از ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی ندوی
فن لغت اور علم بلاغت کی کتابوں میں تلمیح کی تعریف مختلف الفاظ میں کی گئی ہے۔ کوئی تلمیح کو محض کسی قصہ کا اشارہ قرار دیتا ہے کوئی محض حوالہ کہتا ہے کوئی تاریخی واقعات کی قید کا اضافہ کرتا ہے تو کوئی تلمیح کومحض مشہورات عوام تک محدود رکھتا ہے۔ کسی نے تلمیح کی تعریف میں علمی اصطلاحات و مسائل کو بھی شمار کر لیا ہے کسی نے ضرب الامثال، محاورات اور آیات و احادیث کو بھی تلمیح کے دائرہ میں شامل کیا ہے۔ غرض کوئی ایک مستقل جامع وسیع و مکمل تعریف نہیں ملتی اور ایسی تعریف کی ضرورت کا احساس ابھرتا ہے جو جامع وسیع مکمل اور تسلی بخش ہو اور شعراء کے تمام استعمالات پر مشتمل ہو۔
تلمیح کی تعریف میں یہ اختلاف در اصل اس سبب سے پیدا ہوا کہ شعرا نےپہلے پہل صرف تاریخی واقعات کو شعر کی معنوی قوت کے لیے استعمال کیا تو تلمیح کی تعریف میں ’’تاریخ‘‘ کی قید ضروری قرار دے دی گئی۔ پھر علم نجوم ،موسیقی ،طب و سائنس کی اصطلاحات کو بھی بعض معانی کی ادائیگی کے لیے شعر میں استعمال کیا جانے لگا چنانچہ ان کا بھی اضافہ ہو گیا ۔اس طرح آیات و احادیث اور فلسفہ تصوف بھی تلمیح کی تعریف میں شامل کر لیا گیا غرض شعراء و ادباء کے استعمالات سے تلمیح کی تعریف تغیر و تبدیلی کا شکار ہوتی رہی کیونکہ شعرا علم لغت و بلاغت کے اصولوں کے تحت شعر نہیں کہاکرتے، بلکہ شاعری کا وجود پہلے ہے اور لغت و بلاغت کے اصول وقواعد کی ترتیب بعد کی چیز ہے ۔خاص طور سے اردو شاعری کے اصول وضوابط اور فصاحت و بلاغت کے قواعدو معیارات نیز تنقید وتحقیق کے قوانین تو بہت بعد میں مرتب کیے گئے اس لیے تلمیح کی تعریف میں تعارض و اختلاف اور تضاد ناگزیر تھا اور یہی اختلاف زبان وادب کے تدریجی ارتقاء کا آئینہ داربھی ہے۔ لیکن اب جبکہ عرصہ ہوا اردوزبان وادب کا عبوری دور گزرچکا۔ فن لغت اور علم بلاغت کے اصول وضوابط منضبط کیے جاچکے اور شعراء وادباء کے کلام کو انہیں اصولوں کی روشنی میں جانچا اور پر کھا جانے لگا۔ اب شاعر کا کلام معیارفصاحت و بلاغت نہیں رہا بلکہ کلام کا فصاحت و بلاغت کے اصول کے مطابق ہونا ضروری ہو گیا ہے اور ہمارے پاس کئی سو سال کی شاعری کا سرمایہ بھی محفوظ ہے لہذا اب تلمیح کی ایسی تعریف کا تعین ضروری ہے جو شعراء کے تمام استعمالات کا احاطہ کر سکے اور اس کے مشمولات میں ہمہ اقسام تلمیحی اشارات سما سکیں جو جامع کامل اور وسیع تر ہو اور تلمیح کا دائرہ’’ مشہورات‘‘ اور ’’تاریخی‘‘ کی حدود و قیود سے آزاد ہوکر زبان وادب اور شعر وسخن کے وسیع آفاق روشن کر سکے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فن لغت اور علم بلاغت و معانی کی پیش کردہ تعریفات کا جائزہ لیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں تلمیح کی تعریف پر از سرنو غور کیا جا سکے۔ اردو کی مختلف لغات میں تلمیح کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
1) نوراللغات: تلمیح ( ع ) مؤنث علم بیان کی اصطلاح کلام میں کسی قصہ کی طرف اشارہ کرنا۔
(۲) فیروزاللغات: تلمیح علم بیان کی اصطلاح میں کسی قصہ وغیرہ کا کلام میں اشارہ کرنا۔
(۳) معیاراللغات:تلمیح وہ صنعت ہے کہ کلام مشتمل ہو کسی قصہ معروف یا کسی مضمون مشہور پر ۔
