عبوری بجٹ : اقلیت مخالف بیانیہ کو مضبوط کرنے کی کوشش
سماجی انصاف کے بالمقابل ہائپر نیشنل ازم اور اکثریت نوازی حاوی
نور اللہ جاوید، کولکاتا
شہریوں کے بنیادی حقوق تعلیم ، صحت اور روزگار نظرانداز
میگا انفراسٹرکچر اور راہداریوں پر توجہ۔اقلیتوں کی اسکالر شپس میں کٹوتی
وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے عبوری بجٹ کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر گزشتہ کئی دنوں سے بحث جاری ہے۔میڈیا کا ایک بڑا طبقہ عبوری بجٹ کی تعریف میں رطب اللسان ہے کہ اس بجٹ کے ذریعہ ’’بااختیار و خود کفیل بھارت‘‘ کی جڑیں مضبوط کی گئی ہیں اور اگلے تین مہینوں میں مکمل ہونے والے انتخابات کے بعد اگر تیسری مرتبہ نریندرمودی حکومت کی واپسی ہوتی ہے تو(میڈیا کے مطابق اس کے امکانات روشن ہیں) خودکفیل بھارت کی سمت اقدام کیے جائیں گے۔عبوری بجٹ تو عبوری ہی ہوتا ہے ۔عام طور پر رخصت پذیر حکومتیں عبوری بجٹ کے ذریعہ اپنے دور اقتدار کی کامیابیوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ووٹروں کولبھانے کے لیے فلاحی اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں ۔نرملا سیتا رمن کا یہ پانچواں بجٹ تھا جو عبوری تھا۔ انہوں نے اس مرتبہ سب سے مختصر 56منٹ پر مشتمل بجٹ تقریر کی جس کا بیشتر حصہ انہوں نے دس سالہ مودی دور حکومت کی کامیابیوں کے ذکر میں صرف کیا ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی دور حکومت میں 50 فیصد شہریوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم اپنے اس دعوے کی تائید میں انہوں نے کوئی ٹھوس شواہد اور اعداد و شمار پیش نہیں کیے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت کا مشن چار طبقات ’’غریب، خواتین، نوجوان اور کسانوں کو ‘‘ بااختیار بنانا ہے۔انہوں نے اپنی حکومت کا نظریہ پیش کیا کہ غریب اور کمزور طبقات کو حقوق فراہم کرنے کے نعرے کے بجائے حکومت کی پوری توجہ ان طبقات کو بااختیار بنانا ہے۔نرملا سیتارمن نے سماجی انصاف اور سیکولرزم کی نئی تشریح بھی کی مگر اس تشریح میں سبھی کے ساتھ انصاف ، نفرت انگیز مہم اور اقلیتوں کی دل آزاری کے سوال کو نظر انداز کردیا ۔تاہم حیرت انگیز بات یہ رہی کہ بجٹ عبوری ہونے کے باوجود نرملا سیتارمن نے فلاحی اسکیموں اور عام آدمی کو بااختیار بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اور اسکیموں کے اعلان سے گریز کیا۔ انہوں نے میگا انفراسٹرکچر اور کوریڈور پر زیادہ توجہ دی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ میگا انفراسٹرکچر اور کوریڈور کی تعمیرات سے ہی خودکفیل بھارت کے خواب کی تکمیل ہوگی۔ تاہم کئی ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کو اس بجٹ میں نظر انداز کردیا گیا ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ حقوق کی فراہمی ، سماجی انفراسٹرکچر کو مضبوط اور روزگار کے مواقع پید کیے بغیر میگا انفراسٹرکچر اور کوریڈور کی تعمیرات سے خود کفیل بھارت کی تعمیر کیسے ہوگی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ غربت کے خاتمے اور لوگوں کی آمدنی میں اضافے کی دعوے کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ سوال اس لیے اہم ہوجاتا ہے کہ نرملا سیتارمن نے اپنی بجٹ تقریر میں مردم شماری اور شماریات کے لیے بجٹ میں کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری جسے 2021میں شروع ہوجانا تھا وہ پہلے ہی تین سالوں کی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت جلد مردم شماری شروع کرانے کا ارادہ نہیں رکھتی ۔ایسے میں نرملا سیتارمن سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ ٹھوس سماجی ، معاشی اور معاشرتی اعداد و شمار کے بغیر کسی طبقے کسی سماجی ، معاشی اور سیاسی ترقی اور اس کے لیے مواقع فراہم کرنے اور منصوبے کیسے بنائے جاسکتے ہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ نوجوانوں ،خواتین اور کسانوں کی ترقی میں اپنے اہم ترین ہدف میں شامل کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آخر ملک میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہوا ہے، کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے دعوے کیا ہوا؟ اس پر کوئی سروے اور مطالعہ کیوں نہیں کیا گیا؟ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیے بغیر اس ملک کے نوجوان بااختیار کیسے بن رہے ہیں ؟ کارپوریٹ سیکٹر، سرکاری ملازمت ، منظم سیکٹر میں روزگار کے مواقع میں تاریخی کمی آئی ہے اس کے باوجود اس دعوے کی حقیقت کیا ہے کہ اس ملک کا نوجوان خود کفیل ہو رہا ہے؟ کیا خواتین کے شکتی کرن کی بات کرنے والوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر، سرکاری ملازمت اور منظم سیکٹر میں خواتین کی شرح نمائندگی میں بہتری کیوں نہیں آئی ہے؟ ورک فورسیس میں خواتین کی شرح انتہائی کم ہے۔اس ملک کی بیشتر خواتین غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں ۔
جہاں تک سوال اقلیتوں کی ترقی کا ہے، نرملا سیتارمن نے اپنی بجٹ تقریر میں واضح کردیا ہے کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ ڈھونگ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔مودی نے بتدریج اقلیتوں کی ترقی اور سماجی اور یکساں مواقع فراہم کرنے کے آئینی ذمہ داری اور حکومتی فرائض کے سوال سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرلیاہے۔ان کے نزدیک اقلیتوں کی ترقی کوئی ایشو نہیں ہے۔ کیا اقلیتوں کو سماجی انصاف اور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کیے بغیر بااختیاراور خود کفیل بھارت کی تعمیر کی جاسکتی ہے؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سماجی انصاف اور کمزور طبقات کے لیے اہم اعلانات کرنے سے گریز کیوں کیا گیا ہے؟ 2019کے عبوری بجٹ میں مودی نے کسان نیدھی یوجنا کااعلان کیا تھا اس کے تحت ملک کسانوں کو ہرسال 6 ہزار روپے تین قسطوں میں دینے کا اعلان کیا تھا۔اس مرتبہ امید تھی کہ اس رقم کو 9ہزار روپے کردیا جائے گا۔اسی طرح دیہی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے والی منریگا اسکیم پر خصوصی توجہ اور اس کے فنڈ میں اضافے کی امید تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ظاہر ہے کہ اس ملک میں ہائپر نیشنلزم ، اکثریت نوازی اور مندر و مسجد کا سوال اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ عوامی فلاح وبہبود، کسانوں ، نوجوانوں اور خواتین کی ترقی اور انہیں بااختیار بنانے کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؟ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں جو محض دس سال قبل تک قابل قبول تھیں اور اس کی بنیاد پر کانگریس حکومت کی تنقیدیں کی جاتی تھیں آج وہ بھارت کو بدنام کرنے والا بتاکر رد کردی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس بیانیہ کو میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹرمیں جوں کا توں قبول کرلیا جاتا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ کےمطابق 2014 سے 2022 کے درمیان اس ملک میں ایک لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے ۔یعنی گزشتہ نو سالوں میں یومیہ 30 کسانوں نے خودکشی کی ۔مودی کے دوسرے دور حکومت نے کسانوں کی خودکشی کی تعداد 10,281سے بڑھ کر 11,290تک پہنچ گئی۔زرعی کارکنوں کی خودکشیوں کی تعداد 4,324 سے بڑھ کر 6,380ہوگئی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف اتنے بڑے پیمانے کسان خودکشی کررہے تھے تو اپوزیشن نے اس سوال کو اپنا ایشو بنانے سے گریز کیوں کیا، اور کیوں نہیں اس سوال پر ہفتوں پارلیمنٹ کو معطل رکھا گیا؟ کیا اپوزیشن جماعتوں نےبھی حکومتی بیانیہ کو من و عن تسلیم کرلیا ہے کہ وہ بھی ہائپرنیشنلزم ، ہندو مسلم اور مسجد و مندر کے سوالوں میں الجھ کررہ گئی ہیں؟
