ترک۔جرمن سائنسدان اعور شاہین اور تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر سامعہ حسن مسلم دنیا کی سال کی بہترین شخصیت قرار

اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر کی 500 بااثر شخصیات کی فہرست 2022 جاری

افروز عالم ساحل

اردن میں قائم ’رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر‘ کی سالانہ اشاعت ’دی مسلم 500‘ کے 2022 ایڈیشن میں ترک-جرمن سائنسدان اعور شاہین کو مسلم دنیا کا ’’میان آف دی ایئر‘‘ اور تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر بلکہ بر اعظم افریقہ کی واحد خاتون سربراہ مملکت سامعہ صلوحو حسن کو ’’وومین آف دی ایئر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

اعور شاہین کو کوویڈ-19 کے خلاف ویکسین تیار کرنے میں ان کے اہم کردار کے لیے یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ وہیں سامعہ صلوحو حسن کو یہ اعزاز اس بات کے لیے دیا گیا ہے کہ وہ ’’آنجہانی صدر میگوفولی کی کچھ آمرانہ پالیسیوں‘‘ کو کالعدم کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہیں، جسے ’’تنزانیہ کی جمہوریت کی بحالی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ملک تنزانیہ کو کوویڈ-19 سے پیدا ہونے والے معاشی اور صحت کے بحران سے باہر نکالا۔ سامعہ صلوحو حسن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تنزانیہ کی علاقائی حیثیت کو بھی کافی آگے بڑھایا ہے۔ RISSC نے کہا کہ سامعہ حسن ’’آنجہانی صدر میگوفولی کی کچھ آمرانہ پالیسیوں‘‘ کو کالعدم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی تھیں۔ اس سے قبل سال 2021 ایڈیشن میں ہندوستان کے شاہین باغ کی ’دادی‘ بلقیس بانو کو ’’وومین آف دی ایئر‘‘ اور چین کے ایغور ماہر تعلیم الہام توہتی کو ’’میان آف دی ایئر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ الہام توہتی چین کی طرف سے سنکیانگ کی ایغور مسلمان آبادی سے روا رکھے جانے والے سلوک پر کھلی تنقید کرتی رہی ہیں نتیجے میں سال 2014 سے جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

’دی مسلم 500‘ دنیا کے سب سے زیادہ با اثر مسلمانوں کی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔ اس سالانہ اشاعت میں دنیا بھر سے 500 انتہائی بااثر مسلمان شخصیات کی فہرست شائع کی جاتی ہے۔ اس فہرست میں دینی رہنما کا نام بھی ہو سکتا ہے جو براہ راست مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کے عقائد، نظریات اور طرز عمل کو متاثر کرے، یا یہ ایک ایسا حکمران بھی ہو سکتا ہے جو معاشرتی اور معاشی عوامل کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے، یا یہ ثقافت کو تشکیل دینے والا کوئی فنکار بھی ہو سکتا ہے۔

اس فہرست میں دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں مسلم دنیا کی 50 سب سے بااثر مسلمانوں کی فہرست جاری کی جاتی ہے۔ دوسرے حصے میں دنیا بھر کے 450 با اثر مسلمانوں کے نام ہوتے ہیں۔ ان 450 مسلمانوں کو کسی درجہ بندی کے بغیر 13 زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان زمروں میں علمی، سیاسی، مذہبی امور کی انتظامیہ، مبلغین اور روحانی رہنما، انسان دوستی/خیرات اور ترقی، سماجی مسائل، کاروبار، سائنس وٹیکنالوجی، فنون وثقافت، قرآن خوان، میڈیا، مشہور شخصیات اور اسپورٹس کی دنیا کے ستارے وغیرہ شامل ہیں۔

اس فہرست کو اردن میں ’رائل اسلامی اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر‘ کی جانب سے مرتب کیا جاتا ہے اور یہ امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے الولید بن طلال سنٹر کے تعاون سے بنائے گئے ادارے کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ سن 2009 سے ہر سال شائع کی جا رہی ہے۔

مسلم دنیا کی بااثر مسلمانوں میں ہندوستان سے کون شامل ہیں؟

دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک ہندوستان سے 50 سب سے بااثر مسلمانوں کی فہرست میں صرف جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کا نام شامل ہے۔ ان کا نام اس فہرست میں 27ویں مقام پر ہے۔ جبکہ مذہبی امور انتظامیہ کے زمرے میں ہندوستان سے آل انڈیا مسلم اسکالرز اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اور جامعہ مرکز ثقافت سنیہ کے بانی و وائس چانسلر شیخ ابو بکر احمد، جامعہ مادین کے بانی وچیئرمین سید ابراہیم الخلیل البخاری، تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا ظہیر الحسن، تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے پڑ پوتے مولانا سعد کاندھلوی، دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم (وائس چانسلر) مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، سنی دعوت اسلامی کے صدر مولانا نوری اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر ورکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کا نام شامل ہے۔