(۴) مہذب اللغات: تلمیح کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایک صنعت کا نام ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں کسی مشہور مسئلہ یا کسی مثل یا با اصطلاح نجوم وغیرہ کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے اور بے سمجھے اس کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے ۔
(۵) جامع اللغات:کسی چیز کی طرف سبک نگاہ سے دیکھنااور اپنے کلام کو آیات و احادیث سے ثابت کرنا ۔
لفظ تلمیح کا عربی ہونا۔
تقریبا سارے اہل لغت نے تلمیح کو لفظا عربی گردانا ہے اور اصلا یہ عربی ہے بھی لیکن عربی میں تلمیح کا جو اصل مادہ ہے ل+ م + ح = لمح۔ تلمیح کی تعریف متعین کرتے وقت اس کے اصل جوہر کا خیال نہیں رکھا گیا۔ عربی میں لمح کے معنی ہیں نگاہ اٹھنا چمک جانا روشن ہونا وغیرہ ہے ۔تلمیح میں ان تمام معانی کا عکس جھلکتا ہے اس پس منظر میں جو لفظ تلمیح کی اصل حقیقت جوہری معنی ہیں۔
ہم اصطلاحی معانی پر غور کریں تو تلمیح کی اصل بھی یہی ہے، شاعر کوئی ایک لفظ یا اشارہ ایسا استعمال کرتا ہے جس سے ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوتا ہے۔بجلی سی چمک جاتی ہے اور واقعہ روشن ہو جاتا ہے اور وہ تمام معانی بھی جگمگا اٹھتے ہیں جو شاعر کا مقصود ہوتے ہیں وہ خیال جھلملانے لگتا ہے جسے شاعر سے ادا کرنا چاہتا ہے۔ تلمیحی اشارہ میں شاعر پہلے واقعے کو روشن کرتا ہے پھر اسی سے خیال کومنور کر کے تلمیح تراشتا ہے جس کے سہارے معانی کی ترسیل اور خیال کا ابلاغ مکمل ہوتا ہے ۔شاعر کا مقصد بھی فی نفسہ وہی واقعہ یاد دلانا ہوتا ہے اور بھی اس واقعہ کے پس منظر کو جگمگا کر مطلوبہ معانی کی طرف ذہن کو منتقل کرنا ہوتا ہے اس اعتبار سے تلمیح ایک قسم کا سرپرائز ہے، سپینس ہے، طلسم ہوشربا ہے، علاء الدین کا چراغ ہے، جس سے پلک جھپکتے میں مفہوم و معانی کے خزانے روشن ہو جاتے ہیں اور یہ سارا کرشمہ ہے لفظ تلمیح کی اصل ’’لمح ‘‘ کا جو تلمیح میں قلب کی طرح پیوست، خون کی طرح متحرک اور روح کی طرح جاری وساری ہے اسی لیے تلمیح کی تعریف میں ان خاص معافی کا لحاظ ضروری ہے جو اس کے اصل عربی مادہ کا تقاضا ہے اور یہی معانی براہ راست مراد لیے جاتے ہیں اور لیے جانا چاہیے۔ بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق نے تلمیح کے معانی لکھے ہیں اشارہ، کنایہ اور تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے پُر کنایہ یا کنایہ آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے جو اردو کے اولین نقادوں میں ہیں بڑی وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ کسی واقعہ یا قصہ کی طرف محض اشارہ کرنے کا نام تلمیح نہیں ہے بلکہ کسی قصہ طلب واقعہ سے مضمون پیدا کرنے کا نام تلمیح ہے ۔ لہذا لفظ تلمیح کے اس عربی پس منظر اور انہیں دونوں بزرگ ادیب و نقادوں کی بیان کردہ وضاحتوں کی بنیاد پر تلمیح کی جدید تعریف کچھ اس طرح روشن ہوتی نظر آتی ہے۔ تلمیح وہ انداز کلام ہے جس میں کسی خیال کی ادائیگی کے لیے لطیف انداز میں کسی واقعے، قصے، داستان، مثلا، اصطلاح یا آیات و احادیث سے کوئی مرکب تعبیر اخذ کی گئی ہو یا کوئی لفظ تراشا گیا ہو یا شعر (کلام) کا مجموعی مفہوم ہی اس نوعیت کا ہو کہ ذہن کوکسی واقعے قصے داستان مشکل اصطلاح یا آیت احدیث کی طرف منتقل کر دے۔ یہ ضروری نہیں کہ کلام میں اشارہ لفظا موجود ہو بلکہ معانی ومفہوم کے اعتبار سے بھی اگر اشارہ پایا جاتا ہے تو ایسے کلام کو بھی شمار کیا جائے گا بلکہ یہ زیادہ لطیف و بلیغ تلمیح ہوگی کیونکہ اس میں استعارہ کی شان پیدا ہو جائے گی مثلا
