عمر خالد کی گرفتاری کے ایک سال مکمل ہونے پر سول سوسائٹی کے کارکنا نے کہا کہ اس کا جرم بس یہ تھا کہ وہ آئین کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا تھا
نئی دہلی، ستمبر 14: دی ہندو کی خبر کے مطابق سول سوسائٹی کے کئی ارکان بشمول صحافیوں اور سیاست دانوں نے دہلی فسادات سے متعلق کیس میں کارکن عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ خالد پر اس کیس میں سخت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
گروپ نے نئی دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں ایک میٹنگ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خالد جیسے نوجوان کارکنوں کو حکومت کے خلاف بولنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم خالد کو کئی دیگر کارکنوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا جب 23 فروری اور 26 فروری 2020 کے درمیان دہلی میں شدید فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے تھے۔
شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 2019 میں شروع ہونے والے ملک گیر احتجاج کے بعد یہ فسادات ہوئے تھے۔
پیر کو اس اجلاس کے شرکاء نے خالد کی ’’بلاجواز قید‘‘ سے رہائی کا مطالبہ کیا۔ دی ہندو کے مطابق گروہ نے دہلی پولیس کی متعصبانہ تحقیقات کے ذریعے ’’سماجی کارکنوں اور نوجوانوں‘‘ کو نشانہ بنانے کا مرکزی حکومت پر الزام لگایا۔
منصوبہ بندی کمیشن کی سابق رکن سیدہ حامد نے کہا کہ خالد کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ آئین کی پاسداری کر رہا تھا اور اپنی آواز بلند کر رہا تھا۔ حامد نے کہا کہ خالد دہلی کے شاہین باغ علاقے میں خواتین مظاہرین کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرپرسن ظفر الاسلام خان نے کہا کہ دہلی فسادات کے متاثرین کو سازشیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کئی ابتدائی معلومات کی رپورٹس کو جمع کیا گیا ہے تاکہ مناسب انکوائری نہ ہو سکے۔
خان نے اخبار کو بتایا ’’مقامی متاثرین کی بھی زیادہ مدد نہیں کی جا رہی حالاں کہ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کو ہٹا دیا جائے، ورنہ یہ پیٹرن جاری رہے گا۔‘‘
راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے دی ہندو کو بتایا کہ ان مشکل وقتوں میں کچھ ایسے ہیرو تھے جنھیں ’’حکومت کے خلاف بولنے‘‘ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں تشدد کے مرتکب افراد کی ویڈیو ثبوتوں کے باوجود ’’سماجی کارکن نوجوانوں اور مسلمانوں‘‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یہ ان لوگوں کو فریم کرنے کی سازش ہے جو بے گناہ ہیں۔
پریس کلب آف انڈیا میں ہونے والی اس میٹنگ کے انتظام کار مصنفہ اور کارکن فرح نقوی اور دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن تھے۔
6 ستمبر کو خالد نے فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں تشدد سے متعلق کیس میں ایک علاحدہ دفعہ کے تحت نئی ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔
دہلی فسادات سے متعلق متعدد الزامات میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔
دہلی پولیس نے یہ الزام بھی لگایا کہ خالد نے دو تقریریں کیں جنھوں نے فروری 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران مظاہرین کو شہر میں سڑکیں بلاک کرنے پر اکسایا جو اس وقت امریکہ کے صدر تھے۔