مبلغین اور روحانی رہنما کے زمرے میں ہندوستان سے امام احمد رضا خان بریلوی کے بیٹے کے خلیفہ مولانا قمرالزماں اعظمی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی، ذاکر عبدالکریم نائک اور سیدنا مفضل سیف الدین کا نام شامل ہے۔

علمی زمرے میں انڈیا سے اسلامک اسکالر رابع حسنی ندوی اور کیرالا کے دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر ڈاکٹر بہاؤالدین محمد جمال الدین ندوی کا نام شامل ہے۔

انسان دوستی، خیراتی وترقی یعنی PHILANTHROPY, CHARITY & DEVELOPMENT کے زمرے میں عظیم پریم جی اور آسام کی سیاسی پارٹی یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے مولانا بدرالدین اجمل کا نام شامل ہے۔

آرٹ اینڈ کلچر کے زمرے میں ہندوستان کی فلمی دنیا سے شبانہ اعظمی، عامر خان اور اے آر رحمٰن کا نام شامل ہے۔

سماجی معاملوں کے زمرے میں شاہین باغ کی دادی بلقیس بانو، گڈ ورڈ بکس کے بانی ڈاکٹر ثانی اثنین خان اور کشمیر کی ڈاکٹر مبینہ رمضان کا نام شامل ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کوویڈ-19 کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان میں اسلاموفوبیا نظر آیا۔ کیسے کورونا کے نام پر تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا۔ کس طرح سے ٹویٹر پر #CoronaJihad اور #BioJihad ٹرینڈ کر رہا تھا۔

کون ہیں اعور شاہین؟

پروفیسر ڈاکٹر اعور شاہین مشہور جرمن فارماسیوٹیکل کمپنی ’بائیونٹیک‘ کے بانی ہیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ اوزلیم توریجی کی مدد سے کوویڈ کا پہلا ویکسن تیار کیا اور انہی کی بنائی ہوئی ویکسن کو امریکی پارٹنر کمپنی فائزر نے ان کی کمپنی ’بائیونٹیک‘ کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں پہنچایا۔ ان کی پیدائش 1965 میں ترکی کے شہر اسکندرون میں ہوئی تھی جب وہ محض چار سال کے تھے، اپنی والدہ کے ساتھ ترکی سے جرمنی ہجرت کر گئے۔ جہاں ان کے والد پہلے سے جرمنی میں ایک فورڈ فیکٹری میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے جرمنی کے کولون یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور 1992 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کہتے ہیں کہ طب کی تعلیم کے دوران اعور شاہین کی ملاقات ڈاکٹر توریجی سے ہوئی جو بعد میں ان کی شریک حیات بنیں۔ ان دونوں نے 2001 میں Ganymed نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی، جو therapeutic antibodies پر ریسرچ اور دوا تیار کرنے کا کام کرتی تھی۔ اسی دوران انہوں نے درجنوں پیٹنٹ دائر کیے۔ 2008 میں انہوں نے اپنے مینٹر کرسٹوف ہوبر کے ساتھ مل کر BioNTech کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹر شاہین کے تحقیقی کام کا بنیادی مرکز کینسر کے مدافعتی علاج کے طور پر استعمال کے لیے mRNA پر مبنی دوائیوں کی دریافت ہے۔ کوویڈ-19 وبا کی آمد کے ساتھ BioNTech نے نئے خطرے سے لڑنے کے لیے mRNA پر مبنی دوائیں استعمال کرنے پر زور دیا۔ 2020 کے آخر تک BioNTech نے BNT162b2 ویکسین تیار کی جو اس وقت دنیا کی سب سے مشہور ویکسن ہے۔ جو اب انسانی استعمال کے لیے منظور شدہ پہلی ایم آر این اے دوا بن چکی ہے۔ ویکسن بنانے کے بعد، ڈاکٹر شاہین نے اسے دنیا بھر میں تقسیم کرنے کے لیے فائزر فارماسیوٹیکل کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی۔ اس شراکت داری کی وجہ سےڈاکٹر شاہین اور ان کی اہلیہ جرمنی کے 100 امیر ترین لوگوں میں شامل ہو چکے ہیں۔

