تریپورہ فسادات: پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کی دکانوں کو نذر آتش کیا گیا

نئی دہلی، اکتوبر 30: تباہی سے باخبر تریپورہ پولیس نے ہندوتوا گروپوں کی طرف سے لوٹ مار اور فسادات کو روکنے کے لیے دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات نافذ کر دیے ہیں۔

تریپورہ پولیس ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک خاموشی سے لوٹ مار اور آتش زنی کو دیکھتی رہی ہے۔

مسلمانوں کے مزارات، مساجد، املاک اور دکانوں کو تباہ کیا گیا ہے۔

پولیس نے اب شمالی تریپورہ میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ دفعہ 144 کے تحت چار سے زیادہ افراد ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

26 اکتوبر کو تشدد اس وقت شدت اختیار کر گیا جب وشو ہندو پریشد، آر ایس ایس اور بی جے پی نے ایک ریلی نکالی۔ شرپسندوں نے ہنگامہ آرائی کی اور مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا۔

عامر حسین، امیل الدین، نظام الدین، صنوفر، یوسف علی، جمال الدین، محمد علی اور سلطان حسین کی آٹھ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔

عامر الیکٹرک کے سامان کی دکان میں ڈیل کرتا تھا اور اسے تقریباً 12 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ امیل الدین کی راشن کی دکان تھی اور اسے 17 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ نظام الدین کاسمیٹکس اور موبائل اسیسریز کا کاروبار کرتا تھا۔ اسے تقریباً 10 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ صنوفر اور صنوہر کپڑے، جوتے اور اسکول کے بیگز کا سودا کر رہے تھے۔ انھیں 15 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ یوسف علی کی راشن کی دکان تھی۔ انھیں بھی 15 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

جمال الدین کی فوٹو کاپی کی دکان تھی۔ مشتعل افراد نے مشین، کمپیوٹر اور پرنٹر کو نقصان پہنچایا۔ انھیں تقریباً 7 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ محمد علی جوتوں، کپڑوں اور کاسمیٹکس کا کاروبار کرتے تھے۔ انھیں 5 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ سلطان حسین کو تین لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

دریں اثنا تریپورہ کے وزیر اعلیٰ پبلب دیب کے سکریٹری پرشانت گوئل نے انڈیا ٹومورو کوبتایا کہ ’’حکومت نے نوٹس لیا ہے۔ کچھ لوگوں کی شناخت بھی ہوئی ہے۔ پولیس اس معاملے کی سرگرمی سے جانچ کر رہی ہے۔ سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔‘‘

تاہم متاثرین نے الزام لگایا کہ پولیس کی موجودگی میں بھی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور انھیں نذر آتش کیا گیا۔

رووا پانیساگر سے بی جے پی کے ایم ایل اے بنوئے بھوشن داس نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے کارکن، جو ریلی کا حصہ تھے، فساد میں ملوث تھے۔ انھوں نے کہا ’’ملزمین کی شناخت کی جا رہی ہے۔ انھیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘

رووا پانیساگر تھانے کے اے ایس آئی اُدیرام نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ مسلمانوں کی دکانوں کو ان لوگوں نے جلا دیا جو ریلی کا حصہ تھے۔ ’’مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ملزمان کی شناخت کی جا رہی ہے۔ ہم جلد ہی ملزموں کو گرفتار کر لیں گے۔‘‘

دکانوں کے مالکان نے، جن کے کاروباری اداروں کو مبینہ طور پر وی ایچ پی کے کارکنوں نے نذر آتش کر دیا تھا، انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ ہجوم روا پانیساگر میں جامع مسجد پر حملہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو گیا تھا۔

انھوں نے بتایا ’’وہ پیٹرول، جے سی بی اور دیگر سامان کا کین لے کر آئے تھے۔ مسلمان دکاندار اپنی دکانیں چھوڑ کر مسجد کی طرف بھاگے۔ سب مسجد کی حفاظت کے لیے دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ فسادیوں نے پھر اپنا راستہ بدل لیا اور آٹھ دکانوں کو آگ لگا دی۔‘‘

عینی شاہدین نے بتایا کہ وشو ہندو پریشد کی ریلی شام تقریباً 4 بجے روا پانیساگر پہنچی۔ متاثرین میں سے ایک جلال الدین نے کہا ’’وہ ہمارے نبی کو گالی دے رہے تھے۔ وہ توہین آمیز نعرے لگا رہے تھے۔ دکانوں کو جلانا برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے نبی کی توہین نہیں۔‘‘

عامر، امیل الدین اور صنوفر نے، جن کی دکانوں کو نذر آتش کیا گیا، انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ فسادیوں نے اپنی مرضی کے مطابق ہنگامہ آرائی کی۔

اطلاعات کے مطابق تریپورہ کے پانچ اضلاع میں 12 سے زیادہ مساجد کو نقصان پہنچا ہے۔ مسجد میں آدھے جلے ہوئے قرآن کی تصویر اب وائرل ہوگئی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

متاثرین کے مطابق تمام دکانیں پولیس کی موجودگی میں جلائی گئیں۔ متاثرین نے پولیس سے فسادیوں کو روکنے کی اپیل کی تو انھوں نے بے بسی کا اظہار کیا۔

دھرما نگر کے ایس ڈی پی او نے بعد میں مسلمانوں کو یقین دلایا کہ پولیس مساجد کی حفاظت کرے گی۔

تریپورہ پولیس نے بھی ٹویٹ کیا کہ حالات پوری طرح قابو میں ہیں اور دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اس سے پہلے لوگوں نے ٹوئٹر پر تریپورہ پولیس تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

کئی متاثرین نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ پولیس جائے وقوعہ پر دیر سے پہنچی۔

تریپورہ فسادات دہلی کے فساد سے بالکل مماثلت رکھتے ہیں۔ دونوں شہروں میں مسلمانوں کے خلاف منظم حملے کیے گئے۔ پولیس انتظامیہ اور حکمران جماعت اس تباہی کے لیے برابر کے ذمہ دار ہیں۔