور ممکن بنا سکے اقلیتوں کو ضروری مواقع اور اثر و رسوخ حاصل نہیں لہٰذا ایک ایسا مکانزم پیش کرنے کی ضرورت ہے جو نظام سیاست اور حکومت میں مختلف سطحوں پر جمہوری عمل میں ان کی شرکت کو آسان بنا سکے۔ محض مادی تبدیلی سے اقلیتوں میں حقیقی امپاورمنٹ نہیں لایا جا سکتا۔ انہیں اجتماعی نمائندگی حاصل کرنے اور حکومت کو انہیں اجتماعی نمائندگی دینے کی ضرورت ہے ‘‘
(اقلیتی رپورٹ، راجندر سچر کمیٹی ، 2007،ص 113)
جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آنے کے بعد ایک بار پھر پورے ملک میں مسلم نمائندگی یا ریزر ویشن کے مسئلے پر بحث چھڑ گئی، خاص طور سے یو پی میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بیس فیصد ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود یہاں کے مسلمان سماجی، معاشی اور تعلیمی سطح پر دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔ اس رپورٹ نے یو پی کے سرکردہ مسلمانوں کو تشویش میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر مختلف حلقوں میں مسلم ریزرویشن موضوع بحث بن گیا۔ جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آنے کے چند مہینے بعد 5 ستمبر 2004 کو لکھنؤ میں مسلم ریزرویشن موومنٹ کی بنیاد پڑی۔بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر اور ماہر قانون ظفر یاب جیلانی کی پہل پر یو پی کے مسلم قائدین ایک جگہ جمع ہوئے جہاں مسلم ریزرویشن موومنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم ریزرویشن موومنٹ کا پہلا عوامی جلسہ لکھنؤ کے سہکارتا بھون میں منعقد کیا گیا۔ اس جلسے میں ظفر یاب جیلانی، شفیق الرحمان برق، ایڈووکیٹ عبد المنان، محمد سلیمان، ملک عظیم احمد خان اور جہانگیر عالم شامل ہوئے۔ ظفر یاب جیلانی کو مسلم ریزرویشن موومنٹ کا کنوینر منتخب کیا گیا۔ اجلاس میں مسلم ریزرویشن کے لیے صرف ایک نعرہ ’’ریزرویشن ہمارا آئینی حق ہے‘‘ دیا گیا۔مسلم ریزرویشن موونٹ کے جلسے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سیکولر اور ہم خیال سیاسی پارٹیوں پر مسلم ریزر ویشن کے لیے دباؤ بنایا جائے۔ جلسے میں مسلمانوں کے ریزرویشن کے آئینی اور قانونی امکانات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ مسلم ریزر ویشن موومنٹ کا تیسرا اجلاس 23 اکتوبر 2011ء کوممتاز پی جی کالج لکھنؤ میں ہوا۔ یو پی اسمبلی انتخابات سے پہلے ہونے والے اس اہم اجلاس نے ریاست کے سیاسی منظر نامے پر گہرا اثر ڈالا۔ خاص طور سے سماجوادی پارٹی پر مسلمانوں کے ریزر ویشن کو یقینی بنانے کے لیے زور ڈالا گیا۔ انتخابات جیتنے کے لیے سماجوادی پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی سخت ضرورت تھی۔ پارٹی نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم ریزر ویشن کو لاگو کرے گی۔ اس الیکشن میں سماجوادی پارٹی کو شاندار کامیابی ملی۔ اکھلیش یادو پہلی بار یو پی کے ویزر اعلیٰ بنے۔ اکھلیش یادؤ حکومت نے ظفر یاب جیلانی کو یو پی کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا۔ چونکہ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادؤ نے مسلم ریزرویشن موومنٹ سے وابستہ لیڈروں سے ریزرویشن لاگو کرنے کا عدوہ کیا تھا اس لیے حکومت بننے کے بعد مسلم ریزرویشن موومنٹ کی سرگرمیوں کو عملاً معطل کر دیا گیا، لیکن سماجوادی پارٹی نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ 2017ء میں یو پی میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور یوگی آدتیہ ناتھ کے سی ایم بننے کے بعد یو پی کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل گیا۔ نئے سیاسی منظر نامے سے مسلم ریزرویشن کا ایشو ہی غائب ہو گیا ۔ 17 مئی2023 کو ظفریاب جیلانی نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ ان کی وفات کے بعد مسلم ریزرویشن موومنٹ کا مستقبل غیر یقینی بن گیا ہے۔ یو پی میں مسلم مخالف سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے فی الحال مسلم ریزرویشن موومنٹ سے وابستہ کوئی بھی لیڈر سامنے آنے کو تیار نہیں ہے۔ یو پی میں مسلمانوں کو ریزرویشن دلانے کی کوششیں قانونی سطح پر بھی کی گئیں۔ سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’ایسوسی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس‘‘ نے 2016ء میں الہ آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست داخل کی۔ اپنی درخواست میں تنظیم نے ہائی کورٹ سے گزارش کی تھی کہ جس طرح ایس سی زمرے میں بودھوں اور سکھوں کو ریزرویشن دیا جاتا ہے اسی بنیاد پر معاشی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ مسلمانوں کو بھی ریزر ویشن دیا جائے۔ تنظیم نے عدالت کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ عدالت اس سلسلے میں ریاستی حکومت کو اپنی ہدایات جاری کرے۔ 14 جولائی 2016 کو جسٹس وی کے شکلا اور جسٹس ایم سی ترپاٹھی کی بنچ نے سماعت کے بعد درخواست خارج کر دی۔ عدالت نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کا ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا، یہ آئین کے رہنما اصولوں خلاف ہے۔ عدالت نے مسلم ریزر ویشن کے سلسلے میں یو پی حکومت کو کسی
طرح کا حکم جاری کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ مسلم ریزرویشن کی قانونی حیثیت پر بات کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل سید فرمان احمد نقوی کا کہنا ہے کہ یو پی میں مسلم ریزرویشن ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کو اسی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلم ریزرویشن کے تعلق سے ریاستی حکومت جب تک کوئی قانون نہیں بناتی اس وقت تک عدالتی سطح پر کامیابی ملنا مشکل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ ان کا مشورہ ہے کہ اس کے لیے مسلمانوں کو متحد ہوکر سیاسی دباؤ بنانا چاہیے۔ یو پی میں مسلم نمائندگی کی پہلی آواز بلند کرنے والی مسلم مجلس کے موجودہ صدر یوسف حبیب کا کہنا ہے کہ مسلم مجلس نے اس مسئلے کوہمیشہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یوسف حبیب کا کہنا ہے کہ میں نے 2012ء میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران اکھلیش یادو اور شیو پال یادو بھی موجود تھے۔

