تریپورہ مسلم مخالف تشدد: قومی راجدھانی میں تریپورہ بھون کے باہر مظاہرین کو حراست میں لیا گیا

نئی دہلی، اکتوبر 30: پولیس نے جمعہ کو مختلف تنظیموں کے کارکنوں کو حراست میں لے لیا جو گزشتہ ہفتے کے دوران تریپورہ میں مساجد اور مسلمانوں کی املاک پر حملوں کے خلاف احتجاج کے لیے یہاں تریپورہ بھون کے باہر جمع ہوئے تھے۔

کارکنوں نے تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب دیب، تریپورہ پولیس اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف مسلمانوں کی مساجد، دکانوں اور گھروں کی حفاظت میں ناکامی پر نعرے لگائے۔

انھوں نے شہر میں اقلیتوں پر حملہ کرنے والے غنڈوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن ان کی بات سننے کے بجائے دہلی پولیس نے مظاہرین کے ساتھ بدسلوکی کی اور انھیں حراست میں لے کر احتجاج کو ختم کروایا۔

لدھیانہ میں بھی مسلمان، تریپورہ میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

اسی طرح کے مظاہرے ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہوئے، جن میں اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، راجستھان میں گنگاپور سٹی، اور پنجاب میں لدھیانہ شامل ہیں۔

تریپورہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران فرقہ وارانہ تشدد اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کا ایک خطرناک سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مقامی کارکنوں اور رہائشیوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ہندوتوا ہجوم کے مسلم علاقوں میں مساجد، مکانات اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے جھنڈے ان پر زبردستی لہرائے گئے۔ وہیں تین مساجد میں آگ بھی لگائی گئی۔

مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور ممتاز مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کی بھی اطلاعات ہیں۔ تقریباً یہ تمام حملے دائیں بازو کے مختلف گروپوں نے کیے، جن میں وی ایچ پی بھی شامل ہے، جو بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔

ایس آئی او کے قومی صدر محمد سلمان نے کہا ’’دائیں بازو کے ہجوم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے جو مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ ریاست اور پولیس حکام چند علاقوں میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کر کے حالات معمول پر لانے کا بھرم پیدا کر رہے ہیں۔ مجرموں کا پیچھا کرنے کے بجائے وہ ان صحافیوں اور کارکنوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر صورت حال کو اجاگر کر رہے ہیں۔‘‘

برادرانہ تحریک کے صدر شمشیر ابراہیم نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ صورت حال کو قابو میں لائے اور مساجد اور دیگر املاک کی تباہی کا معاوضہ فراہم کرے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ریاست میں امن قائم کرنے کے لیے تشدد اور دہشت گردی کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