’ہمیں بتائیں کہ کیا آپ کے آلات کو پیگاسس اسپائی ویئر نے نشانہ بنایا تھا؟‘، سپریم کورٹ کے مقرر کردہ پینل نے شہریوں سے اپیل کی

نئی دہلی، جنوری 3: لائیو لاء کی خبر کے مطابق جن شہریوں کو شبہ ہے کہ ان کے آلات کو پیگاسس اسپائی ویئر نے نشانہ بنایا ہے، وہ معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے پینل کو اپنے خدشات لکھ سکتے ہیں۔ اپنی تحریری شکایت جمع کرانے کی آخری تاریخ 7 جنوری ہے۔

پیگاسس اسرائیلی سائبر سیکیورٹی فرم NSO Group Technologies کی طرف سے تیار کردہ ملٹری گریڈ سپائی ویئر ہے، جو صرف ’’جانچ شدہ حکومتوں‘‘ کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ایسے الزامات ہیں کہ مرکز نے ملک میں صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کے لیے پیگاسس کا استعمال کیا ہے۔

کمیٹی نے اتوار کو جاری کردہ ایک عوامی نوٹس کے ذریعے لوگوں پر زور دیا کہ وہ [email protected] پر ثبوت کے ساتھ لکھیں کہ انھیں کیوں شبہ ہے کہ ان کا فون اسپائی ویئر کے ذریعے ہیک کیا گیا ہے۔

نوٹس میں لکھا گیا ہے ’’اگر کمیٹی کو لگتا ہے کہ آپ کے آلے کے میل ویئر سے متاثر ہونے کے شبہ کی وجوہات مزید تحقیقات پر مجبور ہوں گی، تو کمیٹی آپ سے درخواست کرے گی کہ آپ اپنے آلے کی جانچ کی اجازت دیں۔‘‘

جانچ پڑتال کے بعد موبائل ڈیوائس مالک کو واپس کر دیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر کو پیگاسس سافٹ ویئر کے بارے میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی تکنیکی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی میں سائبر سیکیورٹی اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر نوین کمار چودھری، پرابھرن پی اور انل گماستے شامل ہیں۔

اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ ان انکشافات نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت اپنے ناقدین کی غیر قانونی طور پر نگرانی کر رہی تھی۔

اگست میں مرکز نے اس معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور سالیسیٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے دلیل دی تھی کہ یہ معاملات قومی سلامتی سے متعلق ہیں اور اس لیے انھیں عوام کے سامنے ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے مرکز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ قومی سلامتی کے نام پر حکومت کو ’’کھلی چھوٹ‘‘ نہیں دی جا سکتی۔

بھارت میں جن لوگوں کی مبینہ طور پر جاسوسی کی گئی ان میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی، بھارت کے سابق الیکشن کمشنر اشوک لوسا، مرکزی وزرا اشونی ویشنو اور پرہلاد سنگھ پٹیل، صنعت کار انل امبانی، سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔

اگست میں وزارت دفاع نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ ’’این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز کے ساتھ اس کا کوئی لین دین نہیں ہے۔‘‘