علمی نظام کی تبدیلی اورتعلیمی افعال و نظریات
تعلیمی نظریات کی بنیادمادیت کا فروغ نہ ہوبلکہ علم حقیقی اورعدل و قسط کے پیمانے بھی موجود ہوں
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
موجودہ امتحانی نظام میں تبدیلی ضروری ۔امتحان محض یادداشت کا نہیں بلکہ ذہنی صلاحیتوں کا لیا جائے
عام طور پر تصورات کسی نہ کسی نظریہ پر مبنی ہوتے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں نہ صف افراد متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس کے دور رس نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔برخلاف اس کےکہ وہ باتیں اور سرگرمیاں جو نظریہ سے خالی ہوں نہ ان کی زندگی ہوتی ہے اور نہ ہی پختگی نیز تصورات کو شکل دینے میں بھی دشواری لاحق ہوتی ہے۔اسی تناظر میں نظریہ کے فروغ کے لیے سب سے موثر جو طریقہ اختیار کیاجاتا ہے وہ کسی بھی گروہ کا تعلیمی نظام ہے۔تعلیمی نظام نظریات کو فروغ دینے کا آسان ذریعہ ہے اور تصورات کو ایک خاص رنگ میں ڈھالنے میں مددگار بھی ہے۔ماضی قریب میں یہ احساس شدت سے اجاگر ہوا ہے کہ تعلیم کے تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سماجی نقطہ نظر سے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم جو اپنے تئیں سماجی مظاہر میں سے ایک ہے، کا مکمل احاطہ اسی نقطہ نظر سے ممکن ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ تعلیمی کاوشیں انفرادی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ نہ صرف بہت حد تک نظریات سے متاثر ہیں بلکہ اکثراوقات نظریات ہی ان کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تعلیمی عملیات educational practices کے تجزیے کے لیے تعلیم اور نظریات کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ نظریات تعلیم کے تصور اور عمل میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟سماجی عملیات میں نظریے کی اہمیت کا مزید تجزیہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ لفظ نظریہ ideologyکی وضاحت ہو جائے۔نظریہ کو عام طور پر منفی معنی میں بیان کیا جاتا ہے اور لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں نظریہ غالب آنے والا ہے، فلاں کے غلبہ کے لیے یہ کوششیں ہو رہی ہیں اور فلاں نظریات کے حاملین کو مخصوص نظریہ کے فروغ کے نتیجہ میں نقصانات کا اندیشہ ہے۔لیکن موجودہ زمانے میں ‘نظریہ’کو فلاسفی کا نعم البدل لفظ گردانا جانے لگا ہے۔ نظریے کو سادہ لفظوں میں عقائد کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے عقائد جو انفرادی نہیں بلکہ گروہی طور پر اپنائے گئے ہوں۔
معاشرتی اداروں میں تعلیم کاسماجی عملsocializationاہم کردارادا کرتا ہے۔چونکہ تعلیمی ادارے مخصوص نظریات کی تشکیل اورتسلسل میں اہم کردارادا کرتے ہیں اورمخصوص نظریات کی بنیاد پر معاشرے کے بااثر اورممتاز افراد کے مفادات کی نگہبانی کاکام انجام دیتے ہیں۔لہذا عموماًنظریات پر مبنی تعلیمی اداروں سے ایک خاص گروہ اپنی دوری بنائے رکھتا آیا ہے۔لیکن مضحکہ خیز یا حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ گروہ اور اس سے وابستہ افراد خود اپنے آپ میں چند نظریات سے وابستہ ہوتے ہیں اور اپنی مخصوص شناخت بھی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مخصوص شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے جن نظریات سے وابستہ ہوتے ہیں اس کے فروغ کے لیے دیگر نظریات کے حاملین اور اداروں سے دوری بنائے رکھتے ہیں اور ظاہراً یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے۔آزاد ہندوستان کا تذکرہ ہو یا آزادی سے قبل انگریز کے ہندوستان کا،ہردو ادوار میں تعلیمی نظریات کو بنیاد بناکر مخصوص نظریات کو فروغ دیا گیا ہے۔ساتھ ہی دیگر نظریات کو کمزور کرنے کی بھی منصوبہ بند اور منظم کوششیں کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ آج2024کے ہندوستان میں بھی پوری آن بان اور شان کے ساتھ جاری ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ تعلیمی عملیات educational practices جس میں بہت ساری خوبیاں ہیں تو وہیں بڑی تعداد میں خامیاں بھی موجود ہیں۔جسے ایک جانب ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تو وہیں دوسری جانب اس کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ٹھیک یہی معاملہ تعلیمی نظریات کا بھی ہے۔موجودہ تعلیمی عملیات میں استاد ممتاز ہے اور علم کاراست سرچشمہ وہی ہے جبکہ شاگرد کاکام صرف قبول کرناہے۔ دوسری جانب ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات،طلبہ کی IQاور EQکو پیش نظر رکھتے ہوئے نصاب تیار کرتے ہیں جس میں خصوصیات کے ساتھ زبان،جیسے اردو، ہندی، انگلش وغیرہ ،تاریخ ، معاشرتی اصول پہلے درجہ میں،تو دوسرے درجہ میں سائنس، ماحولیاتی سائنس،سماجی سائنس وغیرہ کو مرتب کرتے وقت جن مخصوص نظریات کی بنیاد پر معاشرہ کو پروان چڑھانا مقصود ہوتا ہے۔