کون ہیں سامعہ صلوحو حسن؟

سامعہ صلوحو حسن تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر ہیں اور تیسری مسلمان صدر ہیں۔ انہوں نے سال 2000 میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور زنجبار کے ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوئیں۔ تب انہیں محنت، صنفی ترقی اور بچوں کی وزارت کا وزیر مقرر کیا گیا اور بعد میں سیاحت، تجارت اور سرمایہ کاری کی وزیر کے طور پر کام کیا۔ وہ اس وقت کابینہ میں واحد اعلیٰ عہدے پر فائز خاتون تھیں۔ 2010 میں انہوں نے تنزانیہ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے انتخاب لڑا، اور 80 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اس وقت انہیں مرکزی امور کی وزیر مملکت مقرر کیا گیا۔ اگلے کچھ سالوں میں انہوں نے اپنا سیاسی قد اتنا بڑھا لیا کہ سال 2014 میں پارلیمانی وزیر بن گئیں۔ 2014 میں ہی تنزانیہ نے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے انہیں آئین ساز اسمبلی کی نائب چیئر پرسن کے طور پر منتخب کیا گیا اور آئین کا مسودہ تیار کرنے کا کام دیا گیا۔ سال 2015 میں وہ ملک کی نائب صدر منتخب ہوئیں، وہ اس وقت پورے خطے میں نائب صدر بننے والے دوسری خاتون تھیں۔ ان سے پہلے یوگنڈا میں سال 1994 میں ایک خاتون نائب صدر بنی تھیں۔ اور اب انہوں نے 19 مارچ 2021 کو تنزانیہ کی صدر کے طور پر حلف لیا ہے۔ اس طرح سامعہ حسن اس افریقی ملک میں اس عہدے تک پہنچنے والی دوسری خاتون ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دور میں تعلیم حاصل کی جب تنزانیہ میں لڑکیوں کی تعلیم کی شدید مخالفت کی جاتی تھی اور بہت ہی کم والدین اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجتے تھے۔ 1977 میں انہوں نے سکینڈری اسکول کے بعد اسٹیٹسٹکس کی تعلیم حاصل کی اور وزارت ترقی ومنصوبہ بندی میں ملازمت اختیار کر لی۔ 1992 میں ’ورلڈ فوڈ پروگرام پروجیکٹ‘ میں شامل ہوئیں، اس کے بعد 1994 میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے اکنامکس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا۔

واضح رہے کہ افریقہ کے سب سے بڑے اور ساٹھ ملین آبادی والے ملک تنزانیہ کی سیاست میں ہمیشہ مردوں کا ہی راج رہا ہے، لیکن 19 مارچ 2021 کو سامعہ صلوحو حسن نے حلف لیا تو پوری دنیا کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔ کہا گیا کہ یہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے ایسے میں مسلمان خاتون ہونے کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن سامعہ حسن تنزانیہ کو ترقی کی راہ پر لے کر چل پڑی ہیں۔ عوام میں ان کی بہت مقبولیت ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے تین ہفتوں کے اندر ہی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جو انہیں ملک میں کووڈ-19 کی صورت حال اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کے ضروری اقدامات کے بارے میں مشورے دینے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ان کی ہی پالیسیوں نے تنزانیہ کو کوویڈ-19 وبائی امراض سے پیدا ہونے والے معاشی اور صحت کے بحران سے باہر نکالا۔

***

***

 اردن کے شاہ عبداللہ ثانی، ترکی کے صدر طیب اردگان، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای، سعودی فرمانروا شاہ سلمان، امیر قطر تميم بن حمد آل ثاني، سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان، آیت اللہ سیستانی، عراق کے معروف عالم دین ، ابو ظہبی کے ولی عہدمحمد بن زاید آل نهیان۔حبیب عمر بن حافظ،یمنی اسلامی اسکالر۔سلمان العودہ،سعودی عالم۔ شیخ الاسلام، مفتی محمد تقی عثمانی۔مراقش کے شاہ محمد ششم۔جوکو ویدودو صدر انڈونیشیا ۔جامعہ الازھر کے سربراہ احمد الطیب۔محمد بن سلمان سعودی عرب کے ولی عہد۔مسلمان معاشروں میں امن کے فروغ کے فورم کے صدر شیخ عبد اللہ بن بیاہ ۔محمدو بوحاری، صدر نائجیریا ۔محمد سعد أبو بكر/سوکوٹو کے سلطان ۔ سید عاقل سرادج /انڈونیشائی اسلامی اسکالر اور نہدلۃ العلماء کی ایگزیکٹو کونسل کے سابق چیئرمین ۔ ڈاکٹر علی جمعہ، استادجامعہ الازہر، مفسر، فقیہہ محقق و سنی عالمِ دین۔ حسن نصراللہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سکریٹری جنرل،شیخ حبیب علی زین العابدین الجفری، حمزہ یوسف ہینسن اسکالر،شیخ احمد تیجانی علی سیس/ تیجانیہ صوفی سلسلہ کے روحانی پیشوا ،عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ ،مفتی اعظم سعودی عرب کے نام دنیا کے 500 نہایت بااثرمسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022