گھٹتی غربت، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

ملک کی بیس فیصد آبادی ہنوز خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

نیتی آیوگ نے کثیر جہتی غربت اشاریے (Multidimensional Poverty Index) کے تعلق سے 2015 اور 2019 کے درمیان ملنے والی رپورٹ کو بہت ہی تشفی بخش بتایا ہے کیونکہ اس مدت میں نہ صرف 135 کروڑ لوگ خط افلاس سے اوپر آئے ہیں بلکہ بیمار کہی جانے والی ریاستوں میں بہار، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش وغیرہ نے بہت اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ 2015-16سے قبل 24.9 فیصد لوگ ایم پی آئی کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے مگر 2019-20 میں یہ اعداد و شمار کم ہوکر پندرہ فیصد رہ گئے۔ اب تو اس رپورٹ کی مطابقت میں یو این ڈی پی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے مطالعہ میں بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں تقریباً 41.5 کروڑ لوگوں کو کثیر جہتی غربت سے نجات دلانے میں ہمارے ملک نے بہتری کا مظاہرہ کیا ہے۔ نیتی آیوگ کے اشاریے میں یو این ڈی پی کے پیمانوں کے ساتھ مزید دو پیمانوں کو منسلک کیا گیا ہے، اس میں بینک کھاتوں کا رکھ رکھاو اور صحت مادی کو شامل کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حاشیے پر پڑے ہوئے غربا کو معیشت میں نمو کا فائدہ مل رہا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعہ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں ’اکانومک لبرلائزیشن‘ کی وجہ سے بھارتی معیشت میں بڑی تیزی سے اچھال آیا تھا جس کا فائدہ اب نظر آنے لگا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی بیس فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو خاصی بڑی تعداد ہے۔ نیتی آیوگ نے پانچ سالوں کے درمیان غربت سے نجات پانے والوں کے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں اسے سامنے رکھ کر بقیہ آبادی کو اوپر اٹھانے میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی، مگر یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ہمارے یہاں سماجی اور معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ پھر بھی ایک فلاحی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کو خط افلاس سے اوپر لا کر انہیں بھکمری سے نجات دلائے جو ایک مشکل امر ہے جس میں کافی چیلنجس ہیں کیونکہ ریاستی حکومتوں کو اپنے معاشی توازن کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ ریوڑی کے منصوبوں کا فائدہ نچلی سطح کے متوسط طبقہ اور غریبوں کو کچھ حد تک ضرور ہوتا ہے جبکہ اس کا فائدہ مستحقین تک پہنچنا چاہیے۔ سیاست وہی سود مند ہوتی ہے جس میں لوگوں کے بہتر مستقبل کا بھی خیال رکھا جائے اور اس تسلسل کو مخالف قوتیں بھی بآسانی ختم نہ پائیں۔ فی الحال فلاحی کاموں کے نام پر ریوڑی کی تقسیم کا دور چل رہا ہے جو ریاستی حکومت کے معاشی توازن کو مشکل میں ڈال رہا ہے جبکہ نیتی آیوگ اور مالیاتی آیوگ اس تعلق سے برابر متنبہ کرتا رہا ہے۔ غربت کا خاتمہ تو ایک بڑا ہدف ہے جس میں کامیابی ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں شامل کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں یہ خیال رہے کہ جن لوگوں کو حاشیہ سے اٹھا کر اوپر لایا گیا ہے وہ پھر لڑھک کر اپنے سابقہ حالت میں نہ پہنچ جائیں۔ مفت اناج کی تقسیم یا ریوڑی دینے سے ہم بھوک اور غربت کے اعداد و شمار کو بہتر تو کر پائیں گے مگر معیاری تعلیم اور بہتر صحت تک سبھی طبقوں کی رسائی ممکن نہیں ہو پائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں آنے کے لیے اپنی کامیابی کو مستقل اور پائیدار بنانا ہوگا اور ملک سے سماجی و معاشی نا برابری کو دور کرنا بھی ضروری ہوگا۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ جب نیتی آیوگ نے غربت کے متعلق اعداد و شمار پیش کیے ہیں تو اس میں آمدنی کو بنیاد ماننے کے بجائے مختلف طرح کے پیمانے جس میں تعلیم، صحت اور زندگی کے مختلف شعبوں کا تقابل آیا ہے۔ مثلاً تغذیہ، صفائی، پکوان گیس سلنڈر وغیرہ کی دستیابی کی بنیاد پر کثیر جہتی اشاریے کی تیاری ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ اعداد و شمار نیشنل فیملی ہیلتھ سروے NFHS-4 جس کی اشاعت 2015-16 میں ہوئی ہے اس کے بعد NFHS-5 کے 2019-20 کے اعداد و شمار بھی داخل کیے گئے ہیں۔ یہ سروے دراصل صحت عامہ کا سروے ہے۔ نیتی آیوگ نے ممکنہ طور پر ان پیمانوں کو سامنے رکھ کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کی پیمائش کے طریقوں کو سامنے رکھ کر اس رپورٹ کو شائع کیا ہے۔ ازالہ غربت کے نسبت سے نیتی آیوگ کی رپورٹ کا تجزیہ کرتے وقت خیال رکھنا ہوگا کہ کیا واقعی ملک کی جی ڈی پی میں مسلسل بہتری ہو رہی ہے جس کا اثر سماج کے نچلے طبقے پر بھی کچھ ہوا ہے؟ کیونکہ مالدار لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو وہ رقم آہستہ آہستہ نچلی سطح تک بھی پہنچتی ہے۔ یاد رہے کہ غربت اور معاشی عدم مساوات دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ غربت کی پیمائش یومیہ دو ڈالر کی آمدنی کے حساب سے لگائی جائے تو ایسے کنبہ کی آمدنی بہت زیادہ نہیں کہلائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ جی ڈی پی کی نمو کے ساتھ غربا اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کی آمدنی کا تناسب اس حساب سے نہیں بڑھ رہا ہے۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر سماج کے اعلیٰ طبقوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ادنی طبقے کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے معاشی نا برابری کا چیلنج برقرار رہتا ہے۔ آج کل خوب زور و شور سے بھارت کی ایک بڑی معاشی قوت بننے کا چرچا ہو رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ 2027 تک ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے، اور اس بڑے ہدف کے ساتھ ساتھ ملک سے انتہائی غربت کے خاتمے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ یہ دونوں خیالات ایک دوسرے کے ضد ہیں۔ جب ہمارا ملک معیشت میں بہتری کا مظاہرہ کر رہا ہے تو سماج کے حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کی آمدنی میں معمولی اضافہ کو بڑی یافت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ مثلاً اس طبقہ کی آمدنی پچیس روپے سے بڑھ کر پینتیس یا پینتالیس روپے ہو جائے تو ان کی آمدنی کو دوگنا دکھا کر اچھلنا اچھی بات نہیں ہے۔ نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت اشاریے میں افاقہ کی رپورٹ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ حکومت کے ذریعہ جاری کردہ فلاحی کاموں کا فائدہ غریب عوام تک پہنچ رہا ہے اس لیے کہ حکومت کی کوششوں سے ملک میں جل جیون، صفائی، اجولا اور تغذیہ جیسے مہمات کا غربت کے خاتمے میں اہم کردار رہا ہے۔ اس ضمن میں آئی یم ایف نے پردھان منتری غریب یوجنا کو بھی سراہا ہے کیونکہ خوراک پر حکومت کے ذریعہ دی جانے والی سبسیڈی سے غریبوں کو فائدہ ہوا ہے۔ اس سے تھوڑی سی ہی سہی غربت میں کمی ہوئی ہے اور کم از کم پچیس فیصد آبادی کی ایک طرح سے بالواسطہ مدد ہوئی ہے۔
دوسری طرف غربت میں کمی کی نسبت نیتی آیوگ کا دعویٰ پانچویں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) 2019-20 کے علی الرغم دکھائی پڑتا ہے جس میں کم عمر بچوں میں غدائی قلت کی تشویشناک تصویر سامنے آئی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے پینتیس فیصد بچے غدائی قلت کے زد میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی نشوو نما بہت کم ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ گلوبل ہینگر انڈیکس (GHI) 2022 کے مطابق بھارت 121 ممالک میں 107ویں مقام پر ہے۔ کثیر جہتی غربت انڈیکس کے اعداد و شمار مذکورہ انڈیکس سے بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں مہنگائی اور افراط زر نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے تو غربا کا کیا حال ہو گا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں خوردنی اشیا کی خریداری میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک کے 135 کروڑ لوگوں کو خط افلاس سے نکالنے کا دعویٰ حقیقت نہیں ہے بلکہ فسانہ ہے۔ عوام جب زمینی حقیقت کو دیکھتے ہیں تو نیتی آیوگ کے اعداد و شمار انہیں سراب ہی نظر آتے ہیں۔ ویسے ہمارے ملک میں اعداد و شمار کی بازی گری بہت پرانا کھیل ہے۔
***

 

***

 لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے انہیں خوردنی اشیا کی خریداری میں کافی مشکلات کا سامنا ہے اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک کے 135 کروڑ لوگوں کو خط افلاس سے نکالنے کا دعویٰ حقیقت نہیں بلکہ فسانہ ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023