غیر منظم شعبے کے سکڑنے سے روزگارمیں بھاری کمی

معاشی سرگرمیاں 45سالوں کی سب سے نچلی سطح پر۔سات کروڑ شہری مفلس

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بہت شور سننے میں آ رہا ہے کہ ہماری معیشت میں بہتری آرہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ ہے نہیں۔ دراصل غیر منظم شعبہ (انفارمل سیکٹر) کا حصہ سکڑ کر منظم شعبہ (فارمل سیکٹر) کی طرف بڑی تیزی سے کھسک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں 2020-2021 میں 45 سالوں کی سب سے نچلی سطح پر آگئیں۔ کورونا قہر کے دوران اس کی سب سے زیادہ زد غیر منظم شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں پر پڑی کیونکہ ان کا روزگار چلا گیا، آمدنی ختم ہو گئی۔ شہروں سے بڑی کسمپرسی کے عالم میں انہیں اپنے آبائی وطن کو مہاجرت کرنا پڑا۔ یہ ایس بی آئی کی ریسرچ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی معیشت کے غیر منظم شعبہ میں 20 فیصد کی تنزلی آئی۔ 2016-17کے مقابلے 2017-18میں معاشی پیداوار 52 فیصد بڑھ گئی جسے ایس بی آئی گروپ کے چیف اکانومسٹ سومیا کانتی گھوش نے معیشت میں مثبت ترقی قرار دیا ہے۔ 2020-21 میں غیر منظم شعبوں میں 15 تا 20 فیصد کی تنزلی کے ساتھ منظم شعبے کی جی ڈی پی میں بہتری درج کی گئی۔2017-18کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق انفارمل سیکٹر بھارت کی جی ڈی پی کی 45 فیصد ساجھے داری کرتا ہے اور 85 فیصد محنت کشوں کو روزگار مہیا کرتا ہے اور یہ تناسب گزشتہ ایک دہائی سے عموماً غیر متبدل رہا۔ حالیہ ایس بی آئی کے سروے کے مطابق بھارتی معیشت کورونا قہر اور اس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاون کی مصیبت کے دور میں بڑی تیزی سے فارمل معیشت میں تبدیل ہوئی۔ مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر منظم معیشت کی جی ڈی پی کا پانچواں حصہ تنزلی کا شکار ہوا۔ 2020-2021 میں غیر منظم سیکٹر میں جی ڈی پی کی تنزلی سامنے آئی۔ اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سیکٹر کے لوگوں کے پاس مالی قوت اور نہ ہی تکنیکی جانکاری ہوتی ہے جس سے وہ کورونا قہر کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اس کے ذریعہ لگائے گئے جھٹکے برداشت کرسکتے تھے ۔ان حالات میں تمام تر خطرات اور مشکلات کا مقابلہ غیر منظم شعبے کو خود ہی کرنا ہے مگر منظم شعبہ کو پالیسی سپورٹ کے ساتھ ساتھ سپلائی کے راستے بھی دکھائے جاتے ہیں۔ سرکاری ڈیٹا کی غیر موجودگی میں غیر منظم شعبے میں تنزلی کا گمان فطری ہے۔ ظاہر ہے کہ جی ڈی پی میں غیر منظم سیکٹر کی حصص میں تنزلی وقتی دھکا ہے یا ایک ڈھانچہ کی منتقلی زیادہ کار آمد سیکٹر کی طرف ہے۔ غیر منظم شعبے کی اہمیت کے مد نظر لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے۔ انفارمل سیکٹر انٹر پرائز پر منفرد لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور اس کی آزادانہ طور پر کوئی الگ سے آزادانہ شناخت نہیں ہوتی ہے۔ اس کی رجسٹری کسی قومی قانون یا کمرشیل ایکٹ کے ضمن میں ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ منظم شعبہ میں کام کرنے والے لوگوں کو ساجی سلامتی ودیگر مراعات مثلاً پراویڈنٹ فنڈ یا صحت عامہ کے سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ اگر غیر منظم شعبہ کی منظم شعبے کی طرف منتقلی ہوتی ہے تو پیداوار میں دُہرے پن میں کمی اور روزگار کی کیفیت میں بہتری آنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ کورونا قہر کی وبا کی وجہ سے غیر منظم شعبے کی جی ڈی پی میں بڑی تنزلی ہونی ہی چاہیے اور غیر منظم شعبے کی جی ڈی پی میں تنزلی کے باعث روزگار میں ممکنہ حد تک کمی واقع ہونی چاہیے مگر یہ ابھی واضح نہیں ہوئی۔ سرکاری سالانہ پیریڈ لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) 2017-18 اور 2019-20 کے ڈیٹا کے مطابق 2019-20 میں کووڈ-۱۹ کا چرکا جو اپریل تا جون 2020 کے دوران لگا جس سے روزگار کی حصہ داری غیر زرعی غیر منظم شعبے میں 68 فیصد 2017-18 سے بڑھ کر 2019-20 میں 69.5 فیصد ہو گئی۔ اس میں زرعی شعبے کے اعداد وشمار کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ روزگار زیادہ تر غیر منظم شعبے میں ہی دستیاب ہے۔ یہ صحیح ہے کہ منظم شعبے میں جی ڈی پی کی حصہ داری بڑھی مگر روزگار کی حصہ داری کم تر ہوئی۔ یہی فرق منظم وغیر منظم شعبوں میں ہے اگرچہ غیر منظم شعبے میں جی ڈی پی کی حصہ داری کم ہوئی ہے جیسا کہ ایس بی آئی کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے جہاں ہمارے ملک میں محنت کش کم اجرت والے کاموں میں کم پیداوار دیتے ہیں کیونکہ اجرت پر روزگار کی کمیابی نے طلب کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے سرمایہ کاری اور نمو متاثر ہوئی ہے۔ اس لیے 15 تا 16 فیصد محنت کش جو منظم سیکٹر سے منسلک ہیں وہ معاشی نمو کو پائیدار بنیاد پر قائم رکھ سکتے ہیں۔ منظم شعبے میں جی ڈی پی کی حصہ داری اس وجہ سے بڑھی ہے کہ اس نے غیر منظم شعبے کی صنعتوں اور کاروباروں کو نچوڑ کر اپنے اندر ضم کر لیا ہے غیر منظم شعبے کے بہت سارے شعبوں نے عارضی طور سے ہی سہی کام کرنا بند کر دیا ہے اور پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔
گزشتہ سات سالوں میں غیر منظم معیشت نے منظم معیشت کی طرف بڑی تیزی سے قدم بڑھایا ہے۔ اس سے بہت ساری صنعتوں کی قانوناً رجسٹری ہو گئی۔ نتیجتاً ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا۔ اب ایسی صنعتیں قانوناً ٹیکس کی ادائیگی میں دھاندلی نہیں کر سکتیں۔ دراصل منظم شعبے میں شمولیت سے سرمایہ کاری کے لیے راستے کھل جاتے ہیں اور انہیں اپنی پیداوار کے نشو ونما کے لیے انسانی اور طبعی سرمایہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ محنت کشوں کو سماجی تحفظ ودیگر فوائد بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔ اب غیر منظم شعبوں کو باوقار اور با عزت زندگی ملے گی جب وہ روزگار سے جڑے کمزور اور غربا کے تحفظ اور سلامتی کا خیال رکھیں گے۔ 2012-13 میں معیشت لڑکھڑائی ہوئی تھی مگر 2014 کے بعد اس میں بہتری آنے لگی تھی۔ اچانک مودی حکومت نے معیشت کو دُہرا جھٹکا دیا۔ پہلا نوٹ بندی اور دوسرا جی ایس ٹی کا۔ دونوں نے مل کر ہمارے لیے معاشی بحران پیدا کر دیا۔ اس وقت منظم سیکٹر میں محض 12 فیصد لوگ روزگار سے جڑے تھے جبکہ 88 فیصد لوگ غیر منظم شعبے سے منسلک تھے۔ منظم شعبہ 45 فیصد پیداوار دیتا ہے جبکہ غیر منظم شعبے کا ماحصل 55 فیصد تھا-
نوٹ بندی کا اثر جس قدر غیر منظم شعبے پر ہوا وہ بہت ہی خطرناک اور ڈراونا تھا کیونکہ اس شعبے کے لوگوں کے پاس نقدی تھی نہ ہی بینک اکاونٹس۔ اس لیے سبھی چھوٹی اور مائیکرو صنعتوں نے تالہ بندی کردی۔ مزدور شہروں سے لاکھوں کی تعداد میں دیہی علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور گاوں میں منریگا کی طلب چار گنا سے زیادہ بڑھ گئی۔ مزدوروں کی کمی کی وجہ سے اور نقدی کی کمیابی سے ایم ایس ایم ای اور چھوٹی صنعتوں کا بڑا نقصان ہوا۔ ان کو اپنے کاروبار دوبارہ بحال کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوئی جو نہیں مل پائی چنانچہ مائیکرو اور چھوٹی صنعتیں ابھی تک بند پڑی ہیں۔ جی ایس ٹی کے منفی اثر سے چھوٹے کاروباریوں کی کمر ٹوٹ گئی کیونکہ وہ مقامی طور پر مال کی خریداری کرتے ہیں اور بہت قلیل منافع پر فروخت کردیا کرتے ہیں۔ مگر ’ون نیشن اور ون ٹیکس‘ کا ویژن بڑی صنعتوں کے لیے بڑا منافع بخش رہا کیونکہ وہ مال تجارت ایک شہر میں خریدتے اور دوسرے شہر میں بیچتے ہیں اس لیے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد بڑے پیمانے پر مائیکرو اور اسمال سیکٹرس منظم شعبوں کی طرف جانے کے لیے مجبور ہوئے۔ غیر منظم شعبوں کی تنزلی کی وجہ سے بے روزگاری کافی بڑھی۔ لوگوں کی مشکلات میں زبردست اضافہ ہوا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے روزگار فراہم کرنے والے اداروں کو بھی تباہ کردیا۔ اس لیے ملک میں بے روزگاری آسمان کو چھورہی ہے۔ یہ ایک انسانی سماجی اور معاشی مسئلہ بن گیا ہے۔ آمدنی ختم ہونے سے سات کروڑ ہندوستانی شہری خط مفلسی تک پہنچ گئے ہیں۔
***

 

***

 نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ے نفاذ کے بعد بڑے پیمانے پر مائیکرو اور اسمال سیکٹرس منظم سیکٹرس کی طرف جانے کو مجبور ہوئے ۔ غیر منظم سیکٹرس کی تنزلی کی وجہ سے بے روزگاری کافی بڑھی۔ لوگوں کی مشکلات میں زبردست اضافہ ہوا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے روزگار فراہم کرنے والے اداروں کو بھی تباہ کردیا۔ اس لیے ملک میں بے روزگاری آسمان چھورہی ہے۔ یہ ایک انسانی سماجی اور معاشی مسئلہ بن گیا ہے۔ لوگو ں آمدنی ختم ہوے سے سات کروڑ بھارتی خظ مفلسی پر پہنچ گئے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021