نرملا سیتارمن کی بجٹ تقریر میں سب سے حیران کن دعویٰ ملک میں حقیقی آمدنی میں اوسطاً 50فیصد اضافے کا تھا۔تعجب اس بات پر ہے کہ 9؍ اکتوبر 2023کو پیریاڈک لیبر فورس سروے (PLFS) رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک میں ماہانہ اجرت 20,000 پر رکی ہوئی ہے۔ 2017-18 میں ماہانہ قومی اوسط اجرت 19,450روپے اور 2022-23 میں 20,390 روپے تھی ۔بیشتر ماہرین اقتصادیات جن میں بڑی تعداد مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے حامیوں کی ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے دیہی علاقوں میں اجرت برسوں سے جمود کا شکار ہے۔آمدنی کا یہ جمود پچھلے کئی سالوں میں نجی کھپت میں جمود سے ظاہر ہوتا ہے۔ نجی کھپت ملک میں جی ڈی پی کی ترقی کا بنیادی محرک ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں یہ اوسطاً سالانہ تقریباً 3 فیصد بڑھی ہے۔ اس کی تصدیق وزارت شماریات اور پروگرام کے نفاذ سے ہوتی ہے۔جب کہ ماہرین اقتصادیات حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں حقیقی آمدنی میں 50فیصد کے دعوے کی حقیقت کیا ہے؟ نرملا سیتارمن کے دعوے میں کتنی سچائی ہے۔اسی طرح خود روزگار کے تعلق سے حکومت کے دعوے اعداد و شمار کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ نہیں ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کے نزدیک خود روزگار کا معیار کیا ہے؟ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، جس میں 20-24 سال کی عمر کے گروپ میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کے فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ نوجوان آبادی ملازمتوں کی تلاش میں بھی حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہی ہے۔ 2017 سے 2022 تک، مجموعی طور پر مزدوروں کی شرکت کی شرح (ملازمت کی تلاش میں سرگرداں افرادی قوت یا پہلے سے ملازم) 46 فیصد سے کم ہو کر 40 فیصد ہو گئی ہے۔رسمی شعبے میں ملازمتوں کی کمی نے ہندوستان کے نوجوانوں کے بڑے حصے کو غیر یقینی اور غیر منظم غیر رسمی شعبے میں مواقع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت میں صنعتی ترقی حقیقی پیداوار میں اضافے کے بجائے کم اجرت پر کام کرنے والے مزدورو ں کی مرہون منت ہے۔اجرت اس قدر کم ہے صنعتی گھرانوں براہ راست اس کا فائدہ پہنچتا ہے ۔
لیبر اکنامسٹ سنتوش مہروترا کے مطابق کہ خود روزگارسے وابستہ بیشتر افراد غیر معیاری روزگار سے منسلک ہیں ۔2017-18 میں بغیر تنخواہ والے کارکنوں کی تعداد 40 ملین سے بڑھ کر 2022-23 میں 95 ملین ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن بلا معاوضہ کارکنوں کو رسمی ملازم نہیں سمجھتا۔وزیر خزانہ کی بجٹ کی تقریر میں روزگار پیدا کرنے سے متعلق ایک پیراگراف بھی نہیں تھا اور اس حقیقت کا ادراک مودی کو بھی ہے، اس لیے وہ ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ 25 فیصد لوگ غربت کی سطح سے باہر نکل آئے ہیں تو دوسری طرف اگلے پانچ سالوں کے لیے مفت کھانا فراہم کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب غربت کی سطح میں کمی آئی ہے تو اگلے پانچ سالوں کے لیے ریوڑی تقسیم کرنے کی وجہ کیا ہے؟
ملک کی مضبوط معیشت کا معیار کیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ عوام کی ترقی، سوشل سیکیورٹی میں ریاست کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ریاست کی آئینی ذمہ داری کیا ہے ؟ آئین کے آرٹیکل 21 کے رہنما اصول کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے باوقار زندگی کے حق کو یقینی بنائے اور اس کو فروغ دے۔ باوقار زندگی کا تصور زندگی کے حق کے سب سے اہم جز کی نشان دہی کرتا ہے، اس لیے ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ایک جامع نقطہ نظرکی ضرورت ہے۔اس فریم ورک کے اندر، بنیادی حقوق اور فرائض جیسے کام کرنے کا حق، خوراک اور غذائیت کا حق، تعلیم کا حق، اور سماجی تحفظ کا حق آئین کے رہنما اصول کے آرٹیکل 21کے لازمی اجزاء ہیں۔ اس کو تسلیم کرنا شہریت کے بنیادی جوہر کو بھی واضح کرتا ہے۔ماہرین عمرانیات کے نزدیک سیاسی، سماجی ،اقتصادی اور ثقافتی شمولیت مکمل شہریت کی شرط ہے۔