یونا نی طریقہ علاج حکومت کی بے توجہی کا شکار
ڈاکٹروں میں سخت ناراضی ۔بجٹ کی تقسیم میں بھی حکومت کے سوتیلے سلوک کا اظہار طبی ماہرین کاتحریک چلانے کا انتباہ۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت
افروز عالم ساحل
جب سے بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے یونانی پیتھی کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جا رہا ہے، جس سے دنیا کے اس قدیم طریق علاج کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ حکومت طب یونانی کو بہت ہی تنگ نظری سے دیکھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں یونانی طب سے وابستہ افراد میں کافی بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے طب یونانی سے وابستہ کئی اہم لوگوں سے خاص بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس الزام کی بنیاد کیا ہے۔
آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ ملک کا موجودہ سسٹم طب یونانی کے خلاف ہے۔ حکومت خود طب یونانی کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہر جگہ اسے حاشیہ پر دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ طب یونانی ترقی نہ کر سکے۔ پروفیسر مشتاق نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن حیدرآباد کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
وہیں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں طب یونانی کو ایک محدود دائرے میں لپیٹا جا رہا ہے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طب یونانی کی اب اس ملک میں کوئی خاص اہمیت نہیں رہی۔ جب کہ طب یونانی ایک مکمل سائنس ہے اور صدیوں سے اس ملک میں رائج ہے۔ ہندوستان اس کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں یہ بھی کہتے ہیں کہ طب یونانی کے لیے صرف موجودہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ طب یونانی کے لیے کسی بھی حکومت نے رحم دلی یا سچی محبت نہیں دکھائی ہے۔ سال 2009 میں بھی کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ بات کہی تھی کہ اگر ان کی حکومت بنی تو وہ ’نیشنل یونانی یونیورسٹی‘ قائم کرے گی لیکن جب منموہن سنگھ کی حکومت بن گئی تب انہوں نے اس جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ حالانکہ آل انڈیا یونانی طبی کانگریس حکومت کو دہائی دیتی رہی کہ حکومت اپنا وعدہ جلد از جلد پورا کرے لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ چنانچہ آج بھی ملک میں یونانی طب کی کوئی نیشنل یونیورسٹی نہیں ہے جبکہ آیوروید کی نیشنل سطح کی تین یونیورسٹیاں ہیں۔
مسیح الملک حکیم اجمل خان میموریل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اسلم جاوید کا بھی الزام ہے کہ موجودہ حکومت طب یونانی کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کر رہی ہے۔ ان کے مطابق ایسا برتاؤ گزشتہ حکومتوں نے بھی کیا ہے لیکن موجودہ دور میں یونانی پیتھی کے ساتھ جانبدارانہ رویے میں کافی اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
ناراضگی کی اصل وجہ کیا ہے؟
اصل ناراضگی نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن (این سی آئی ایس ایم) ایکٹ 2020 میں طب یونانی کو مناسب مقام نہیں دیے جانے پر ہے۔ اس کی وجہ سے یونانی سے وابستہ ہر شخص شدید غصہ میں ہے۔ مسیح الملک حکیم اجمل خان میموریل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اسلم جاوید کے مطابق لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی غصہ کا اظہار کیا اور طب یونانی سے وابستہ تمام تنظیموں نے بھی مرکزی حکومت سے آیوروید کی طرح یونانی کے لیے علیحدہ بورڈ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ گزشتہ دنوں ٹویٹر پر بھی ٹرینڈ کر رہا تھا۔
واضح ہو کہ مانسون اجلاس کے دوران 14 ستمبر 2020 کو این سی آئی ایس ایم بل کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا۔ 18 مارچ 2021 کو راجیہ سبھا نے بھی اس پر اپنی مہر لگا دی۔ اس طرح اس کے ذریعے ’انڈین میڈیسن سنٹرل کونسل ایکٹ 1970‘ ختم ہوا اور حکومت کی جانب سے یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ اس نئے ایکٹ کے ذریعے ایسی طبی تعلیم کا نظام شروع کیا جائے گا جس میں انڈین سسٹم آف میڈیسن میں مناسب تعداد میں اعلیٰ معیار کے طبی پیشہ ور افراد کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے، طبی اداروں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جا سکے اور شکایات کو دور کرنے کا ایک موثر میکانزم تشکیل دیا جا سکے۔
