ٹویٹر اپنے عملے کے جیل جانے کا خطرہ اٹھانے کے بجائے ہندوستان کے سوشل میڈیا قوانین کی پابندی کرے گا: ایلون مسک

نئی دہلی، اپریل 12: ایلون مسک نے بدھ کو بی بی سی کو بتایا کہ ٹویٹر اپنے ملازمین کے جیل جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے بھارت میں حکومت کے سوشل میڈیا کے قوانین کی تعمیل کرے گا۔

مسک نے یہ تبصرے 2002 کے گجرات فسادات پر بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہے جس فلم کو بھارتی حکومت کی ہدایات پر بلاک کیا گیا تھا۔

مسک نے کہا ’’میں اس [دستاویزی فلم] کے بارے میں نہیں جانتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو سکتا ہے اس کے لیے ہندوستان میں قوانین کافی سخت ہیں، اور ہم کسی ملک کے قوانین سے باہر نہیں جا سکتے۔‘‘

بدھ کے روز مسک نے اس کی بھی تردید کی کہ ٹویٹر کی مقامی قانون کی تعمیل ممالک کو مزید سخت قوانین منظور کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔

انھوں نے کہا ’’اگر ہمارے پاس یہ انتخاب ہو کہ ہمارے لوگ جیل جائیں یا ہم قوانین کی پاسداری کریں، تو ہم قوانین کی تعمیل کریں گے۔ بی بی سی کا بھی یہی حال ہے۔‘‘

ہندوستان میں سوشل میڈیا قوانین پر مسک کا موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹوئٹر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے جاری کردہ کچھ بلاکنگ آرڈرز کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔

فروری 2021 میں حکومت نے ٹوئٹر سے ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس کو ہٹانے کو کہا تھا جنھوں نے نومبر 2020 میں شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو سنبھالنے پر مرکز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ابتدا میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن آخر کار اس کے مقامی ملازمین کو دھمکیاں ملنے کے بعد اس نے اس کی تعمیل کی۔

جولائی میں ٹویٹر نے یہ کہتے ہوئے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا کہ بلاک کرنے کے احکامات ’’اختیارات کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘

8 فروری کو پچھلی سماعت میں مرکز نے دلیل دی تھی کہ ٹویٹر ایک غیر ملکی کاروباری ادارہ ہے اور اسے ان لوگوں کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں ہے جن کے اکاؤنٹس کو حکومتی احکامات پر بلاک کیا گیا ہے۔