اس میٹنگ میں نے مسلمانوں کے لیے 8.44 فیصد ریزر ویشن کا مطالبہ کیا تھا۔ یوسف حبیب کا کہنا ہے کہ اس موقع پر ریزرویشن کے طریقہ کار پر بھی کافی تفصیل سے گفتگو ہوئی تھی۔ ملائم سنگھ نے اصولی طور پر مسلم ریزرویشن لاگو کرنے کا بھروسا دلایا تھا لیکن اس کاکوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا۔ یوسف حبیب کا کہنا ہے کہ شارٹ کٹ سیاست سے مسلم ریزرویشن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت یو پی میں جس طرح کے حالات ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مسلم ریزرویشن کے مطالبے کو مؤخر کر دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال مسلمانوں کو تعلیم، روزگار اور کردار کی مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے۔
ملی تنظیم ’’عصر فاؤنڈیشن‘‘ کے صدر شبیر شوکت عابدی مسلم ریزر ویشن کے لیے سیاسی دباؤ کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یو پی میں مسلم ریزر ویشن ایک حساس سیاسی مسئلہ ہے۔ سیکولر پارٹیاں اس مسئلے پر کھل کر سامنے نہیں آئیں گی۔ ایسی صورت میں سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بنانے کی ضرورت ہے۔ شبیر شوکت عابدی کا کہنا ہے کہ جب تک متحد ہوکر اس کے لیے آواز نہیں اٹھائی جائے گی، کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ یو پی میں سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹ توحاصل کر رہی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ریزرویشن کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مسلم ریزرویشن کے لیے تمام مسلم تنظیموں کو مل بیٹھ کر حکمت عملی بنانی ہوگی۔
یو پی میں جس طرح مسلم مخالف فرقہ پرست سیاسی قوتیں دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مسلم ریزرویشن کا مطالبہ بظاہر ایک غیر دانشمندانہ قدم لگ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنے جمہوری اور آئینی حقوق سے دستبرداری اختیار کر لیں۔ مسلم ریزرویشن کے معاملے میں کرناٹک اور کیرالا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دراصل یو پی میں مسلم ریزرویشن ایشو کو جس سیاسی اعتماد اور ثابت قدمی کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے تھا اس طرح ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔ یو پی میں مسلم آبادی کا تناسب بھلے ہی بیس فیصد ہو لیکن قیادت کا فقدان اور سیاسی بے وزنی نے مسائل کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ کہنے کو تو یو پی میں کئی مسلم سیاسی پارٹیاں موجود ہیں لیکن یہ پارٹیاں ابھی تک ریاست کے مسلم طبقے کا اعتماد نہیں حاصل کر پائی ہیں۔ اتنی بڑی آبادی سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے کافی پچھڑی ہوئی ہے۔ یو پی میں مسلم ریزرویشن کے حصول کے لیے ایک منظم، طویل المدت اور نتیجہ خیز جدو جہد کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار نیوز 18کے سابق چیف رپورٹر ہیں )
[email protected]
***

 

***

 دراصل یو پی میں مسلم ریزرویشن کے مسئلہ کو جس سیاسی اعتماد اور ثابت قدمی کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے تھا اس طرح ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔ یو پی میں مسلم آبادی کا تناسب بھلے ہی بیس فیصد ہو لیکن قیادت کا فقدان اور سیاسی بے وزنی نے مسائل کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023