یو پی ایس سی کے حالیہ نتائج ہمت افزا ۔مزید ترقی کی ضرورت
متعصب گروہوں کا پروپیگنڈا فاش۔مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کی حقیقت
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
لوک سبھا انتخابات 2024کے نتائج ملک کا مستقبل طے کریں گے
یونین پبلک سرویس کمیشن (یو پی ایس سی) ہندوستان کا ایک آئینی ادارہ ہے جو آل انڈیا سرویسز اور سنٹرل سیول سرویسز (گروپ اے اور بی) میں امتحانات کے ذریعے افسروں کی براہ راست مختلف اداروں میں تقرری کرتا ہے۔ ایجنسی کا چارٹر ہندوستان کے آئین کے حصہ XIV میں دیا گیا ہے، جس کا عنوان یونین اور ریاستوں کے تحت خدمات ہے ۔یونین اور آل انڈیا سرویسز کی خدمات پر تقرریوں کے لیے کمیشن کو آئین کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تقرری، تبادلے، پروموشن اور تادیبی معاملات سے متعلق حکومت سے مشورہ کرنا بھی لازمی ہے۔ کمیشن براہ راست صدر کو رپورٹ کرتا ہے۔ کمیشن، صدر کے ذریعے حکومت کو مشورہ دے سکتا ہے۔ ایک آئینی اتھارٹی ہونے کے ناطے، UPSC ان چند اداروں میں شامل ہے جو ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور حال ہی میں الیکشن کمیشن کے ساتھ خود مختاری اور آزادی دونوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ہندوستان میں یکم اکتوبر 1926 کو پبلک سرویس کمیشن قائم کیا گیا تھا جسے بعد میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے ذریعہ فیڈرل پبلک سرویس کمیشن کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت نے 1923 میں لارڈ لی آف فریہم (Lord Lee of Fareham) کی سربراہی میں ہندوستان میں اعلیٰ سیول سرویسز پر رائل کمیشن قائم کیا تھا۔ ہندوستانی اور برطانوی اراکین کی برابر تعداد کے ساتھ کمیشن نے 1924 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں ایک پبلک سرویس کمیشن کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔ لی کمیشن (Lee Commission) نے تجویز پیش کی کہ مستقبل میں داخل ہونے والوں میں سے 40 فیصد برطانوی اور 40 فیصد ہندوستانیوں کو براہ راست بھرتی کیا جائے، اور 20 فیصد ہندوستانیوں کو صوبائی خدمات سے ترقی دی جائے۔اس کے نتیجے میں یکم اکتوبر 1926 کو سر راس بارکر (Sir Ross Barker) کی سربراہی میں پہلے پبلک سرویس کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ پبلک سرویس کمیشن کو محض ایک محدود مشاورتی تقریب کی اجازت دی گئی اور تحریک آزادی کے رہنماؤں نے اس پہلو پر مسلسل زور دیا، جس کے نتیجے میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ فیڈرل پبلک سرویس کمیشن آزادی کے بعد یونین پبلک سرویس کمیشن بن گیا جسے 26؍ جنوری 1950 کو ہندوستان کے آئین کے تحت آئینی حیثیت دی گئی۔
یونین پبلک سرویس کمیشن میں علاقائی زبانوں میں امتحانات کا مسئلہ :
انگریزوں کے دور حکومت میں 1922 سے پہلے سیول سرویسز امتحانات برٹش سیول سرویس کمیشن کے ذریعہ انگلینڈ میں منعقد کیے جاتے تھے۔ 1922 میں پہلی مرتبہ پبلک سروس کمیشن انڈیا کے ذریعہ ہندوستان میں امتحانات منعقد کیے گئے۔ آزادی کے بعد 1950 میں UPSC کا قیام عمل میں آیا اور 1976 میں کوٹھاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق تین مرحلوں میں امتحانات منعقد کیے جانے لگے۔۱)Prelims (۲)Mains(۳Interview۔آزادی کے بعد دستور کی دفعہ 343 کے تحت زبانوں کا مسئلہ سامنے آیا۔ 1960 میں لسانی سیاست اپنے عروج پر تھی۔ اس سیاست کے جو دیر پا اثرات ہندوستان پر مرتب ہوئے اس کے نتیجے میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہندوستان میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ ریاستی زبانیں سرکاری ماتحتی میں ترقی کر رہی ہیں لیکن مرکزی سطح پر آج بھی ہندی اور انگریزی کا مسئلہ باقی ہے۔ 1968میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں طے ہوا کہ سیول سرویسز جیسے امتحانات کو ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی منعقد کیا جانا چاہیے۔ اس طرح مرکزی ہندی سمیتی کے ذریعہ کوٹھاری آیوگ بنایا گیا اور 1979 کے بعد سے امتحانات کا نیا پیٹرن سامنے آیا جس میں بشمول ہندی علاقائی زبانوں کو بھی جگہ دی گئی، لیکن انگریزی ہنوز سرکاری کام کاج کے لیے استعمال ہوتی رہی اور ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں لنک لینگویج کا کام انجام دیتی رہی، حتیٰ کہ عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں میں انگریزی زبان کا ہی چلن رہا ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں انگریزی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بیرون ملک سفارتی کاموں کے لیے اور ہندوستان کی نمائندگی عالمی سطح پر انگریزی میں لازمی ہو چکی ہے لہٰذا یہ بات درست ہے کہ ملک میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں سیول سرویسز کے امتحانات منعقد کیے جائیں تاکہ ملک کے تمام شہریوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کا موقع ملے۔اس کے باوجود عالمی سطح پر بولنے والی زبانوں میں ملک کے تمام شہریوں کو ملکہ حاصل کرنا چاہیے، خصوصاً مسلمانان ہند کو لازمی طور پر توجہ دینا چاہیے۔ وہیں آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ گزشتہ سال حکومت ہند نے دہلی میں مستقبل کے لیے تیار سیول سرویسز (Future Ready Civil Service) کے لیے پہلی قومی تربیتی کانفرنس کا افتتاح کیا تھا جس کا مقصد سیول سرویسز میں استعداد کار کو بڑھانا تھا۔ اس کانفرنس کا اہتمام نیشنل پروگرام برائے سیول سرویسز کیپسٹی بلڈنگ (NPCSCB) ’مشن کرما یوگی‘ (Mission Karmayogi) کے تحت کیا گیا۔ اس ’مشن کرما یوگی‘ کا نتیجہ کیا نکلا اور مقاصد کے حصول میں یہ کس حد تک کار گر ثابت ہوا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
یونین پبلک سرویس کمیشن کے نتائج میں مسلمانوں کی حصہ داری:
ہندوستان میں سیول سرویسز 2024 کے امتحان میں مسلمانوں کے انتخاب کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک کے ریڑھ کی ہڈی کہلائے جانے والے اس سرکاری سرویس میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے لحاظ سے بدستور کم ہے۔ اس سال 1016 میں سے 51 مسلم طلباء کا انتخاب ہوا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال 933 میں سے 29 تھی۔ سنہ 2021 میں یہ 685 میں سے 25 اور 2020 میں 761 میں سے 31 تھی۔ اس کے باوجود یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ سیول سرویسز میں مسلمان طلباء و طالبات گزشتہ سالوں کے مقابلے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے فیصد میں معمولی ہی سہی لیکن اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔ یہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان طلباء و طالبات ملک و ملت کے حالات کے پیش نظر اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس میں جہاں ایک جانب مختلف اداروں کی منظم و منصوبہ بند کوششیں ہیں وہیں دوسری جانب والدین اور طلباء بھی اس امتحان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حصہ لے رہے ہیں۔ اعداد وشمار کی روشنی میں مسلمانوں کے فیصد میں کوئی بہت بڑا اضافہ سامنے نہیں آیا ہے، اس کے باوجود گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2020 میں مسلمان طلبہ و طالبات 4.07 فیصد کامیاب ہوئے تھے جو 2021 میں گھٹ کر 3.64 فیصد، 2023 میں مزید گراوٹ آئی تھی اور یہ 3.01 فیصد ہو گیا تھا لیکن 2024 کے حالیہ نتائج کی روشنی میں 5.01 فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس امتحان میں اضافہ کے امکانات موجود ہیں۔ امتحانات کی تیاری کرانے والے مراکز کا کہنا ہے کہ مسلمان امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ اسے سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تعداد ہر سال نشستوں کی دستیابی کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے لیکن مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زائد ہونے کے باوجود کبھی بھی اس امتحان میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں کی تعداد پانچ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں نمائندگی کی کمی امتیازی سلوک کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی قابل امیدواروں کی کمی کی وجہ سے ہے بلکہ یہ کمی لاعلمی، بے توجہی اور سماجی حصہ داری میں شعور کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسلم طلباء و طالبات کو آگاہی فراہم کی جائے، ان کے اعتماد میں اضافہ کیا جائے اور انہیں احساسِ کمتری سے نکالنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس طرح یہ تعداد اور فیصد آنے والے سالوں میں مزید اضافہ کے ساتھ سامنے آئے گا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی حقیقت:
یہ بات بھی بار بار اور مختلف حوالوں سے کہی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی لگا تار بڑھ رہی ہے نیز، مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی ہندو اکثریت کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے، یہ بات بھی مخصوص فکر ونظریہ کے حاملین سمجھاتے ہیں۔ اس بنا پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعات پیدا کرنے اور اس سے سیاسی میدان میں فائدہ حاصل کرنے کے علاوہ سماجی تانے بانے کو خراب کرنے، اس کو مشتعل کرنے اور ان میں زہر گھولنے کا کام کیا جارہا ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر (Pew Research Centre) کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں 1951 میں ہندوؤں کا فیصد 84.1 فیصد سے کم ہو کر 2011 میں 79.8 فیصد ہوگیا ہے اور اس میں 1.3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے وہیں ملکی سطح پر مسلمانوں کا فیصد 1951 میں 9.8 فیصد تھا جو 2011 میں بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گیا ہے یعنی اس میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے فیصد میں کافی زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اسی اعداد و شمار کی ایک دوسری تصویر بھی یہی رپورٹ پیش کرتی ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں میں دیگر گروہوں کے مقابلے میں زر خیزی کی شرح زیادہ تھی، لیکن حالیہ دہائیوں میں انہوں نے زرخیزی میں سب سے زیادہ کمی کا تجربہ بھی کیا ہے۔ 2015 تک تمام گروہوں میں زر خیزی کی شرح میں کمی واقع ہوئی لیکن مسلمانوں میں سب سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1992 میں مسلمانوں میں 4.4 بچے فی عورت تھے جو سال 2015 میں گھٹ کر 2.6 فیصد رہ گئے ہیں۔ وہیں 1992 میں ہندو خواتین میں اوسطاً 3.3 بچے زرخیزی کی شرح تھی جو 2015 تک کم ہو کر 2.1 فیصد رہ گئی ہے۔ اس لحاظ سے 1992 سے 2015 تک مسلمان عورتوں میں زر خیزی کی شرح میں 1.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ہندو عورتوں میں یہ شرح 1.2 فیصد رہی۔ یعنی ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان عورتوں میں زر خیزی کی شرح میں زیادہ کمی ہوئی ہے اور ان کی تعداد میں جو اضافہ بیان کیا جاتا ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے حالیہ دنوں وزیر اعظم مودی کی تقریر کو جس میں انہوں نے مسلمانوں کو گھس پیٹھیے اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے کہا تھا، بھلایا نہیں جاسکتا۔ اعداد و شمار کے اس کھیل میں کون کس طرح اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور ملک کی یکجہتی کو نقصان پہچانے کی کوشش کر رہا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو غیر ملکی اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ ملی تھی اور اس کی زبردست تنقید بھی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود یہی زبان مودی نے منگل کو راجستھان کے ٹونک ریلی میں دوبارہ استعمال کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی سرخی تھی ’مودی نے مسلمانوں کو در انداز کہا جو ہندوستان کی املاک چھین لیں گے‘۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف جو راست زبان استعمال کی گئی ہے وہ عالمی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کے خلاف ہے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ’’جب مودی اپنی تیسری مدت کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو انہوں نے خود ایسی زبان استعمال کی جس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے کہ اس سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے دائیں بازو کے نگراں گروہوں کو بھڑکایا جا سکتا ہے۔ اخبار دی گارجین نے ہندوستان میں نریندر مودی پر انتخابات کے دوران کشیدگی پھیلانے کا الزام لگایا اور مودی کی مکمل تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’جب سے بی جے پی 2014 میں ہندو قوم پرست ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، اس پر ایسی پالیسیوں اور بیان بازی کا الزام لگایا جا رہا ہے جو اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کو جو مبینہ طور پر بڑھتے ہوئے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں‘‘۔ ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں یہ انتخابات توجہ طلب ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 4؍ جون 2024 کو کیا نتائج آتے ہیں اور ملک کا مستقبل کیا ہوگا!!
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024