گوہاٹی ہائی کورٹ نے آسام حکومت سے کہا کہ وہ پولیس فائرنگ کے واقعات کی تفصیلات پیش کرے

نئی دہلی، جنوری 4: گوہاٹی ہائی کورٹ نے پیر کو آسام حکومت کو ہدایت دی کہ وہ مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تمام مبینہ پولیس فائرنگ کے کیسز کی تفصیلات پیش کرے۔

چیف جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس سومترا سائکیا کی بنچ ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں پولیس پر 80 سے زیادہ فائرنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔

پیر کی سماعت میں عدالت نے آسام کے ایڈووکیٹ جنرل دیواجیت لون سائکیا سے پوچھا کہ کیا ان میں سے ہر ایک فائرنگ کے لیے ایف آئی آرز درج کر دی گئی ہیں۔ ججوں نے سائکیا سے یہ بھی پوچھا کہ کیا اندرونی انکوائری کی گئی تھی۔

سائکیا کے یہ کہنے کے بعد کہ ان کے پاس مطلوبہ معلومات نہیں ہیں، عدالت نے ان سے کہا کہ وہ 11 جنوری کو اگلی سماعت پر تفصیلات جمع کرائیں۔

اپنی درخواست میں دہلی میں مقیم وکیل عارف جوادر نے الزام لگایا کہ مئی سے لے کر اب تک آسام پولیس کی طرف سے کی گئی 80 سے زیادہ فائرنگ میں 28 افراد ہلاک اور 48 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

جوادر نے فائرنگ کے اس طریقہ کار پر سوالات اٹھائے جسے آسام پولیس نے بیان کیا ہے۔ ان تمام معاملات میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرنا پڑی جب ملزمان نے پولیس اہلکاروں کے ریوالور چھیننے کی کوشش کی۔

جوادر نے اپنی درخواست میں کہا ’’تمام زخمی یا ہلاک ہونے والے افراد عسکریت پسند نہیں تھے اور اس وجہ سے انھیں پستول استعمال کرنے کی تربیت نہیں دی گئی تھی اور اس بات کا بہت امکان نہیں ہے کہ وہ پولیس فورس کے خلاف چھیننے کے بعد سروس ریوالور استعمال کر سکیں جو تعداد میں زیادہ اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام مبینہ ملزمان کسی تربیت یافتہ پولیس افسر سے سروس ریوالور چھین لیں جس کی پستول عام طور پر اس افسر کی کمر کی بیلٹ سے رسی سے بندھے ہوتی ہے۔‘‘

لائیو لاء کی خبر کے مطابق جوادر نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ ان فائرنگس میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کے لیے مقدمہ درج کرنے کی ہدایات دیں۔ انھوں نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کے ذریعہ فائرنگ کی عدالتی تحقیقات اور ان میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے مالی معاوضہ کا بھی مطالبہ کیا۔

ریاستی حکومت کے علاوہ جوادر نے آسام پولیس، ریاست کے محکمہ قانون و انصاف، قومی انسانی حقوق کمیشن اور آسام انسانی حقوق کمیشن کو بھی اس کیس میں فریقین کے طور پر نامزد کیا ہے۔