خیال رہے کہ گزشتہ 11؍جون 2021 کو حکومت نے گزٹ شائع کرکے نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن یعنی این سی آئی ایس ایم کے قیام کا اعلان کیا، اس کے بعد اس کمیشن میں آیوروید اور ہومیو پیتھی کے لیے علیحدہ علیحدہ بورڈز کی تشکیل دی گئی لیکن طب یونانی کو سدھا اور سوارگپا کے ساتھ ایک علیحدہ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح سے یونانی کی اہمیت کو درکنار کرکے اس کے لیے علیحدہ بورڈ قائم نہ کیے جانے پر طب یونانی کے ماہرین میں ناراضگی پائی جا رہی ہے اور وہ ایک لمبی تحریک چلانے کی تیاری میں ہیں۔
اس سلسلے میں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس نے وزیر اعظم، مرکزی وزیر آیوش سمیت کئی مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو خطوط بھیج کر اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان خطوط میں بھی طبی کانگریس نے وزارت آیوش پر یونانی طریقہ علاج کے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں کا کہنا ہے کہ طب یونانی کے لیے علیحدہ بورڈ کے قیام کے مطالبے کے ساتھ طبی کانگریس نے وزیر اعظم کو ایک تحریری میمورنڈم بھیجا تھا۔ پی ایم او آفس نے ہمارے میمورنڈم کو وزرات آیوش میں بھیجا ہے لیکن وہاں سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ لیکن ہماری جدوجہد جاری ہے۔ ہم جمہوری طریقہ کار کے تحت اپنی تحریک چلاتے رہیں گے۔ یہ تحریک طب یونانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ یونانی، سدھا اور سوا رگپا، ان تینوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے جبکہ اس بورڈ کا چیئرمین ایسے شخص کو بنایا گیا جسے طب یونانی سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس کا تعلق سدھا پیتھی سے ہے، وہ طب یونانی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ نہ ہی وہ یونانی پیتھی کی زبان عربی، فارسی اور اردو سے واقف ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل میں جب یونانی کا نیا نصاب بنے گا تو وہ اس کو کیسے سمجھ پائے گا۔
وہیں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد کا الزام ہے کہ جس شخص کو چیئرمین بنایا گیا ہے وہ موجودہ ایکٹ کے مطابق اس عہدے کا اہل ہی نہیں ہے، لیکن تمام قاعدے قوانین کو طاق پر رکھ کر حکومت نے اسے یہ عہدہ دے دیا ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بورڈ میں کم از کم وائس چیئرمین کا عہدہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن وہ بھی غائب ہے۔ اس طرح سے نو تشکیل شدہ نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن میں طب یونانی کو ایک گوشے میں محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن کے لیے ترمیمی بل دوبارہ پارلیمنٹ میں لایا جائے، تاکہ طب یونانی کو اس کمیشن میں اس کا مستحقہ مقام مل سکے۔
نئی دہلی کے قرول باغ میں مقیم آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمد زبیر کہتے ہیں کہ لوگوں کا یہ مطالبہ پوری طرح سے جائز ہے کہ طب یونانی کا بورڈ الگ سے ہونا چاہیے۔ مرکزی حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 15رکنی اس نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن میں 10 اراکین بشمول صدر کا تعلق آیوروید سے ہے۔ کمیشن سے وابستہ ہندوستانی طب کی طبی درجہ بندی اور معیار طے کرنے والے بورڈ اور انڈین سسٹم آف میڈیسن ایتھکس اینڈ رجسٹریشن بورڈ کی صدارت بھی آیوروید کے ماہرین کے ہی سپرد کی گئی ہے۔
جامعہ سے یونانی سنٹر کو خالی کرنے کا نوٹس حقیقت کیا ہے؟