اسے محسوس و غیر محسوس انداز میں نصاب میں بہت ہوشیاری کے ساتھ شامل کروایا دیا جاتا ہے ۔پھر اسی کے ارد گرد تعلیمی اداروں میں وہ مخصوص ماحول پروان چڑھایا جاتا ہے جو ان تعلیمی نظریات کے فروغ میں معاون و مددگارہوں۔اس طرح آغاز تا اختتام طلبہ کو مخصوص نہج پر تعلیمی ادارے نظام مہیا کرتے ہیں۔نتیجہ میں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جن بچوں و نوجوانوں کو ہم پروان چڑھاتے ہیں وہ عموماً کسی اور نظریہ ، فکریا تصورکو قبول کرنے کے لائق نہیں رہتے اور جب وہ معاش سے وابستہ ہوتے ہیں تو مزید انہیں فکر ،نظریہ و نظام کے تعلق سے غور وفکر کے مواقع میسر نہیں آتے۔چونکہ اب زندگی کا صرف ایک مقصد باقی رہ جاتا ہے ،یعنی بلند تر معیار زندگی اور مادی دنیا میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش،جس میں آرام و آسائش اور دنیا کی لذتوں کا حصول ہی سب کچھ ہوتا ہے۔اس طرح ٹھیک ٹھاک گھرانے اور خاندانوں کے بچوں کی زندگیاں بھی مقصدیت سے عاری ہو جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا وہ تعلیمی نظام ہے جو آج چہار جانب مروج ہے ۔ اور اس میں بھی ہمارا وہ موجودہ امتحانی نظام جو غیرمربوط قسم کی زبانی یاد کی گئی چیزوں پرمرکوز ہے ۔اس امتحانی نظام میں ایسے سوالات سرے سے امتحانی پرچے میں شامل ہی نہیں ہوتے جن کا تعلق حاصل شدہ علم کے اطلاق application of knowledgeسے ہے۔ لہذا یہ صورتحال ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ ہم موجودہ تعلیمی نظام اور اس کی نظریاتی مطابقت idiological relevance کا ازسر نو جائزہ لیں جس کی بنیاد پرمعاشرے کے طاقتور گروہ مزید طاقتوراور غریب مزید تر غربت کا شکار ہورہے ہیں۔ ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں جس طرح کی تعلیم دی جارہی ہے اس کے مطابق تعلیمی ادارے موجودہ طاقتور افراد،گروہ اور برسراقتدار لوگوں کے معاون بنے ہوئے ہیں اور ویہی وجہ ہے کہ نہ صرف امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتاجارہا ہے بلکہ معاشرے کی درجہ بندیوں پر مبنی اہرامpyramidاوپر ی حصے میں چھوٹے سے چھوٹا تو نیچے بڑاسے بڑا ہوتا چلا جارہاہے۔
درج بالا گفتگو اورموجودہ مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی نظام کے سدھار پر توجہ دی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ موجودہ تعلیمی عملیات اور تعلیمی نظریات کی بنیادمادیت یا مخصوص نظریہ کا فروغ نہ ہو۔بلکہ اس میں علم ِحقیقی اورعدل و قسط کے پیمانے بھی موجود ہوں۔نیز موجودہ امتحانی نظام کو بھی بدلنا ہو گا جو صرف یادداشت کا امتحان لیتا ہے ۔نتیجہ میں ایک طالب علم اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے۔ برخلاف اس کے ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں طلبا تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اپنی ذات ،خاندان اور معاشرے کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔کیونکہ یہ بات عیاں ہے کہ تحقیق کے نام پر ایم فل اور پی ایچ ڈی اور پی ڈی ایف کرنے والے طلبا بھی پہلے سے موجود ہ علم ہی کو الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ استعمال کرتے ہوتے ہوئے لفظ ‘تحقیق’ سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ہمیں ٹرانسمیشن transmission کے ماڈل سے ٹرانسفارمیشنtransformation کے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ٹرانسمیشنtransmission ماڈل صرف نظریات اور تصورات کی نسل در نسل منتقلی کو ممکن بناتاہے۔تعلیم کو بامعنی بنانے کے لیے ایک مکمل تبدیلی کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں تعلیم کا مقصد سماجی، معاشرتی،معاشی اور سیاسی نظام کی اصلاح اور عدل و انصاف کا حصول ہونا چاہیے۔
***
***
ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں طلبا تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اپنی ذات ،خاندان اور معاشرے کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔کیونکہ یہ بات عیاں ہے کہ تحقیق کے نام پر ایم فل اور پی ایچ ڈی اور پی ڈی ایف کرنے والے طلبا بھی پہلے سے موجود ہ علم ہی کو الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ استعمال کرتے ہوتے ہوئے لفظ ’تحقیق‘ سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ہمیں ٹرانسمیشن transmission کے ماڈل سے ٹرانسفارمیشنtransformation کے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ٹرانسمیشنtransmission ماڈل صرف نظریات اور تصورات کی نسل در نسل منتقلی کو ممکن بناتاہے۔تعلیم کو بامعنی بنانے کے لیے ایک مکمل تبدیلی کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں تعلیم کا مقصد سماجی، معاشرتی،معاشی اور سیاسی نظام کی اصلاح اور عدل و انصاف کا حصول ہونا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024