روس-یوکرین جنگ: بھارتی جج نے اقوام متحدہ کی عدالت میں روس کے خلاف ووٹ دیا
نئی دہلی، مارچ 17: بین الاقوامی عدالت انصاف میں ہندوستانی جج دلویر بھنڈاری ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے بدھ کے روز عدالت میں روس کے خلاف ووٹ دیا، جس نے ملک کو یوکرین پر اس کے حملے کو روکنے کی ہدایت کی۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکم دیا کہ ’’روسی فیڈریشن کیس کے حتمی فیصلے تک 24 فروری 2022 کو یوکرین کی سرزمین میں شروع ہونے والی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر معطل کر دے۔‘‘
بھنڈاری کا ووٹ بھارت کے اس موقف کے برعکس ہے، جس میں نئی دہلی نے یوکرین میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تین بار ماسکو کے خلاف ووٹنگ سے پرہیز کیا ہے۔
جسٹس بھنڈاری بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنی دوسری مدت ملازمت کر رہے ہیں۔ وہ پہلی بار اپریل 2012 میں عالمی عدالت کی نشست کے لیے منتخب ہوئے اور 2018 میں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی عدالت کا حکم 13-2 کے اکثریتی ووٹوں سے منظور ہوا۔ چینی اور روسی ججوں نے اس حکم کے خلاف ووٹ دیا۔ جن ججوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا ان کا تعلق بھارت، امریکہ، سلوواکیہ، فرانس، مراکش، صومالیہ، یوگانڈا، جمائیکا، لبنان، جاپان، جرمنی، آسٹریلیا اور نکاراگوا سے ہے۔
ججوں نے یہ بھی کہا کہ روس کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے زیر کنٹرول یا ماسکو کی حمایت یافتہ دیگر قوتیں فوجی کارروائی جاری نہ رکھیں۔
وہ ممالک جو عدالت کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرسکتے ہیں، جہاں روس کے پاس ویٹو پاور ہے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کی خبر کے مطابق یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب یوکرین نے دو ہفتے قبل بین الاقوامی عدالت انصاف سے اس جنگ میں مداخلت کرنے کو کہا تھا۔ یوکرین نے استدلال کیا کہ روس نے کائیو پر نسل کشی کا جھوٹا الزام لگا کر 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے حملہ شروع کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے مظالم کے جواب میں 1948 کا نسل کشی کنونشن منظور کیا گیا اور 1947 کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی پیروی کی گئی، جس میں اقوام متحدہ نے تسلیم کیا کہ [[نسل کشی ایک بین الاقوامی جرم ہے، جس میں انفرادی افراد اور ریاستوں پر قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ‘‘
تب سے اس کنونشن کو بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر قبول کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی سماعت کے دوران، یوکرین نے کہا تھا کہ روس نے ’’بلا اشتعال جارحیت‘‘ شروع کر دی ہے۔
یوکرین کی قانونی ٹیم کے ایک رکن ڈیوڈ زیونٹس نے دلیل دی کہ ’’شہر محصور ہیں، شہری آگ کی زد میں ہیں، انسانی تباہی کے سبب پناہ گزین اپنی جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔‘‘
روس نے ان سماعتوں میں شرکت نہیں کی، لیکن ایک تحریری جمع کراتے ہوئے اس میں دلیل دی کہ اقوام متحدہ کی عدالت کے پاس مقدمہ سننے کے دائرۂ اختیار کی کمی ہے اور کنونشن میں کوئی بھی چیز طاقت کے استعمال سے منع نہیں کرتی۔
دریں اثنا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کو سراہا۔
زیلنسکی نے ایک ٹویٹ میں کہا ’’یوکرین نے روس کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنے مقدمے میں مکمل فتح حاصل کی۔ آئی سی جے نے فوری طور پر حملے کو روکنے کا حکم دیا۔ یہ حکم بین الاقوامی قانون کے تحت پابند ہے۔ روس کو فوری طور پر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ حکم کو نظر انداز کرنا روس کو مزید تنہا کر دے گا۔‘‘