خبر ہے کہ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں واقع ’حکیم اجمل خان لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن‘ کو جامعہ نے یونیورسٹی کیمپس سے خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ اس نوٹس پر بھی طب یونانی سے وابستہ لوگوں میں غصہ ہے اور وہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے فروغ طب یونانی کے صدر اور حکومت ہند کے سابق جوائنٹ ایڈوائزر طب یونانی ڈاکٹر محمد شمعون نے ایک پریس ریلیز جاری کر کے اس امر پر وزرات آیوش کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جان بوجھ کر طب یونانی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سب سے اہم نام مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا ہے، مگر اُن سے منسوب لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو کیمپس سے خالی کرایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کو جلد از جلد سرگرم ہو کر حکیم اجمل خاں لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔
اس پورے معاملے میں ہفت روزہ دعوت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار ڈاکٹر ناظم حسین جعفری سے بھی بات کی۔ اس خاص بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ یہ انسٹی ٹیوٹ جامعہ کا نہیں بلکہ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کا تھا جو پہلے جامعہ ہمدرد میں ہوا کرتا تھا۔ جب انہوں نے وہاں سے ان کو خالی کرایا تب جامعہ نے انہیں اپنے ایم اے انصاری ہیلتھ سنٹر میں جگہ دی۔ ان سے تین سال کا معاہدہ ہوا۔ معاہدے کے وقت انہوں نے کافی بڑے بڑے وعدے کیے تھے جس میں سے ایک وعدہ جامعہ میں ’ہربل گارڈن‘ بنانے کا بھی تھا لیکن آج تک انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جامعہ کے ساتھ ان کا معاہدہ تین سال پہلے ہی ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد نئے معاہدے کے لیے انہوں نے دلچسپی نہیں لی۔ انہوں نے کبھی جامعہ کو کرایہ ادا کیا نہ کبھی بجلی یا پانی کا بل ادا کیا۔ اب چونکہ جامعہ کو ایم اے انصاری ہیلتھ سنٹر کے لیے اس جگہ کی ضرورت ہے، ہم وہاں اپنے اسٹاف کے لیے کووڈ اسپتال بنانے جا رہے ہیں اس لیے ہم نے انہیں تخلیہ کا خط بھیجا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
اس معاملے میں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں کہتے ہیں کہ حکومت یونانی کے بارے میں کتنی ایماندار ہے اس کا اندازہ آپ حکیم اجمل خاں لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اس کہانی سے لگا سکتے ہیں۔ جامعہ سے جو معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی یہ کھرے نہیں اترے۔ حکومت ہند کے وزرات آیوش کے تعصب اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مالی امداد نہیں ملی چنانچہ جامعہ نے مجبوراً انہیں خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 35 سال ہوچکے ہیں لیکن یہ حکومت اس انسٹی ٹیوٹ کی آج تک ایک بلڈنگ نہیں بنا سکی ہے جبکہ اب تک تو حکومت کو خود ہی اپنی سطح پر اس کو قائم کرلینا چاہیے تھا۔ وزارت آیوش کو چاہیے کہ در بدر بھٹکنے کے بجائے اپنی عمارت خود ہی تیار کر لے۔
خیال رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سال 2015 میں قائم کیا گیا تھا تب پہلی مرتبہ طب یونانی کے چھ اسکالرز کا پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا تھا اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ اب یونانی میں بھی نئے نئے ریسرچ کیے جا سکیں گے۔ اس وقت دہلی کے اخباروں میں یہ خبر بھی سرخی بنی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جلد ہی ہربل گارڈن ہو گا۔ اس کے لیے سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن نے جامعہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جامعہ کیمپس میں بننے والے اس ہربل گارڈن میں خاص طور پر یونانی ادویات سے متعلق پودے لگائے جائیں گے۔ لیکن یہ ہربل گارڈن ابھی تک وجود میں نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل طب یونانی کا یہ’حکیم اجمل خان انسٹی ٹیوٹ فار لٹریری اینڈ ہسٹاریکل ریسرچ ان یونانی میڈیسن‘ نئی دہلی کے جامعہ ہمدرد کیمپس میں 1986 میں چار یونٹوں کے انضمام کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کے ساتھ بھی حکومت کا سوتیلا برتاؤ؟