مودی حکومت کے دس سالہ دور اور اس عبوری بجٹ کو آئین کے اس رہنما اصول کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیا مودی حکومت نے شہریت کے شرط کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں ۔تعلیم کے شعبے میں بجٹ کا 6فیصد رقم مختص کرنے ہدف مقرر کیا گیا تھا مگر موجود بجٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدف تو دور ہدف کے قریب تک بھی پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے بعد خانگی اسکولوں کے پھیلاؤ نے تعلیم تک غیر مساوی رسائی اور حکومت کی ذمہ داری کو کم کرنے کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ ASER 2019 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 6 سے 8 سال تک صرف 39فیصد لڑکیاں اور 47فیصدلڑکوں کی خانگی اسکولوں تک رسائی حاصل ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ حکومت تیزی سے پبلک کمپنیوں اور اداروں کے شیئرز کو فروخت کررہی ہیں ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ کمپنیاں چلانا اور کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔معیشت کو بہتر کرنا، عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی ترقی حکومت کی ذمہ دار ی ہے۔بنیادی ذمہ داری پر توجہ مبذول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی اداروں کے شیئرز کو فروخت کیے جائیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ریاست کی ترقی پر رقم خرچ کی جائے ۔مگر سوال یہ ہے کہ پبلک سیکٹرکو پرائیوٹ کمپنیوں کے ہاتھوں سونپنے سے حاصل ہونے والی آمدنی کہاں جارہی ہے ۔یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اگر حکومت کے فلاحی اسکیموں کے لیے مختص رقم کے تخمینہ کو دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں اس میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔قومی سماجی امدادی پروگرام (این ایس اے پی) میں فنڈ میں معمولی 16 کروڑ کا اضافہ کیاگیا ہے۔2023-23کے بجٹ میں 9,636مختص کیے گئے ۔اس سال بجٹ میں اضافہ کرکے 9,652کروڑ روپے کیا گیا ہے۔نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (NREGA) مختص میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔اس سال اس کے لیے 68,000کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال میں نظرثانی شدہ تخمینہ بجٹ 60,000کروڑ روپے تھا۔اس میں بھی مغربی بنگال حکومت کے 7000کروڑ روپے کے بقایاجات ہیں ۔
بجٹ اجلاس کے پہلے دن میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ناری شکتی کے عزم کو دہرایا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے گزشتہ سیشن میں خواتین ریزرویشن بل پاس کیا تھا اور اس مرتبہ خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت اقدام کریں گے مگر بجٹ میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا ۔ انٹگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (آئی سی ڈی ایس) جسے مالی سال 2021-22 میں سکشم آنگن واڑی اور پوشن 2.0کا نام دیا گیاتھا اس کے بجٹ میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے۔ مالی سال 2014-15 میں صرف آئی سی ڈی ایس کے لیے مختص بجٹ 16,683کروڑ روپے تھا ۔موجودہ بجٹ میں سکشم آنگن واڑی اور پوشن 2.0 کے لیے 21,220کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں،جس میں تین اسکیموں- آنگن واڑی خدمات، پوشن اور نوعمر لڑکیوں کی بہبود کا احاطہ کیا گیا ہے ۔مرکز برائے مالیاتی احتساب کی ٹیم کے رکن انیربن بھٹاچاریہ کا یہ سوال واجبی ہے کہ شہریوں پر سرمایہ کاری، ان کے حقوق اور سماجی انفراسٹرکچر کی بنیاد کو مضبوط بنائے بغیر، معقول ملازمتیں پیدا کیے بغیر اور ترقی کے پائیدار اور مساوی نمونے پر عمل کیے بغیر، صرف میگا انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری اور راہداریوں پر توجہ دینے سے ملک کی معیشت میں بہتری نہیں آئے گی اور عام لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
اقلیتی فنڈ میں بتدریج کمی!