پتھر اُبالتی رہی اک ماں تمام رات
بچے فریب کھا کے چٹائی پر سوگئے
اس شعر میں ماں کا تمام رات پتھر ابالنا تاریخی واقعہ سے استفادہ ہے اور یہی تلمیح کی بنیاد ہے۔
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانہ ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
ہاتھ اس کا وہی خدا کا ہاتھ
بات اس کی کلام ربانی
ہماری بیان کردہ تلمیح کی مذکورہ تعریف میں’’ تاریخی‘‘ اور’’ مشہور ‘‘یا ’’معروف‘‘ کی کوئی قید نہیں ہے تاکہ تلمیح کا دامن تنگ نہ ہو اس کی وسعت و بے کرانی بر قرار ہے اور تلمیح کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو اور زبان وادب کے ایوان میں تلمیح کے نئے نئے چراغ روشن ہوتے رہیں۔مندرجہ ذیل اشعار میں تلمیح استعارہ کی شکل میں موجود ہے اور بڑی دقیق ولطیف تلمیحات ہیں:
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
(نوازدیوبندی)
وطن کی ریت مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
(بشیر بدر)
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
(اقبال)
پھر پیرہن کے ہوتے ہیں ٹکڑے برنگ گل
پھر مجھے کو آگئی کسی گل پیرہن کی یاد
(مومن)
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
(غالب)
یہ اور اس قسم کے تلمیحی اشعار کے لیے اگر ہم استعاراتی تلمیح یا تلمیح استعارہ کی قسم مان لیں تو ہم سمجھتے ہی کہ یہ تلمیح کی شناخت اور اس کی توسیع و تعین کا ایک اہم قدم ہو گا اور اس کی ضرورت بھی ہے۔
تلمیح کے سلسلہ میں مطالعہ اور تلاش و تحقیق کے دوران صنعت تلمیح سے متعلق علمائے فن معانی و ماہرین فن بلاغت کی کوئی فنی تقسیم یا تشریح و تحلیل اور تلمیح کی ادبی اہمیت و حیثیت اور اس کے مقام و مرتبہ کی تعیین کی کوئی مستقل ومکمل تفصیلی بحث نظر نہیں آئی، جس سے بڑی مایوسی اور حیرت بھی ہوئی۔ صرف ایک نام وحید الدین سلیم کا ملتا ہے جنہوں نے "افادات سلیم” میں کچھ تفصیل لکھی ہے جس کی حیثیت ابتدائی خطوط و نقوش کی ہے اور اس کے بھی تنقیدی جائزے کی ضرورت ہے۔ مصاحب علی صدیقی نے بھی اس کا شکوہ کیا ہے اور بڑی حد تک خود انہوں نے اپنی کتاب ’’اردو ادب میں تلمیحات‘‘ میں قدرے تفصیلی بحث کی ہے اور تلمیح کے موضوع پر قابل قدر اور اہم مواد جمع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی یہ کوشش بھی متقدمین کی بیان کردہ محدود تعریفات اور شرائط و قیود کی پابند ہے البتہ انہوں نے دیگر لوگوں کی طرح تلمیحات کی فرہنگ سازی کے بجائے براہ راست تلمیح کا ادبی جائزہ لیا ہے اور خاصا مواد جمع کر دیا ہے۔ ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی کے بعد ہمارا یہ معروضی جائزہ اسی سلسلہ کی دوسری پیش رفت ہے جس سے ضرورت کا احساس بیدار ہوتا ہے اور ہم نقادان فن، علماء بلاغت و معانی اور اہل ادب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس سمت میں کوئی قدم اٹھانے کی زحمت فرما کر اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کریں گے۔
(نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی کتاب اردو شاعری میں اسلامی تلمیحات سے لیا گیا ہے)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022