ہفت روزہ دعوت نے جب سرکاری دستاویزوں کی چھان بین کی تو پایا کہ مرکزی حکومت ’سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن‘ کے ساتھ بھی سوتیلا رویہ اپنا رہی ہے۔ حکومت کے ’سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان آیورویدک سائنسیز‘ کے مقابلے میں ’ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن‘ کو سالانہ بجٹ نصف سے کم مل رہا ہے۔
اس معاملے میں اس کی حالت ’سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان ہومیوپیتھی‘ جیسی ہی نظر آرہی ہے۔ لیکن اب حکومت نے این سی آئی ایس ایم ایکٹ 2020 کے تحت ہومیوپیتھی کا علیحدہ بورڈ بنا کر یونانی والوں کو بتا دیا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس کیا حقیقت ہے۔
اس ملک میں حکومت نے ابھی تک صرف یونانی، آیوروید اور ہومیوپیتھی کے میدان میں ہی ریسرچ کے لیے سنٹرل کونسل قائم کیے ہیں۔ لیکن حکومت ان تینوں میں کس پر زیادہ توجہ دے رہی ہے، اس کا اندازہ ان کو ملنے والے سالانہ بجٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بجٹ کے اعداد وشمار اس اسٹوری میں موجود ٹیبل میں آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ یو پی اے حکومت میں آیوش وزارت صحت وخاندانی بہبود کا ایک محکمہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن سال 2014 میں جب مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو حکومت نے ہندوستانی یا دیسی طریقہ علاج کی ترویج کے لیے اس محکمہ کی بجائے نومبر 2014 میں ایک علیحدہ وزارت آیوش (AYUSH) کی تشکیل کی جو آیورید، یوگا، نیچرو پیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی کا مخفف ہے۔
وزارت کے قیام کا اصل مقصد ہندوستانی یا دیسی طریقہ علاج یعنی آیورید، یوگا، نیچرو پیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا تھا لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ حکومت دیگر پیتھیوں کے مقابلے میں آیوروید اور یوگا کی ترقی واشاعت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں کا کہنا ہے کہ وزارت آیوش کے بننے سے ہمیں کافی امیدیں تھیں کہ طب یونانی کو فنڈ ملے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ کام کریں گے، لیکن اس وزارت نے طب یونانی کے لیے اب تک کچھ بھی خاص نہیں کیا ہے بلکہ وہ اسے نظر انداز کرتی رہی ہے۔ وزارت آیوش کا تقریباً 90 فیصد فنڈ آیوروید، یوگا اور ہومیوپیتھی میں تقسیم ہورہا ہے۔ 10 فیصد فنڈ ہی یونانی اور دیگر پیتھی کے حصہ میں آتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت سب کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرے۔
ہفت روزہ دعوت نے سرکاری دستاویزوں کی چھان بین میں پایا کہ سال 2014 تک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن اور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن کو بھی بجٹ میں فنڈ کا کچھ حصہ دیا جاتا تھا جو فی الحال نظر نہیں آرہا ہے۔
طب یونانی کے ساتھ سوتیلے برتاؤ کی اور بھی ہیں کئی کہانیاں
موجودہ حکومت میں طب یونانی کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیے جانے کی کئی کہانیاں ہیں۔ پہلی شکایت اس بات کی ہے کہ وزارت آیوش کے ذریعہ جتنی اہمیت آیوروید کو دی جا رہی ہے اتنی توجہ یونانی علاج پر نہیں دی جا رہی ہے۔ وزارت آیوش نے نومبر 2019 میں یہ اعلان کیا کہ آیور وید کے پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر سرجری کر سکتے ہیں، لیکن یہ اجازت ابھی یونانی کے پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹروں کو نہیں مل سکی ہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں کہتے ہیں کہ یونانی کی پوری تاریخ سرجری سے جڑی ہوئی ہے۔ طب یونانی کے بانیوں کے ذریعہ ایجاد کردہ ٹول کے ماڈرن طریقے آج ایلوپیتھی میں استعمال کیے جا رہے ہیں پھر یونانی والوں کو سرجری کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ جبکہ آیوروید اور یونانی دونوں کے کورس کے نام کے ساتھ ہی سرجری لفظ جڑا ہوا ہے، یعنی دونوں کو سرجری کا حق حاصل ہے تو اجازت آیوروید کے ڈاکٹروں کو ہی کیوں؟