وزیراعظم نریندر مودی مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں توازن برقرار رکھنے اور خاص طور پر مسلم دنیا کو یہ باورکرانے میں کامیاب نظرآتے ہیں کہ بھارت مسلم دنیا سے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا ہے۔چناں چہ غزہ پراسرائیلی جارحیت پر ابتدائی حمایت کرنے کے بعد بھارت نے تیزی سے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے ۔چوں کہ غزہ کے سوال پر خود مسلم دنیا موقع پرستی اور ذاتی مفادات کی شکار ہے اس لیے بھارت نے بھی اس پورے معاملے میں واضح موقف اختیار نہیں کیا۔تاہم اس وقت ملک میں بی جے پی اور اس کی جماعتوں نے جو ماحول بنایا ہے وہ کسی بھی درجہ میں بھارت میں مسلمانوں کے لیے بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ایسے میں اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ بجٹ میں اقلیتوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔جس حکومت کی بنیاد میں ہی پولرائزیشن اور مسلم دشمنی ہو اس سے خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ گزشتہ مالی بجٹ 2023-24میں اقلیتی بجٹ میں غیر معمولی کٹوتی یعنی 38فیصد کی کٹوتی کی گئی تھی تاہم اس مرتبہ معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔اس سال 3183.24کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ گزشتہ سال 3097.27کروڑ مختص کیے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ اضافہ بہت معمولی ہے۔ دی وائر میں شائع شدہ افروز عالم ساحل کی رپورٹ کے مطابق اس بجٹ کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ بجٹ میں اسکل ڈیولپمنٹ اور ذریعہ معاش سے متعلق اہم اسکیموں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کے لیے مختص فنڈ میں کٹوتی کردی گئی ہے۔سال 2023-24 میں مدارس اور اقلیتوں کے لیے تعلیمی اسکیم کو پچھلے سال کے مقابلے میں 93 فیصد کم کرکے 10 کروڑ روپے کردیا گیا۔ اس مرتبہ اسے مزید کم کر کے محض دو کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔2014میں اقتدار میں آنے سے قبل نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مدرسوں میں جدید تعلیم سےجوڑیں گے۔وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس دیکھنا چاہتے ہیں۔اقلیتی طلبا کے لیے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیموں کا بجٹ اس بار کم کرکے 10 کروڑ کردیا گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال 30 کروڑ روپے تھا۔ سال 2023-24 میں اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ 433 کروڑ رکھا گیا تھا۔ اس بار اسے گھٹ کر 326.16 کروڑ کردیا گیا ہے۔
دیگر ترقیاتی و فلاحی اور اقلیتوں کی ترقی کےلیے مختص فنڈ کو نظرثانی بجٹ کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ تخمینہ بجٹ سے کہیں زیادہ کم خرچ کیے جاتے ہیں ۔ایک ایسے وقت جب جمہوریت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ملک میں احتسابی نظام یک رخی جہت کی طرف گامزن ہے۔تمام جانچ ایجنسیوں کا کام صرف اپوزیشن کا احتساب کرنا ہوگیا ہے تو ایسے میں ملک کے عام طبقات کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونے والی اسکیموں میں کٹوتی صاف واضح اشارے فراہم کرتے ہیں ملک کی معیشت بہتر سمت کی طرف گامزن نہیں ہے۔اعدادو شمار میں ہیرا پھیری اور تشہیری مہم پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرکے عوام کے درمیان اپنی شبیہ تو بہتر کی جاسکتی ہے مگر ملک کی معیشت اور شہریوں کی ملک کی ترقی میں مکمل شمولیت نہیں ہو سکتی ہے۔ ہائپر نیشنلزم ، اقلیت مخالف ماحول اور ملک کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں مگر ملک کی بہتری اور روشن مستقبل کے لیے یہ صورت حال کسی بھی صورت میں بہتر نہیں ہے۔ نرملا سیتارمن کے عبوری بجٹ سے جو سوال پیدا ہوئے ہیں وہ سماجی عدم مساوات کے چیلنجوں سے نمٹنے پر عدم توجہ ہے۔ بی جے پی اور دائیں بازو کی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں نے ایک بحران پیدا کر رکھا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس بحران میں ملک کی اپوزیشن جماعتیں سب سے زیادہ گھری ہوئی ہیں، چناں چہ وہ ان کے بیانیے سے ابھر کر ملک کے عوام کو درپیش بحران کا پائیدارحل پیش کرنے میں ناکام ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج مودی اور بی جے پی نے خود کو غیر مفتوح سمجھ لیا ہے ۔
***
***
وزیر خزانہ کی بجٹ کی تقریر میں روزگار پیدا کرنے سے متعلق ایک پیرا گراف بھی نہیں تھا اور اس حقیقت کا ادراک مودی کو بھی ہے، اس لیے وہ ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ 25 فیصد لوگ غربت کی سطح سے باہر نکل آئے ہیں تو دوسری طرف اگلے پانچ سالوں کے لیے مفت کھانا فراہم کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب غربت کی سطح میں کمی آئی ہے تو اگلے پانچ سالوں کے لیے ریوڑی تقسیم کرنے کی وجہ کیا ہے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024