طبی کانگریس کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ وزارت آیوش یونانی کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ حکومت کے ذریعے پوسٹ گریجویٹ یونانی ڈاکٹروں کو سرجری کرنے کے حق سے الگ رکھا گیا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ آیوروید اور یونانی دونوں کا نصاب تقریباً ایک جیسا ہے اور دونوں جگہ طلباء کو سرجری کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔ اس لیے آیوروید کی طرح یونانی ڈاکٹروں کو بھی سرجری کرنے کی اجازت ہر حال میں ملنی چاہیے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت نے آیوروید کنسلٹنٹ کو وزارت آیوش میں بنے آیوش کمیشن میں ممبر بنایا گیا ہے، یونانی کنسلٹنٹ کو بحال تو کیا گیا ہے مگر اس کو کمیشن میں جگہ نہیں دی گئی، یہ امتیازی سلوک ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صحت اسکیم کے تحت جس طرح سے آیوروید اور ہومیوپیتھی کے ڈسپنسریس کھولی گئی ہیں ویسے ہی یونانی کی بھی کھلنی چاہیے۔ حکومت نے اپنے کئی اداروں میں یونانی ڈاکٹروں کا عہدہ نہیں رکھا ہے جبکہ آیوروید ڈاکٹروں کو ہر جگہ بحال کیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے یونانی شعبہ میں خالی کسی بھی پوسٹ کو نہیں پُر کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن میں خود میں کئی برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جو ریٹائر ہو رہے ہیں ان کی جگہ پُر نہیں کی جا رہی ہے۔ وزارت آیوش میں بھی یونانی کے آفیسر کی اسامیاں خالی ہیں۔ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن میں بھی کئی اسامیاں خالی ہیں۔ جہاں پانچ لوگوں کی ضرورت ہے وہاں ایک ہی آدمی سے کام چلایا جا رہا ہے۔ یونانی میں ریسرچ پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے تو پھر طب یونانی اس ملک میں کیسے آگے بڑھے گا؟
نیشنل یونانی یونیورسٹی اور یونانی ایمس کے قیام کا مطالبہ
طب یونانی کے ماہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس ملک میں نیشنل یونانی یونیورسٹی اور ایک یونانی ایمس قائم کرے جس کا وعدہ گزشتہ مرکزی حکومت نے بھی کیا تھا۔
خیال رہے کہ 24 فروری 2017 کو نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں منعقدہ حکیم اجمل خان گلوبل ایوارڈ تقریب میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے ملک میں موجود یونانی طبی صلاحیتیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو میڈیکل ہب بنایا جا سکتا ہے۔ یونانی طبی طریقہ علاج کو نہ صرف فروغ دینے بلکہ نئے یونانی طبی ادارے قائم کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس روایتی طریقہ علاج سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے، جس میں کینسر سمیت تمام امراض کا علاج موجود ہے۔ وہیں اکتوبر 2016 میں کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں طب یونانی کی عالمی کانفرنس میں اس وقت کے مرکزی وزیر برائے آیوش سری پدیسّو نائک نے بھی کہا تھا کہ حکومت یونانی طب کے فروغ کے لیے نیشنل یونانی یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز پرغور کر رہی ہے۔
حکیم اجمل خان نے چلائی تھی آیوروید اور یونانی کے لیے تحریک
انگریزی دور حکومت میں بمبئی پریزیڈینسی میں ایک قانون پاس ہوا تھا جس کے ذریعہ ملک کے دیسی معالجین پر پابندی لگا دی گئی۔ تب مسیح الملک حکیم اجمل خان نے ملک بھر کے ویدوں اور طبیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا متحد ہوکر اس قانون کے خلاف ایک تحریک شروع کی تھی۔
برطانوی حکومت سے یہ ان کا پہلا براہ راست ٹکراؤ تھاجو دیسی طِب کے تحفظ کے لیے تھا۔ حکیم اجمل خان کی اس تحریک کے نتیجے میں انگریزی حکومت ہندوستانی طریقہ علاج کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ اسی تحریک کی مضبوطی کے لیے انہوں نے طب یونانی اور آیوروید کا ایک تعلیمی وتحقیقی ادارہ قائم کیا جسے آج دنیا ’آیوویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج‘ کے نام سے جانتی ہے جو نئی دہلی کے قرول باغ میں واقع ہے۔ اس طبیہ کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد 29 مارچ 1916 کو لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ رکھا گیا اور 13 فروری 1921 کو گاندھی جی نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ تب سے اس ملک میں یونانی اور آیوروید دونوں ایک ساتھ ترقی کرتے رہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں کہتے ہیں کہ جس طرز پر انگریزی حکومت کے دور میں ممتاز مجاہد آزادی مسیح الملک حکیم اجمل خاں نے تحریک چلائی تھی آج اس سے بھی زیادہ شدت سے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ طب یونانی کا مسئلہ ملّی وملکی دونوں مسائل میں شامل ہے، اس لیے ملک کی تمام مخلص شخصیات کو آگے آکر اس تحریک میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔
کتنی ہے یونانی کالجوں واسپتالوں کی تعداد؟
لوک سبھا میں گزشتہ 19 مارچ 2021 کو تحریری طور پر ملے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں اسپتالوں کی سہولت والے کل 56 یونانی طبی کالجز ہیں۔ ان میں اتر پردیش 16 مہاراشٹر میں 7اور کرناٹک میں 6 ہیں۔
18 ستمبر 2020 کو لوک سبھا میں دیے گئے ایک تحریری جواب کے مطابق ملک بھر میں سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کے تحت کل 22 ادارے کام کر رہے ہیں۔ وہیں 267 یونانی اسپتال بھی ہیں جن میں اتر پردیش میں 204 کرناٹک میں 18 اور راجستھان میں 11 ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں یونانی ڈسپنسریوں کی تعداد 1657 ہے۔
یونانی سے وابستہ لوگوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
دہلی حکومت میں لائسنسنگ اتھارٹی اور اسسٹنٹ ڈرگس کنٹرولر ڈاکٹر محمد خالد نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ یونانی کے پروفسیرس ٹیچرس اور طلبا سبھی احساس کمتری کے شکار رہتے ہیں۔ دراصل ہم جیسا پروڈکٹ تیار کریں گے وہ ویسا ہی رزلٹ دے گا۔ ہم اکثر یونانی کالجوں کے فارغین پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ یونانی پریکٹس کیوں نہیں کرتے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک اہم رول ان ٹیچروں کا بھی ہے جو ان کو پڑھاتے ہیں۔ یہ ٹیچرس شاید ان کو اس قابل نہیں بنا پاتے ہیں کہ وہ یونانی پریکٹس کریں، اس لیے طلبا کی ایک بڑی تعداد ایلو پیتھی کی طرف بھاگتی ہے۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام میں اساتذہ اور انسٹی ٹیوٹس کا اہم رول ہو سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ یونانی کالجوں کو اپنے یہاں دی جارہی تعلیم کے معیار پر فوکس کرنا چاہیے تاکہ یونانی گریجویٹ جب پروفیشنل زندگی میں جائیں تو کچھ بہتر کر سکیں۔ اگر وہ بہتر کرتے ہیں تو یقیناً اس کا فائدہ طب یونانی کو ملے گا ورنہ بدنامی بھی اسی کی ہو گی۔ ہمیں اس جانب مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایک یونانی گریجویٹ جب کالج سے باہر نکلے تو وہ طب یونانی کی پریکٹس ہی کرے کیونکہ اگر وہ صرف ایک پیپر کی پڑھائی کر کے ایلوپیتھک پریکٹس شروع کرتا ہے تو وہ کبھی کبھی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ عوام تک یونانی دوائیں نہیں پہنچا پاتا ہے۔ اگر وہ یونانی پریکٹس نہیں کرے گا تو یونانی دوائیں عوام تک کیسے پہونچیں گی۔ جب یونانی دوائیں عوام تک نہیں پہنچیں گی تو یقیناً یونانی دواؤں کا پروڈکشن نہیں ہوگا۔ پھر انڈین اکانومی میں ہم اپنا کوئی خاص تعاون نہیں دے پائیں گے۔
کیا یونانی دواؤں کی خرید وفروخت میں کوئی کمی آئی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد خالد کہتے ہیں کہ نہیں! میرے خیال میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یونانی دواؤں کی خرید وفروخت میں مجھے کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس انڈسٹری کا سالانہ ٹرن اوور مزید بڑھ رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو یونانی دواؤں کی پروڈکشن کوالیٹی پہلے کے مقابلے کافی بہتر ہوئی ہے۔ جب سے ملک میں گڈ مینوفیکچرنگ پریکٹسیس (جی ایم پی) نافذ ہوا ہے تب سے کمپنوں میں کام کرنے کے طریقوں میں پہلے سے کافی سدھار نظر آرہا ہے۔
***
طب یونانی کے لیے علیحدہ بورڈ کے قیام کے مطالبے کے ساتھ طبی کانگریس نے وزیر اعظم کو ایک تحریری میمورنڈم بھیجا تھا۔ پی ایم او آفس نے ہمارے میمورنڈم کو وزرات آیوش میں بھیجا ہے لیکن وہاں سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ لیکن ہماری جدوجہد جاری ہے۔ ہم جمہوری طریقہ کار کے تحت اپنی تحریک چلاتے رہیں گے۔یہ تحریک طب یونانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021